بلوچستان بدامنی کی لپیٹ میں

تحریر : عرفان سعید


کوئٹہ میں مغوی بچے کے قتل کا سانحہ دل دہلا دینے والا واقعہ ہے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی غفلت اور نااہلی کی بدترین مثال ہے۔ 15 نومبر 2024ء کو 14 سالہ مصور کاکڑ کوسکول جاتے ہوئے اغوا کیا گیا تھا، سات ماہ تک وہ لاپتہ رہا۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ اس کی لاش بھی اتفاقیہ طور پر برآمد ہوئی۔بلوچستان ہائی کورٹ کے دو رکنی بینچ نے اس صورتحال کو ادارہ جاتی ناکامی قرار دیا۔

 عدالت کا کہنا تھا کہ یہ ایک روٹین کیس تھا جسے حل کرنا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے لیے مشکل نہیں ہونا چاہیے تھا۔سات ماہ تک جے آئی ٹی اور دیگر ادارے رسمی کارروائیوں میں مصروف رہے جبکہ مصورکا کڑکا خاندان کرب کی حالت میں انصاف کا منتظر رہا۔ یہ انکشاف بھی ہوا کہ مغوی بچہ پورے سات ماہ کوئٹہ سے 50 کلومیٹر کے دائرے میں رہا۔ اگر بروقت اور مؤثر تفتیش کی جاتی تو شاید مغوی بچے کی جان بچائی جا سکتی۔ڈی آئی جی کوئٹہ نے بتایا ہے کہ اغوا کاروں نے ابتدائی طور پر بچے کی رہائی کے عوض 12ملین ڈالر تاوان طلب کیا تھا۔ اُن کے مطابق، واقعے میں کالعدم تنظیم داعش ملوث پائی گئی۔ کالعدم تنظیم کی جانب سے ایران اور افغانستان کے نمبروں سے لواحقین کو فون آتے رہے۔ مصور خان کاکڑ کے اغوا کاروں میں تین افغانی ملوث تھے۔ یہ سانحہ اس سنگین المیے کی یاددہانی ہے کہ ہمارے پولیس نظام، تحقیقاتی اداروں اور انٹیلی جنس نیٹ ورکس میں اصلاحات کی کتنی گنجائش موجود ہے۔ رسمی رپورٹس، اجلاس اور کاغذی کارروائیاں اگر حقیقی عمل سے خالی ہوں تو ان کا فائدہ کچھ نہیں ہوتا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ اس کیس کو مثال بنایا جائے۔ متعلقہ افسران کا احتساب کیا جائے، غفلت برتنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے اور عوامی اعتماد کی بحالی کیلئے ریاستی ادارے اپنی کارکردگی کو بہتر کریں۔ 

دوسری جانب بلوچستان کے ضلع مستونگ میں درجنوں مسلح افراد کا شہر پر حملہ، سرکاری دفاتر، بینکوں اور پولیس تھانے کو نذر آتش کرنا ریاستی رِٹ پر سوال اٹھاتا ہے اور سکیورٹی نظام کی خامیوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ کوئٹہ سے 50 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع مستونگ میں دہشت گردوں کی دو گھنٹے تک کارروائی ایک افسوسناک حقیقت کی عکاس ہے کہ بلوچستان بدستور بدامنی کی لپیٹ میں ہے۔اس واقعے میں ایک 16 سالہ نوجوان جاں بحق جبکہ سات افراد زخمی ہوئے۔ شہر فائرنگ اور دھماکوں سے گونجتا رہا، بازار بند ہو گئے، لوگ دفاتر اور دکانیں چھوڑ کر گھروں میں چھپنے پر مجبور ہوئے۔ اگرچہ سکیورٹی فورسز نے کارروائی کرتے ہوئے دو حملہ آوروں کو ہلاک اور علاقے کو کلیئر کرنے کا دعویٰ کیا ہے لیکن اصل سوال یہ ہے کہ مسلح جتھے شہر میں داخل کیسے ہوئے؟ کیا انٹیلی جنس نظام مکمل طور پر ناکام ہو چکا ہے؟ اور یہ بھی قابلِ غور ہے کہ مستونگ میں پچھلے چند ہفتوں کے دوران یہ پہلا واقعہ نہیں اس سے پہلے بھی لیویز تھانوں، شاہراہوں اور گاڑیوں پر حملے ہو چکے ہیں۔ حکومتی ترجمان نے ان حملوں کو فتنہ الہندوستان کا شاخسانہ قرار دیا جو اگرچہ ایک ممکنہ خارجی خطرہ کی طرف اشارہ ہے تاہم اس بیانیے کے ساتھ داخلی کمزوریوں پر پردہ ڈالنا مناسب نہیں۔ حکومت کو دعوؤں کے بجائے عملی اقدامات سے دہشت گردوں کو پیغام دینا ہوگا۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مستونگ سمیت بلوچستان کے دیگر علاقوں میں انٹیلی جنس نیٹ ورک کو فعال کیا جائے، فورسز کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے اور عوام کو ساتھ لے کر دہشت گردی کے خلاف مؤثر حکمت عملی ترتیب دی جائے بصورت دیگر یہ حملے بڑھتے رہیں گے اور عوام کا ریاست پر اعتماد متاثر ہو گا۔

 بلوچستان اس وقت شدید انسانی و ماحولیاتی بحران کا بھی شکار ہے۔ ایک ہفتے کے دوران شدید بارشوں اور سیلابی ریلوں کے نتیجے میں 18 افراد جاں بحق ہو چکے جبکہ 35 سے زائد افراد زخمی ہوئے ہیں۔ صوبے کے مختلف اضلاع خصوصاً لسبیلہ، آواران، کیچ، خضدار، بارکھان اور دکی میں جو تباہی دیکھنے میں آئی ہے وہ نہ صرف حکومت کے لیے ایک آزمائش ہے بلکہ ریاستی اداروں کی تیاری پر بھی سوالیہ نشان ہے۔ندی نالوں میں طغیانی، دیہاتوں کا زمینی رابطہ منقطع ہونا اور بنیادی سہولیات کی عدم دستیابی ایک ایسا منظر پیش کرتی ہے جو کسی بھی ریاست میں قابلِ قبول نہیں۔ متاثرہ علاقوں میں پانی، خوراک، ادویات اور رہائش کی قلت نے عوام کو اذیت میں مبتلا کر دیا ہے جبکہ متعدد مقامات پر مقامی آبادی گھروں میں محصور ہے۔مزید تشویش کی بات یہ ہے کہ محکمہ موسمیات نے آئندہ دنوں میں مزید بارشوں کی پیشگوئی کی ہے جس سے صورتحال مزید بگڑنے کا خطرہ ہے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ وفاقی و صوبائی حکومت فوری طور پر ہنگامی بنیادوں پر ریلیف آپریشن کو مؤثر اور مربوط بنائے، متاثرہ علاقوں میں مواصلاتی رابطوں کی بحالی کو ترجیح دیں اور نقصانات کے ازالے کے لیے خصوصی فنڈز مختص کئے جائیں۔ بلوچستان پہلے ہی محرومیوں اور پسماندگی کا شکار ہے حکومتی بے حسی برقرار رہی تو اس کے اثرات صرف حال تک محدود نہیں رہیں گے بلکہ مستقبل کو بھی گہرے زخم دیں گے۔

رواں ہفتہ حکومت نے نئے مالی سال کے آغاز پر 50 ارب روپے کے ترقیاتی فنڈز جاری کر کے نہ صرف ایک تاریخ ساز اقدام اٹھایا ہے بلکہ صوبے میں ترقیاتی اپروچ کی ایک نئی مثال قائم کی ہے۔ یکم جولائی کی شب محکمہ خزانہ بلوچستان کی جانب سے فنڈز کے اجرا کا نوٹیفکیشن جاری کیا گیا جو واضح کرتا ہے کہ بلوچستان میں منصوبہ بندی، فیصلہ سازی اور عمل درآمد میں تاخیر نہیں ہو رہی۔وزیر اعلیٰ میر سرفراز بگٹی نے ترقیاتی عمل کے لیے جو حکمت عملی اپنائی ہے وہ قابلِ تحسین ہے۔ ادھر جمعیت علماء اسلام بلو چستان اور سینئر سیاستدان نوابزادہ لشکری رئیسانی اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک نے مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کو عدالت میں چیلنج کرنے کا اعلان کردیا۔جمعیت علماء اسلام کے صوبائی امیر وسینیٹرمولانا عبدالواسع کہتے ہیں کہ بلوچستان اسمبلی میں تما م سیا سی جماعتوں کو اندھیرے میں رکھ کر مائنز اینڈ منرلز ایکٹ پاس کروایا گیاجس کے خلاف عدالت سے رجوع کریں گے۔ نوابزادہ لشکری رئیسانی اورسابق سینیٹر افراسیاب خٹک کے بقول 2024ء کے انتخابات کو اکثر جماعتیں شفاف نہیں مانتیں، بلوچستان میں ڈمی الیکشن کرایا گیا اور ڈمی الیکشن کی حکومت نے عجلت میں مائنز اینڈ منرلز ایکٹ منظور کرایا۔ان کا کہنا تھا کہ مائنز اینڈ منرلز ایکٹ کے تحت بلوچستان کے وسائل کو چھینا جائے گا۔ 18ویں آئینی ترمیم کے تحت صوبے کو ملنے والے اختیارات کو وفاق کو دے دیا گیا ہے جسے عدالت میں چیلنج کیا جائے گا۔ ادھر جے یو آئی کے صوبائی امیر نے پارٹی ڈسپلن کی خلاف ورزی پر رکن اسمبلی زابد علی ریکی کی پارٹی رکنیت معطل کردی ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭