شعورِ وقت، تہذیبِ نفس اور تقویٰ محرم الحرام کے سماجی و دینی تقاضے

یہ مہینہ ہمیں انفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ اجتماعی فلاح کا پیغام بھی دیتا ہے
اسلامی سال کا پہلا مہینہ ’’محرم الحرام‘‘ ہر مسلمان کیلئے صرف نئے ہجری سال کی شروعات نہیں بلکہ ایک ایسا روحانی لمحہ ہے جو وقت کے مفہوم، زندگی کے نصب العین اور انسان کے رب کے ساتھ تعلق کی گہرائی کو تازہ کرتا ہے۔ اسلامی تقویم کا آغاز کسی جشن یا دنیاوی مسرت کی علامت نہیں، بلکہ فکر و احتساب کی صدا ہے، جو ہر مؤمن کے دل میں یہ سوال جگاتی ہے کہ ایک اور سال گزر گیا، میں نے کیا پایا، کیا کھویا اور آئندہ کی راہ کیسی ہو؟
قرآن مجید نے جن چار مہینوں کو اشہرِ حرم کا شرف عطا فرمایا، ان میں محرم الحرام کو خاص مقام حاصل ہے۔ یہ مہینے صرف چند دنوں کا نام نہیں بلکہ یہ اسلام کے اس معاشرتی پیغام کی علامت ہیں جو امن، عزتِ نفس، رواداری اور باہمی احترام پر قائم ہے۔ اشہرِ حرم کی حرمت ہمیں یہ سکھاتی ہے کہ انسانیت کی فلاح صرف عبادات میں نہیں، بلکہ اخلاقی عظمت، سماجی ذمہ داری اور باہمی رواداری میں بھی ہے۔
محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ وقت ایک امانت ہے، جو پل پل گزر کر ہماری زندگی کی داستان رقم کر رہا ہے۔ جیسا کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں بہت سے لوگ خسارے میں ہیں، صحت اور فراغت‘‘ (صحیح بخاری)۔اس حدیث میں وقت کی اہمیت کو اس خوبصورتی سے بیان کیا گیا ہے کہ انسان کو اپنا ہر لمحہ قیمتی سمجھنا چاہیے۔ محرم کا مہینہ ہمیں یہ شعور عطا کرتا ہے کہ ہم وقت کو بے مقصد نہ گزاریں بلکہ ہر دن، ہر ساعت کو نیکی، خیر اور خدمتِ خلق سے روشن کریں۔
نئے ہجری سال کا آغاز تقویمی لحاظ سے اگرچہ سادہ تبدیلی ہے لیکن روحانی اعتبار سے یہ ایک بڑی تبدیلی کا موقع ہے۔ یہ موقع ہے اپنے نفس کا محاسبہ کرنے کا، اپنے اعمال کا جائزہ لینے کا، اپنے تعلق مع اللہ کو گہرا کرنے کا۔ ایک مؤمن صرف اپنی گزشتہ غلطیوں پر نادم نہیں ہوتا بلکہ آئندہ کیلئے عزمِ نو بھی کرتا ہے۔ وہ یہ ارادہ کرتا ہے کہ میں قرآن کو اپنی زندگی کا رہنما بناؤں گا، سچ بولوں گا، وقت کی قدر کروں گا، معاشرے کیلئے خیر کا سبب بنوں گا اور دنیا میں اسلام کے امن، محبت اور عدل کے پیغام کو عام کروں گا۔
محرم الحرام کا مہینہ ہمیں باطن کی تطہیر، نفس کی تہذیب اور روح کی بالیدگی کی دعوت دیتا ہے۔ یہ صرف ظاہری عزت و وقار کا مہینہ نہیں بلکہ ایک ایسا دورانیہ ہے جو انسان کو اس کی اندرونی حالت پر غور کرنے پر مجبور کرتا ہے۔ ہر باشعور مسلمان کو چاہیے کہ وہ خود سے یہ سوال کرے: کیا میرا دل گناہوں سے پاک ہے؟ کیا میری نیت خالص ہے؟ کیا میری زبان دوسروں کیلئے باعثِ خیر ہے؟ کیا میں دوسروں کے حق ادا کر رہا ہوں؟ کیا میں اپنے اردگرد کے لوگوں کیلئے آسانی کا ذریعہ ہوں؟
یہ مہینہ ہمیں انفرادی اصلاح کے ساتھ ساتھ اجتماعی فلاح کا پیغام بھی دیتا ہے۔ آج کا مسلمان جن مسائل سے دوچار ہے، ان میں سب سے بڑا مسئلہ عدم برداشت، افتراق و انتشار، اور باہمی بدگمانی ہے۔ محرم ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہم ایک امت ہیں اور امت کا شیرازہ صرف اس وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کی عزت کریں اور ہر حالت میں عدل و احسان کو اپنا شعار بنائیں۔
دین صرف عبادات کا مجموعہ نہیں بلکہ حسنِ اخلاق، حسنِ سلوک اور حسنِ تعلقات بھی دین کا جوہر ہیں۔ نبی کریم ﷺکی سیرت گواہ ہے کہ آپﷺ نے صرف نماز، روزہ اور حج کی دعوت نہیں دی بلکہ لوگوں کے ساتھ معاملات میں نرمی، سچائی، خیر خواہی اور عدل کو بھی دین کا حصہ بنایا۔ محرم ہمیں اسی سیرتِ طیبہ کو اپنانے کی ترغیب دیتا ہے۔ یہ مہینہ معاشرتی خیر خواہی، اصلاحِ باطن اور فکری بیداری کا موسم ہے۔
عبادت و بندگی کے اعتبار سے بھی محرم کا مہینہ بڑی فضیلت رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے اسے ’’شہرْ اللہ‘‘ یعنی اللہ کا مہینہ فرمایا اور اس میں روزہ رکھنے کی خاص تاکید کی۔ گو کہ عبادات کا دائرہ پورے سال پر محیط ہے لیکن محرم کی روحانی فضا دلوں کو عبادت کی طرف کھینچتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ان دنوں میں عبادات کے ذریعے اللہ سے قرب حاصل کریں، دعا کریں کہ یا اللہ! ہمیں اس نئے سال میں گناہوں سے بچا، نیکیوں کی توفیق دے اور ہمارے دلوں کو ایمان، محبت اور خیر سے منور کر۔
جو قومیں وقت کے ساتھ اپنے اہداف مقرر نہیں کرتیں، وہ اپنی منزل کھو دیتی ہیں۔ محرم ہمیں دعوت دیتا ہے کہ ہم اپنی زندگی کیلئے ایک واضح لائحہ عمل بنائیں۔ ہمیں اس بات کا عہد کرنا چاہیے کہ ہم خود کو قرآن کے قریب کریں گے، جھوٹ، غیبت، فریب اور بدگمانی سے بچیں گے، سماج میں نرمی، انصاف اور خیر کو فروغ دیں گے، اور اپنے ہر عمل کو رضائے الٰہی کے تابع بنانے کی سعی کریں گے۔
محرم الحرام ہمیں یہ سبق دیتا ہے کہ روحانی بیداری کے بغیر سماجی فلاح ممکن نہیں اور فرد کی اصلاح کے بغیر امت کی اصلاح ناممکن ہے۔ یہ مہینہ ہمیں اپنے رب کی طرف لوٹنے، اپنے کردار کو سنوارنے اور معاشرے میں بھلائی عام کرنے کا سنہری موقع عطا کرتا ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم اس موقع کو رسمی تقویمی تبدیلی نہ سمجھیں بلکہ اسے ایک بیداری، تجدیدِ عہد اور عملی اصلاح کا ذریعہ بنائیں۔اللہ رب العزت ہمیں اس مہینے کی روح کو سمجھنے، اس کے پیغام پر عمل کرنے، اور اپنی انفرادی و اجتماعی زندگی کو تقویٰ، اخلاص اور حسنِ اخلاق سے مزین کرنے کی توفیق عطا فرمائے، آمین ۔