9 ویں برسی عبداللہ حسین اداس نسلوں کے محسن
ان کے ناول اور افسانے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خاکہ مکمل کرتے معلوم ہوتے ہیں
پاکستان کی سیاست کا شعور جس پختہ اور گہری سطح پر عبداللہ حسین کے ناولوں میں پایا جاتا ہے، اردو میں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔لیکن یہ شعور محض سیاسی نہیں ہے، سماج اور فرد سے جڑا ہوا ہے۔اردو میں عبداللہ حسین پہلے ناول نگار ہیں جنہوں نے ملک کی سیاسی تاریخ کو فکشن کی صورت میں اپنے تبصرے کے ساتھ محفوظ کیا۔ یہ تاریخ یوں تو ان کے سبھی ناولوں میں موجود ہے اور مجموعی طور پر اس سیاسی وژن کو ہم پر واضح کرتی ہے لیکن دو ناول اس حوالے سے خاص طورپر قابل ذکر ہیں،’’ اداس نسلیں‘‘ اور’’ نادار لوگ‘‘۔
عبداللہ حسین کے یہ دونوں ناول مل کر ایک اکائی کی تشکیل کرتے ہیں۔’اداس نسلیں‘ میں ہمیں ان نسلوں کی داستان سنائی جاتی ہے جنہوں نے آزادی کی تحریک میں حصہ لیا اور تقسیم کے عمل سے گزرے اور نئے آزاد ملک کی سرحد عبور کی۔ یہ ناول ان نسلوں کی توقعات کی شکست و ریخت کی کہانی بیان کرتا ہے۔ دوسری جانب ’نادار لوگ‘ میں ہمیں ان کے بعد آنے والی نسلوں کی داستان سننے کو ملتی ہے جو مایوسی کی منزل سے گزر کر ناداری اور بے بسی کی سطح پر اتر چکی ہیں۔ ان نسلوں کا اگلا پڑاؤ غالباًایسے مقام پر ہوگا جو ہر اخلاقی، قانونی اور سماجی اقدار سے آزادی کا مقام ہے ۔
ان دونوں ناولوں کے علاوہ بھی عبداللہ حسین کے دیگر ناول اور افسانے پاکستان کی سیاسی تاریخ کا خاکہ مکمل کرتے معلوم ہوتے ہیں، چاہے وہ’ باگھ‘ ہو، جس میں کشمیر میں مجاہدانہ سرگرمیوں کا ذکر موجود ہے یا’ قید‘ ہو جس میں جاگیرداری اور پیری مریدی جیسے اداروں کے درمیان گہرے گٹھ جوڑ کی طرف اشارہ کیا گیا ہے، جو اسٹیبلشمنٹ سے مل کر ٹرائیکا تشکیل دیتے ہیں اور یوں ملکی سیاست کی بساط مکمل ہوتی ہے۔اس منظر نامے میں عبداللہ حسین کے ایک اور کمال کا ذکر کرنا موزوں ہے کہ تخلیقی نثرجو اِن کے ناولوں اور کہانیوں میں ان کے فکشن کے انداز کو واضح کرتی ہے یہ نثر روایتی اردو نثر سے اتنی مختلف ہے کہ زبان کے معاملے میں روایت پسندی کے حامیوں نے اسے ماننے سے انکار کردیا۔ لیکن ساتھ ہی ساتھ یہ تخلیقی بہاؤ، رچاؤ اور قوت سے بھی تہی نہیں ہے۔ یہ تاریخ نگاری کی بھاری ذمہ داری پوری کرنے کی بھی اہل ہے۔ ناول کی پرت داری اور پیچیدگی گی کو بھی اپنے اندر سمولیتی ہے۔ عبداللہ حسین نے اس میں مقامیت کی رنگ آمیزی کرکے نئے رنگوں کے لہریے پیدا کیے۔ وہ خود اس بات کا اعتراف کرتے تھے کہ اردو جیسی کہ لکھنے والے عام طورپر لکھتے تھے، وہ انھیں لکھنا نہیں آتی، نہ اسے سیکھنے کی انہوں نے کبھی کوشش کی۔ ان کی تربیت غیر ملکی ادب کے مطالعے سے ہوئی تھی۔ زبان کو استعمال کرنے کی ضرورت پیش آئی تو انہوں نے مقامیت کی آمیزش سے اپنے فکشن کیلئے علیحدہ سے اپنی سہولت کے مطابق زبان تیار کرلی جسے پڑھنے والوں نے فوراً قبول کرلیا اور جسے ہم عبداللہ حسین کے اسلوب کے طورپر جانتے ہیں۔
عبداللہ حسین اسے ’’میری ذاتی اردو‘ ‘کانام دیتے تھے جو انہوں نے روایتی اردو سے ہٹ کر تشکیل دی تھی۔ آپ چاہیں تو اسے پاکستانی اردو بھی کہہ سکتے ہیں،جس میں پاکستانی زبانوں کا ذائقہ شامل ہے، ان کا مقامی آہنگ سنائی دیتا ہے اور یوں روایتی اردو سے مختلف ہونے کے باوجود وہ اتھلے پن کا شکار نہیں ہوتی۔
عبداللہ حسین نے یہ تجربہ’ اداس نسلیں‘ میں کیا اور یہی امر اس ناول کی مقبولیت کی متعدد وجوہات میں سے ایک ثابت ہوا۔جیسا کہ انہوںنے اپنے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ پڑھنے والوں نے، جو روایتی اردو پڑھ کر بوریت کا شکار ہوچکے تھے اور اسے اپنے ماحول سے موافق نہ پاتے تھے، اداس نسلیں میں مقامیت کی آمیزش سے تیار کی گئی نثر ملاحظہ کی تو اس کے حق میں ووٹ دے دیا۔ یہ روایتی نہ ہونے کے باوجود قاری کو اپنی جانب کھینچتی ہے۔
’اداس نسلیں‘ کے بعد عبداللہ حسین کی کہانیوں اور ناولٹوں پر مشتمل کتاب’ نشیب‘ منظر عام پر آئی تو اس میں نثر کے تیور کہیں مختلف تھے۔ نہ صرف نثر بلکہ موضوعات بھی اور اسلوب نگارش بھی اس کتاب میں ایسا ملتا ہے جس کی مثال ہمیں ان کے کسی دوسرے ناول میں نہیں ملتی۔’نشیب‘ کی نثر ہمیں عبداللہ حسین کی ادبی شخصیت کے ایسے رنگوں اور گوشوں سے متعارف کرواتی معلوم ہوتی ہے جن سے ان کا قاری یکسر بے خبر ہے۔
نشیب کی نثر میں یہ سوزوگداز تہہ میں نہیں رہتا، ابھر کر سطح پر آجاتا ہے، صاف محسوس ہوتا ہے۔اس نثر کے تیورسادہ اور ملائم ہیں۔جس کی وجہ ناسٹیلجیا کی فضا کا نم ہے۔ ’اداس نسلیں‘ کے برعکس یہاں چونکہ نثر کو تاریخ نگاری جیسی کسی بھاری ذمہ داری سے معاملہ نہیں کرنا ہے اس لیے یہ کہیں زیادہ سبک اور ہلکی پھلکی ہے۔ اس لیے اس میں جاذبیت اور احساس کو گرفت میں کرنے کی طاقت بھی زیادہ ہے۔اسی نثر کی طاقت سے’ ندی‘ جیسی کہانی کا جنم ہو اجسے بہت اعتماد کے ساتھ اردو کے چند مؤثر ترین یادگار کہانیوں میں شامل کیا جا سکتا ہے۔اس میں بلانکا کا کرداراردو کے ناقابل فراموش عورت کرداروں میں شامل کیا جا سکتا ہے جو طویل عرصے تک پڑھنے والے کے تخیل کو اپنے سحر میں مبتلا رکھتے ہیں۔
عبداللہ حسین نے اردو آٹھویں جماعت تک پڑھی تھی، نویں جماعت میں انہوں نے سائنس کو لازمی مضمون کے طور پر اختیار کیا اور بی ایس سی کرنے کے بعد سیمنٹ فیکٹری میں کیمسٹ ہوگئے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کہ ان کے والد کو نئے لکھنے والے اردو کے مصنفین کی کتابیں پڑھنے کا شوق تھا، چنانچہ عبداللہ حسین نے بھی کرشن چندر ، ممتاز مفتی، عصمت چغتائی، راجندر سنگھ بیدی اور منٹو کی کتابیں اپنی طالب علمی کے زمانے میں پڑھ ڈالیں اور تعلیم کی تکمیل کے بعد کی فرصت نے انہیں بور کرنا شروع کیا تو قلم اٹھایا اور ناول لکھنا شروع کردیا۔ اس وقت انہیں یہ علم نہیں تھا کہ وہ کوئی بڑا ادب پارہ تخلیق کررہے ہیں، انہوں نے تو اپنی فرصت کا ایک مناسب حل نکالا تھا اور جب ناول مکمل ہوگیا تو پبلشر کو بھیج دیا جن کے ادبی مشیر سلیم الرحمن تھے۔ 1963ء میں جب ’اداس نسلیں‘ شائع ہوا تو اسے متحدہ ہندوستان کا ایک نمائندہ ناول قرار دیا گیا اور اس کا موازنہ قراۃ العین حیدر کے ناول ’آگ کا دریا‘ سے کیا جانے لگا جو تاریخ کو الگ انداز میں بیان کرتا ہے اور صداقت یہ ہے کہ اس ناول نے عبداللہ حسین کو ایک دن میں ممتاز ناول نگاروں کی صف میں شامل کردیا اور پھر ان کی شہرت کم نہ ہوئی۔
عبداللہ حسین کا اصل نام محمد خان تھا۔ ابھی کم عمرہی تھے کہ والدہ وفات پا گئیں۔ ان کی تربیت ان کے والد اکبر خان نے کی جو سرکاری ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد گجرات میں آباد ہوگئے تھے۔ زمیندارہ کالج سے بی اے کرنے کے بعد حالات کی نامساعدت کی وجہ سے تعلیم جاری نہ رکھ سکے اور اپنی راہ خود نکال لی۔ کہانیاں تو انہوں نے میٹرک کے زمانے میں ہی لکھنا شروع کردی تھیں لیکن زیادہ شہرت افسانہ ’ندی‘ اور ’سمندر‘ کو حاصل ہوئی جو ’اداس نسلیں‘ کی ادبی رونمائی سے پہلے ان سے لکھوائی گئی تھیں۔ اہم بات یہ ہے کہ اس شہرت کو عبداللہ حسین نے نخوت پسند نہ بنایا اور پھر اچانک لندن چلے گئے جہاں انہوں نے ملازمت بھی کی اور عالمی افسانوی ادب کا مطالعہ گہری نظر سے کیا۔اس دوران انہوں نے دوسرا ناول ’باگھ‘ لکھا اور کہانیوں کا مجموعہ ’نشیب‘ دوبارہ شائع کیا۔ ’قید‘ اور ’رات‘ ان کے دو اور مختصر ناول ہیں۔ تاہم پانچویں ضخیم ناول ’نادار لوگ‘ میں عبداللہ حسین کا فن مزید نکھر کر سامنے آیا اور ان کی پذیرائی نہ صرف پوری اردو دنیا میں ہوئی بلکہ مختلف زبانوں میں ان کے تراجم بھی کیے گئے۔ ایک اور ناول ’آزاد لوگ‘ پر کام کررہے تھے کہ کینسر کے مرض نے ان کی جان لے لی۔
عبداللہ حسین اپنی وضع کے انوکھے ادیب تھے۔ انہوں نے کسی ادبی تنظیم کی رکنیت کبھی اختیار نہیں کی لیکن وہ کہا کرتے تھے کہ ترقی پسند تحریک نے ادب کے امکانات کو وسیع کیا، نئے موضوعات دیئے اور ادیبوں کی سوچ کا زاویہ بدل ڈالا لیکن وہ یہ بھی کہے بغیر نہ رہ سکے کہ اس تحریک میں سیاست در آئی اور یہ پروپیگنڈا بن کر رہ گئی۔ کرشن چندر کے بارے میں ان کا خیال تھا کہ اس نے کمرشل رویہ اختیار کرلیا اور ادب پر اپنا نظریہ ٹھونسنا شروع کردیا۔ ان کے خیال میں تخلیقی کام اور بالخصوص ناول اور افسانے کا فیصلہ وقت کرتا ہے، بالفاظ دیگر فن کا اصلی منصف زمانہ ہے۔ پروپیگنڈا ادب کو دوام ابد عطا نہیں کرسکتا۔عبداللہ حسین اپنے عہد کے ادب کے بارے میں باخبر تھے۔ وہ ادبی انجمنوں کے جلسوں میں تو شریک نہیں ہوتے تھے لیکن قومی اور بین الاقوامی سطح پر ہونے والی کانفرنسوں میں بلائے جاتے تو ضرور جاتے اور اپنے خیالات کا اظہار برملا کرتے جو دوسرے نقادوں کی گھسی پٹی آرا سے مختلف ہوئے اور بعد میں موضوع بحث بھی بنائے جاتے۔14 اگست 1931ء کو راولپنڈی میں پیدا ہونے والے عبداللہ حسین دس سال قبل 4 جولائی 2015ء کو لاہور میں وفات پاگئے۔
اعزازات
عبداللہ حسین کو حکومتِ پاکستان کی جانب 2012ء میں ادبی ایوارڈ ’’ کمالِ فن‘‘سے نوازا گیا۔
’ اداس نسلیں‘ وہ ناول تھا جس پر انہوں نے آدم جی ایوارڈ اپنے نام کیا تھا۔
عبداللہ حسین، ڈاکٹرانور سدید کی نظر میں
ڈاکٹرانور سدید نے کہا تھا کہ عبداللہ حسین ان خوش قسمت ادیبوں میں شمار کئے جاتے ہیں جو اپنی پہلی تصنیف پر ہی شہرت کی چاندنی میں شرابور ہوجاتے ہیںاور ان کی تصنیف کا ذکر ملک کے ہر لکھے پڑھے شخص کی زبان پر بے اختیار ہونے لگتا ہے۔
عبداللہ حسین کی چندتصانیف
ناول
اداس نسلیں(1963)‘ باگھ (1982 )‘ نادار لوگ (1996)‘ Emigre Journeys (2000 )‘ The Afghan Girl
ناولٹ
قید (1989)‘ رات (1994 )‘ افسانے‘ نشیب(1981ء)‘ فریب (2012ء)
تراجم
The Weary Generations (اداس نسلیں کا ترجمہ)
’’کانٹے کے تول جیسی نثر‘ ‘
عبداللہ حسین کی نثر کے حوالے سے محمد خالد اختر نے ’’کانٹے کے تول جیسی نثر‘ ‘جیسے الفاظ استعمال کیے جس میں بظاہر کھردرا پن اور خشکی تو ہے لیکن اندر اندر گہرا سوز اور نم بھی ہے۔حقیقتاً یہ اردو ناول میں پاکستانی اردو لکھنے کی اوّلین کاوش تھی۔اس نثر کے اجزائے ترکیبی کیا ہیں، آہنگ اور لفاظی میں مقامیت پسندی، بیان کی سادگی، اور اداسی اور تنہائی کی پرسوز فضاجو عبداللہ حسین کی شگفتگی کی تہہ میں بھی کارفرما دکھائی دیتی ہے۔جبکہ یہ نم اسے یکسر خشک ہونے سے بچاتا ہے اور اس میں سب سے گہرا رنگ ناسٹلجیا کا ہے۔