عاشورا:اللہ کی رحمت و برکت کا حامل دن

تحریر : مولاناقاری محمد سلمان عثمانی


عظیم تاریخی واقعات اس سے جڑے ہیں، زمانہ جاہلیت میں بھی محترم دن تھا

 محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو عاشورا کہا جاتا ہے، جس کے معنی ہیں دسواں دن۔ یہ دن اللہ تعالیٰ کی خصوصی رحمت اور برکت کا حامل ہے۔یوم عاشورا زمانہ جاہلیت میں قریش مکہ کے نزدیک بڑا محترم دن تھا۔ اسی دن خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالا جاتا تھا اور قریش اس دن روزہ رکھتے تھے۔ قیاس یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی کچھ روایات اس کے بارے میں ان تک پہنچی ہوں گی۔

 رسول اللہﷺ کا یہ عمل تھا کہ قریش ملت ابراہیمی کی نسبت سے جو اچھے کام کرتے تھے، ان کاموں میں آپﷺان سے اتفاق و اشتراک فرماتے تھے۔ اپنے اس اصول کی بنا پر آپ ﷺقریش کے ساتھ عاشورا کا روزہ بھی رکھتے تھے لیکن دوسروں کو اس کا حکم نہیں دیتے تھے۔  پھر جب آپ ﷺ مدینہ طیبہ تشریف لائے اور یہاں یہود کو بھی آپ ﷺ نے عاشورا کا روزہ رکھتے دیکھا اور ان کی یہ روایت پہنچی کہ یہ وہ مبارک تاریخی دن ہے، جس میں حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو اللہ تبارک وتعالیٰ نے نجات عطا فرمائی تھی، فرعون اور اس کے لشکر کو غرقاب کیا تھا تو آپ ﷺ نے اس دن کے روزے کا زیادہ اہتمام فرمایا اور مسلمانوں کو بھی عمومی حکم دیا کہ وہ بھی اس دن روزہ رکھا کریں(صحیح بخاری، 481/1)۔

 بعض حدیثوں میں ہے کہ آپﷺ نے اس کا ایسا تاکیدی حکم دیا جیسا حکم فرائض اور واجبات کیلئے دیا جاتا ہے۔ بخاری ومسلم میں سلمہ بن الاکوع  ؓ اور ربیع بنت معوذ بن عفراؓ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے یوم عاشورا کی صبح مدینہ منورہ کے آس پاس کی ان بستیوں میں جن میں انصار رہتے تھے، یہ اطلاع بھجوائی کہ جن لوگوں نے ابھی تک کچھ کھایا پیا نہ ہو وہ آج کے دن روزہ رکھیں۔ جنھوں نے کچھ کھاپی لیا ہو وہ بھی دن کے باقی حصے میں کچھ نہ کھائیں بلکہ روزہ داروں کی طرح رہیں۔ بعد میں جب رمضان المبارک کے روزے فرض ہوئے تو عاشورا کے روزہ کی فرضیت منسوخ ہوگئی اور اس کی حیثیت ایک نفلی روزہ کی رہ گئی (بخاری شریف268/1 ،مسلم شریف 320/1)۔ اس کے بعد بھی رسول اللہﷺ کا معمول یہی رہا کہ آپﷺ رمضان المبارک کے فرض روزوں کے علاوہ نفلی روزوں میں سب سے زیادہ اسی روزہ کا اہتمام فرماتے تھے (معارف الحدیث، 4/128) 

یوم عاشورا بڑا ہی مہتم بالشان اور عظمت والا دن ہے، تاریخ کے عظیم واقعات اس سے جڑے ہوئے ہیں۔ مورخین نے لکھا ہے:

٭… یوم عاشورا میں ہی آسمان وزمین، قلم اور حضرت آدم علیہ السلام کو پیدا کیاگیا۔

٭…اسی دن حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول ہوئی۔

٭…اسی دن حضرت ادریس علیہ السلام کو آسمان پر اٹھایا گیا۔

٭…اسی دن حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی ہولناک سیلاب سے محفوظ ہوکر کوہِ جودی پر لنگرانداز ہوئی۔

٭…اسی دن حضرت ابراہیم علیہ السلام کو ’’خلیل اللہ‘‘ بنایا گیا اور ان پر آگ گلِ گلزار ہوئی۔

٭…اسی دن حضرت اسماعیل علیہ السلام کی پیدائش ہوئی۔

٭…اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کو قید خانے سے رہائی نصیب ہوئی اور مصر کی حکومت ملی۔

٭… اسی دن حضرت یوسف علیہ السلام کی حضرت یعقوب علیہ السلام سے ایک طویل عرصے کے بعد ملاقات ہوئی۔

٭…اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم بنی اسرائیل کو فرعون کے ظلم واستبداد سے نجات حاصل ہوئی۔

 ٭…اسی دن حضرت موسیٰ علیہ السلام پر توریت نازل ہوئی۔

٭…اسی دن حضرت سلیمان علیہ السلام کو بادشاہت واپس ملی۔

٭…اسی دن حضرت ایوبؑ کو بیماری سے شفا نصیب ہوئی۔

٭…اسی دن حضرت یونس علیہ السلام چالیس روز مچھلی کے پیٹ میں رہنے کے بعد نکالے گئے ۔

٭…اسی دن حضرت یونس علیہ السلام کی قوم کی توبہ قبول ہوئی اور ان کے اوپر سے عذاب ٹلا۔

٭… حضرت عیسیٰ ؑ کی پیدائش ہوئی اوراسی دن حضرت عیسیٰ ؑکو یہودیوں کے شر سے نجات دلاکر آسمان پر اٹھایاگیا۔

٭… اسی دن دنیا میں پہلی بارانِ رحمت نازل ہوئی۔

٭…اسی دن قریش خانہ کعبہ پر نیا غلاف ڈالتے تھے۔

٭… اسی دن حضور اکرمﷺنے حضرت خدیجۃالکبریٰ رضی اللہ عنہا سے نکاح فرمایا۔ 

٭… اسی دن کوفی فریب کاروں نے نواسہ رسول ﷺ اور جگر گوشہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کو میدانِ کربلا میں شہید کیا

٭…اسی دن قیامت قائم ہوگی (معارف الحدیث 168/4)

مذکورہ بالا واقعات سے تو یوم عاشورا کی خصوصی اہمیت کا پتہ چلتا ہی ہے، علاوہ ازیں نبی کریمﷺ سے بھی اس دن کی متعدد فضیلتیں وارد ہیں۔ حضرت ابن عباس ؓفرماتے ہیں میں نے نبی کریم ﷺ کوکسی فضیلت والے دن کے روزہ کا اہتمام بہت زیادہ کرتے نہیں دیکھا، سوائے اس دن یعنی یوم عاشورا کے اور سوائے اس ماہ یعنی ماہِ رمضان المبارک کے (صحیح بخاری 268/1، صحیح مسلم 360-361)

حضرت ابوقتادہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ عاشورا کے دن کا روزہ گزشتہ سال کے گناہوں کا کفارہ ہے۔ (کذا فی الترغیب2/115)۔ان احادیث مبارکہ سے ظاہر ہے کہ یوم عاشورا بہت ہی عظمت و تقدس کا حامل ہے، لہٰذا ہمیں اس دن کی برکات سے بھرپور فیض اٹھانا چاہیے۔

احادیث طیبہ سے یومِ عاشورا میں صرف دو چیزیں ثابت ہیں ، ایک روزہ جیساکہ اس سلسلے میں روایات گزرچکی ہیں، یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ احادیث میں نبی کریم ﷺنے کفار ومشرکین کی مشابہت اور یہود ونصاریٰ کی بود وباش اختیار کرنے سے منع فرمایا ہے، اس حکم کے تحت چونکہ تنہا یوم عاشورا کا روزہ رکھنا یہودیوں کے ساتھ اشتراک اور تشابہ تھا، دوسری طرف اس کو چھوڑ دینا اس کی برکات سے محرومی کا سبب تھا اس لیے رسول اللہﷺ نے ہمیں یہ تعلیم دی کہ یوم عاشورا کے ساتھ ایک دن کا روزہ اور ملالو، بہتر تو یہ ہے کہ نویں اور دسویں تاریخ کا روزہ کھو، اور اگر کسی وجہ سے نویں کا روزہ نہ رکھ سکو تو پھر دسویں کے ساتھ گیارہویں کا روزہ رکھ لو تاکہ یہود کی مخالفت ہوجائے اور ان کے ساتھ کسی بھی قسم کا تشابہ نہ رہے۔

حضرت عبداللہ بن عباس ؓسے مروی ہے کہ جب رسول اللہﷺ نے یوم عاشورا کا روزہ رکھا اور مسلمانوں کو بھی اس کا حکم دیا تو بعض صحابہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہﷺ! اس دن کو یہود و نصاریٰ بڑے دن کی حیثیت سے مناتے ہیں (تو کیا اس میں کوئی ایسی تبدیلی ہوسکتی ہے جس کے بعد یہ اشتراک اور تشابہ والی بات ختم ہوجائے) تو آپﷺنے ارشاد فرمایا یعنی جب اگلا سال آئے گا تو ہم نویں کو بھی روزہ رکھیں گے (مسلم شریف1/359)۔ حضرت ابن عباسؓ بیان فرماتے ہیں کہ اگلاسال آنے سے پہلے ہی رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوگئی۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اعمال صالحہ کر نے کی توفیق نصیب فرمائیں۔آمین

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

شہادتِ سیدنا حسین رضی الله عنہ

نواسہ رسول ؓ نے کربلا کے میدان میں دین اسلام کو دائمی بقا عطا کی

آفتابِ حسینیت کی حسین کرنیں

کوئی نہیں حسین سا،حسین بس حسین ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہےظلم کی چاند پہ زہرا کی گھٹا چھائی ہے

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیراور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر

عظیم شاہسوار (پانچویں قسط)

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے گزارش کی ’’ امیر محترم! موجودہ طریقہ جنگ میں مجھے کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے‘‘۔’’ابن زبیر‘‘! عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ بولے: ’’میدان جنگ کی صورتحال کو دیکھ کر ہی میں نے اس انداز جنگ کو اختیار کیا ہے، اگر تمہارے ذہن میں اس سے بہتر کوئی تجویز ہے تو ضرور بتائو‘‘؟

پھر سے ساتھ!

عائشہ امیر گھرانے کی لاڈلی بیٹی تھی۔ بنگلہ، نوکر چاکر، بہترین اسکول اور ہر سہولت میسر تھی۔ اس کے والدین اکثر کاموں میں مصروف رہتے، سو اس کا زیادہ وقت اپنی ہم جماعت سدرہ کے ساتھ گزرتا تھا۔ سدرہ، دراصل عائشہ کے گھر میں کام کرنے والی ماسی رضیہ کی بیٹی تھی۔ دونوں ایک ہی اسکول اور ایک ہی کلاس میں تھیں۔ سدرہ خاموش طبع اور محنتی لڑکی تھی۔ کتابوں سے اسے خاص لگاؤ تھا۔