سوء ادب

تحریر : ظفر اقبال


چندہ مہم:کسی بڑے شہر میں بزرگ، بیمار یا نادار ادیبوں کی مدد اور فلاح و بہبود کے لیے ایک بہت بڑا مذاکرہ برپا تھا، جس میں ہند و پاک کے نامور ادیبوں نے بھی حصہ لیا۔ زوردار بحث و مباحثہ کے بعد جب یہ محسوس کیا گیا کہ لوگ چندہ دینے پر تیار ہو گئے ہیں تو سٹیج سے اعلان کیا گیا کہ حسبِ توفیق چندہ کیلئے اپنی رقم عنایت فرمائیں، جسے سن کر سامعین میں سے ایک آدمی بے ہوش ہو گیا اور دو اسے اٹھا کر باہر لے گئے۔

حالا نثرِ ما بشنو 

کسی شہر میں مشاعرہ برپا تھا تو سامعین میں سے ایک سامع نے دیکھا کہ ایک شخص اس کی ہجومیں شعر پڑھ رہا ہے۔ جب وہ پڑھ چکا تو وہ آدمی جوخاصہ قوی ہیکل تھا سٹیج پر آیا اور ہوروں مکوں کے علاوہ مغلظات سے اس کی خاطر تواضع شروع کردی۔ ساتھ ساتھ یہ بھی کہتا جاتا تھا کہ ’’ شعرِ شما شنیدہ ام ، حالا نثرِ ما بشنو‘‘۔

دیوانِ غالب مرمت شدہ 

’’شب خون‘‘ الہ آباد کے ایڈیٹر اور ہمارے کرم فرما شمس الرحمٰن فاروقی نے کہیں موج میں آ کر کہہ دیا کہ ظفر اقبال، غالب سے بڑا شاعر ہے۔ جس پر انتظار حسین نے پھبتی کَسی کہ شمس الرحمن فاروقی نے کہیں کہہ دیا کہ ظفر اقبال، غالب سے بڑا شاعر ہے تو ظفر اقبال کا ہاضمہ اس قدر تیز تھا کہ وہ اسے ہضم کر گیا۔ حالانکہ ہضم کرنے یا نہ کرنے کی بات تو یہ ہے کہ ہم نے غالب کی انگلی پکڑ کر ہی شاعری کا راستہ اختیار کیا تھا جبکہ چھوٹا یا بڑا ہونے کی بات بھی معروضی ہی ٹھہرتی ہے۔ 

بقول شخصے شاعر یا تو ہوتا ہے یا نہیں ہوتا۔ اگر شاعر ہو تو بھی اس کے کسی سے بڑا یا چھوٹا ہونے کی بات بے معنی ہے۔ کیونکہ کوئی شاعر ایک لحاظ سے چھوٹا یا بڑا ہوتا ہے تو دوسرے معنوں میں کسی اور سے چھوٹا یا بڑا ہو سکتا ہے۔ تاہم مشفق خواجہ نے مجھے ایک خط میں لکھا تھا کہ فاروقی نے یہ بات ایک ریڈیو ٹاک پہ کہی ہے۔ اس کے علاوہ بھارتی معتبر نقاد اور محقق نظام صدیقی نے بھی اپنی ایک کتاب میں اس کا حوالہ دیا ہے۔

 اصل بات یہ ہوئی کہ انہی دنوں فاروقی کا ایک مضمون ’شب خون‘ میں شائع ہوا۔ جس کے بارے میں، میں نے انہیں لکھا کہ اس مضمون میں زبان کی دس بارہ غلطیاں ہیں۔ جس پر انہوں نے اس کا اتنا ہی جواب دیا کہ ظفر اقبال جتنے اچھے شاعر ہیں اتنے ہی برے نقاد بھی ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے جو کچھ لکھا اس میں بھی زبان کی سات آٹھ غلطیاں تھیں جس کی میں نے نشاندہی کر دی، لیکن انہوں نے میرے اس خط کا کوئی جواب نہ دیا، جس پر میں نے انہیں غصے سے بھرا ہوا ایک خط لکھا کہ آپ ہمیں پنجابی ڈھگا سمجھ کر کوئی اہمیت نہیں دیتے وغیرہ وغیرہ۔ جس کا انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا اور میں نے’ شب خون ‘ میں لکھنا بند کر دیا اور یہ بائیکاٹ دو سال تک رہا۔ جب میرا بائی پاس ہوا تو انہوں نے میرا حال چال پوچھا جس پر ہمارے تعلقات بحال ہوگئے اور اگر ان میں یہ کھنڈت نہ پڑتی تو مجھے یقین ہے کہ وہ اس بات کو ثابت کرنے کی بھی کوشش کرتے۔ 

خیر چھوڑیے ، غالب کا یہ مقطع دیکھیے۔ 

اسد اللہ خاں تمام ہوا 

اے دریغا وہ رندِ شاہد باز 

دریغ رنج اور افسوس کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے اس لیے اے رنج یا اے افسوس بے معنی بات ہے ، زیادہ سے زیادہ ہائے افسوس یا وائے افسوس ہو سکتا تھا جو یہاں فٹ نہیں بیٹھتا چنانچہ انہوں نے اے’’ دریغا‘‘ لکھ کر اپنی جان چھڑائی۔ نیز شاہد گواہ اور محبوب کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ اس لیے اگر اسے محبوب کے معنوں میں بھی لیا جائے تو شاہد باز کہنا نا مناسب ہے، اس لیے یہ شعر قابلِ غور ہے۔ کیونکہ درگاہ یہاں لکھنے کا جواز نہیں ہے اور اپنے آپ کو شاہد باز کہنا بھی نفاست کے ذیل میں نہیں آتا۔ 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔