امتحان (سائبیرین لوک کہانی )

تحریر : دانیال حسن چغتائی


ہسکی نام کی ایک سائبیرین کتیا بہت خوش مزاج تھی۔ اس کی دو دوست تھیں ، ایک چی چی اور دوسری گولڈی۔تینوں ہر وقت سائبیریا کے سرد علاقے میں برف پر دوڑتی پھرتی تھیں۔ ایک روز ہسکی اور گولڈی حسب معمول کھیل کود میں لگی ہوئی تھیں کہ چی چی بھی وہاں پہنچی۔ اسے ہسکی اور گولڈی کا اس طرح کھیلنا کودنا اچھا نہ لگا تو اس نے غصے میں گولڈی کو ایک جھاڑی میں دھکیل دیا۔

رک جاؤ، ایسا مت کرو،ہسکی نے چیخ کر کہا مگر چی چی پر اس کا کوئی اثر نہ ہوا اور گولڈی جھاڑیوں کے کانٹوں میں الجھ کر زخمی ہو گئی۔

ہسکی نے کہا: یہ کیا کیا تم نے، گولڈی کو جھاڑیوں میں کیوں دھکیلا ؟

چی چی بولی : مجھے یہ اچھی نہیں لگتی، ہر وقت مجھ سے لڑتی رہتی ہے، میں اسے تمہارے ساتھ نہیں دیکھ سکتی۔ تم صرف میری دوست ہو۔

مگر گولڈی بہت اچھی ہے ، میرے ساتھ کبھی نہیں لڑتی، ہسکی نے کہا تو چی چی غصے میں چلاتی ہوئی وہاں سے واپس چلی گئی۔

اس کے جانے کے بعد گولڈی نے ہسکی سے کہا: ’’میں نے تم سے اس کے بارے میں کبھی کچھ نہیں کہا، مگر اب کہہ رہی ہوں ، تم اس سے دوستی رکھو یا مجھ سے۔ فیصلہ کر لو۔کیا یہ فیصلہ ابھی کرنا ہو گا ؟ہسکی نے پوچھا۔ نہیں، اچھی طرح سوچ لو، میں تمہارے فیصلے کا انتظار کروں گی۔اس کے بعد وہ دونوں برف پر دوڑتی چلی گئیں۔

ہسکی بہت اداس تھی۔ اسے کسی بھی کام میں مزہ نہیں آرہا تھا۔ اسے ایک سخت فیصلہ کرنا تھا جو اس کی ذہانت کا امتحان تھا۔

 دوسری جانب گولڈی پوری کوشش کر رہی تھی کہ کسی طرح اس کی چی چی سے دوستی ہو جائے۔ ہسکی سوچ رہی تھی کہ اگر ان دونوں میں دوستی ہو گئی تو سارا مسئلہ ہی حل ہو جائے گا۔ دراصل ہسکی کو اپنی یہ سہیلیاںبہت عزیز تھیں۔ وہ کسی کو بھی چھوڑنا نہیں چاہتی تھی۔

اس نے کچھ سوچا اور دوسرے روز ان دونوں کو اپنے گھر آنے کی اس طرح دعوت دی کہ دوسری کو کچھ نہ بتایا۔

چی چی ، ہسکی کے گھر کے پچھلے دروازے سے اندر پہنچی اور گولڈی سامنے والے دروازے سے۔ ہسکی نے انہیںخوش آمدید کہا اور بیٹھنے کو کہا تو چی چی بولی: گولڈی یہاں کیا کر رہی ہے ؟

میں نے تم دونوں کو یہاں بلایا ہے۔  ہسکی نے کہا۔ یہ سنتے ہی چی چی اور گولڈی نے لڑنا شروع کر دیا۔ کافی دیر اسی طرح گزر گئی۔ دو گھنٹے بعد ہسکی یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ چی چی اور گولڈی دونوں ایک دوسرے سے ہنس ہنس کر باتیں کر رہی ہیں۔ غرض ان میں پھر سے دوستی ہو گئی۔

 اس کے بعد وہ جب بھی کہیں جاتیں، تینوں ساتھ جاتیں ان میں پھر کبھی لڑائی نہیں ہوئی۔ سائبیریا کے لوگ ان کی دوستی کی مثالیں دیا کرتے تھے۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

احسان اللہ کے قرب کا ذریعہ

’’احسان کرو، اللہ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ)’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کو تمہارے اعمال کی خبر ہے‘‘ (سورۃ البقرہـ)

حُسنِ کلام : محبت اور اخوت کا ذریعہ

’’ اور میرے بندوں سے فرمائو وہ بات کہیں جو سب سے اچھی ہو‘‘(سورہ بنی اسرائیل )’’اچھی بات کہنا اور در گزر کرنا اس خیرات سے بہتر ہے جس کے بعد جتانا ہو‘‘(سورۃ البقرہ)

رجب المرجب :عظمت وحرمت کا بابرکت مہینہ

’’بیشک اللہ کے ہاں مہینوں کی گنتی 12ہے، جن میں سے 4 عزت والے ہیں‘‘:(التوبہ 36)جب رجب کا چاند نظر آتا تو نبی کریم ﷺ دعا مانگتے ’’اے اللہ!ہمارے لیے رجب اور شعبان کے مہینوں میں برکتیں عطا فرما‘‘ (طبرانی: 911)

مسائل اور اُن کا حل

(قرآن کریم کے بوسیدہ اوراق جلانا)سوال:قرآن کریم کے اوراق اگر بوسیدہ ہو جائیں تو انہیں بے حرمتی سے بچانے کیلئے شرعاً جلانے کا حکم ہے یا کوئی اور حکم ہے؟شریعت کی رو سے جو بھی حکم ہو، اسے بحوالہ تحریر فرمائیں۔ (اکرم اکبر، لاہور)

بانی پاکستان،عظیم رہنما،با اصول شخصیت قائد اعظم محمد علی جناحؒ

آپؒ گہرے ادراک اور قوت استدلال سے بڑے حریفوں کو آسانی سے شکست دینے کی صلاحیت رکھتے تھےقائد اعظمؒ کا سماجی فلسفہ اخوت ، مساوات، بھائی چارے اور عدلِ عمرانی کے انسان دوست اصولوں پر یقینِ محکم سے عبارت تھا‘ وہ اس بات کے قائل تھے کہ پاکستان کی تعمیر عدل عمرانی کی ٹھوس بنیادوں پر ہونی چاہیےعصرِ حاضر میں شاید ہی کسی اور رہنما کو اتنے شاندار الفاظ میں خراجِ عقیدت پیش کیا گیا ہو جن الفاظ میں قائد اعظم کو پیش کیا گیا ہے‘ مخالف نظریات کے حامل لوگوں نے بھی ان کی تعریف کی‘ آغا خان کا کہنا ہے کہ ’’ میں جتنے لوگوں سے ملا ہوں وہ ان سب سے عظیم تھے‘‘

قائداعظمؒ کے آخری 10برس:مجسم یقینِ محکم کی جدوجہد کا نقطہ عروج

1938 ء کا سال جہاں قائد اعظم محمد علی جناحؒ کی سیاسی جدوجہد کے لحاظ سے اہمیت کا سال تھا، وہاں یہ سال اس لحاظ سے بھی منفرد حیثیت کا حامل تھا کہ اس سال انہیں قومی خدمات اور مسلمانوں کو پہچان کی نئی منزل سے روشناس کرانے کے صلے میں قائد اعظمؒ کا خطاب بھی دیا گیا۔