عیدکی آمداور خواتین کے چیلنجز

گھر کی صفائی، شاپنگ اور بننا سنورنا
عید کی آمد جہاں خوشیوں، رونقوں اور میل جول کا پیغام لے کر آتی ہے، وہیں یہ خاص طور پر خواتین کیلئے ایک نیا امتحان اور کئی محاذوں پر بیک وقت سرگرم رہنے کا تقاضا بھی کرتی ہے۔ گھر کی صفائی، عید کی شاپنگ، بچوں کی تیاریاں، مہمان داری کے انتظامات، پکوان اورخود کا بننا سنورنا۔ یہ سب کچھ ایک ہی وقت میں کرنا ہر خاتون کیلئے نہ صرف جسمانی بلکہ ذہنی مشقت کا باعث بن جاتا ہے۔
گھر کی صفائی: تہوار سے پہلے کی جنگ
عید سے قبل گھر کی مکمل صفائی اور سجاؤٹ ایک غیر تحریری روایت بن چکی ہے۔پردے دھونا،قالین دھلوانا،فرنیچر کی ترتیب بدلنا،دیواروں کی صفائی،کچن کی ری آرگنائزنگ،بچوں کے کمرے نئے سرے سے ترتیب دینا،یہ سب کام خواتین تنہا یا بہت معمولی مدد کے ساتھ انجام دیتی ہیں۔ جس سے تھکن کے ساتھ ذہنی دباؤ بھی بڑھتا ہے۔ خاص طور پر ورکنگ ویمن کیلئے جنہیں دفتر اور گھر دونوں کی ذمہ داریاں نبھانی پڑتی ہیں۔
عید کی شاپنگ
شاپنگ بظاہر ایک پرلطف سرگرمی لگتی ہے، مگر عید کی شاپنگ ایک الگ ہی منظر پیش کرتی ہے۔ خواتین کو نہ صرف اپنی بلکہ شوہر کے کپڑے،بچوں کے جوتے، کپڑے، چوڑیاں، کھلونے، سسرال اور مہمانوں کے تحائف، عید کے پکوانوں کا سامان خریدنا ہوتا ہے اور یہ سب اکثر ایک محدود بجٹ میں۔مہنگائی کے اس دور میں شاپنگ ایک ’’فن‘‘ بن چکا ہے۔ جہاں خواتین کو چیزوں کی قیمت، معیار، ضرورت اور بجٹ کے درمیان توازن قائم رکھنا ہوتا ہے۔
بننا سنورناسماجی تقاضا
عید کے دن خواتین چاہتی ہیں کہ وہ خوبصورت دکھیں، نئے کپڑوں میں سجیں، خوشبو لگائیں، مہندی رچائیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ ان کی اپنی خوشی ہوتی ہے یا ایک سماجی ضرورت۔ ’’عید پر نئے کپڑے کیوں نہیں پہنے؟‘‘، ’’تم نے تو مہندی بھی نہیں لگائی‘‘، ’’باقی سب تیار ہوئیں، تم کیوں سادہ ہو‘‘، یہ جملے خواتین کو بار بار سننے کو ملتے ہیں۔ جس سے ایک غیر مرئی دباؤ پیدا ہوتا ہے کہ ہر حال میں خود کو عید کے ’’پروٹوکول‘‘ کے مطابق سنوارا جائے۔
وقت کی تنگی اور خود فراموشی
عید کے دنوں میں خواتین اکثر اپنے لیے وقت نہیں نکال پاتیں۔ وہ دوسروں کی خوشیوں، مہمان نوازی، بچوں کی تیاریوں اور گھر کے انتظامات میں اس قدر مصروف ہو جاتی ہیں کہ خود کو سنوارنا ایک ثانوی چیز بن جاتی ہے۔ اکثر خواتین آخری وقت پر جلدی جلدی کپڑے بدل کر صرف ’’حاضر‘‘ ہو جاتی ہیں۔یہ صورتحال کئی خواتین میں احساسِ محرومی، بے چینی اور نفسیاتی دباؤ پیدا کرتی ہے، جس کا اطراف کے لوگ ادراک بھی نہیں کر پاتے۔
عید پر خواتین کا کام نظر کیوں نہیں آتا؟
ہم اکثر عید کے موقع پر مردوں کو شاپنگ کرتے، قربانی کرتے یا نمازِ عید پڑھتے دیکھتے ہیں اور خواتین کو صرف ’’مہمانوں کو سنبھالتے‘‘ یا’’نئے کپڑوں میں مسکراتے‘‘ دیکھتے ہیں۔ مگر اس مسکراہٹ کے پیچھے راتوں کی نیندیں،بجٹ کا حساب، بازار کی دھکم پیل،گھر کی صفائی سے اٹھنے والا درد،خود پر خرچ نہ ہونے کا احساس چھپا ہوتا ہے، جو کسی کو نظر نہیں آتا۔
معاشرتی توازن اور تعاون کی ضرورت
وقت آگیا ہے کہ ہم خواتین کی قربانیوں کو صرف گھر کی چار دیواری میں بند نہ سمجھیں بلکہ ان کے کام کو تسلیم کریں۔ مرد حضرات، بچے اور دیگر اہلِ خانہ کو چاہیے کہ صفائی میں ہاتھ بٹائیں،شاپنگ کی منصوبہ بندی میں شامل ہوں،گھر کے کاموں میں بوجھ کم کریں،خواتین کے بننے سنورنے کے حق کو تسلیم کریں،کیونکہ اگر خواتین خوش، مطمئن اور آرام دہ ہوں گی تو عید کی خوشیوں میں ایک حقیقی چمک پیدا ہوگی۔
عید کی تیاریوں میں خواتین جو محنت، لگن اور محبت سے اپنا کردار ادا کرتی ہیں، وہ خود ایک ’’قربانی‘‘ سے کم نہیں۔ ان کے چیلنجز کو سمجھنا، ان کا ساتھ دینا اور ان کی خوشی کو اپنی خوشی سمجھنا یہی عید کی اصل روح ہے۔اس عید پر اپنے رویوں میں بھی تبدیلی لائیے۔ خواتین کو سراہئے، ان کا بوجھ بانٹیے، اور انھیں بھی خوشی سے عید منانے کا پورا موقع دیجئے۔