محرم الحرام صبرووفا کا مہینہ

تحریر : مفتی محمد وقاص رفیع


ماہِ محرم الحرام اسلامی تقویم کے اعتبار سے پہلا اور اُن چار مہینوں میں سے تیسرا مہینہ ہے جو اللہ تعالیٰ کے یہاں انتہائی عظمت و بزرگی والے شمار کیے جاتے ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیقؓ سے روایت ہے کہ نبی اکرمﷺ نے (حجۃ الوداع کے موقع پر اپنے آخری خطبہ میں) ارشاد فرمایاکہ: ’’جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا تھا اُس دن زمانہ کی جو رفتار تھی اب بھی وہی رفتار ہے (یعنی اب اس کے دنوں اور مہینوں میں کمی زیادتی نہیں ہے جو جاہلیت کے زمانے میں مشرک لوگ کیا کرتے تھے، بلکہ اب وہ ٹھیک ہو کر اس طرز پر آ گئی ہے جس پر ابتداء اور اصل میں تھی،لہٰذا) ایک سال بارہ مہینوں کا ہوتا ہے، اِن میں چار مہینے حرمت و عزت والے ہیں جن میں تین مہینے مسلسل ہیں یعنی ذی القعدہ، ذی الحجہ اور محرم اور ایک رجب کا مہینہ ہے جوکہ جمادی الثانی اور ماہِ شعبان کے درمیان آتا ہے۔ (صحیح بخاری: 5550، صحیح مسلم:1679، سنن ابی داؤد:1947)

اِس حدیث سے معلوم ہوا کہ اسلامی مہینوں کے نام اور اُن کی ترتیب انسانوں کی بنائی ہوئی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی اپنی بنائی ہوئی ہے، جس دن اللہ تعالیٰ نے زمین و آسمان کو پیدا کیا، اُسی دن یہ ترتیب، یہ نام اور ان مہینوں کے احکام و خواص بھی مقرر فرما دیئے، لہٰذا ان مہینوں کے شرعی احکامات کو ان کے مطابق ہی رکھنا چاہیے کہ یہی اصل دین ہے اور خلافِ شرع ہر قسم کی بدعات و رسومات سے حتیٰ الامکان اپنے آپ کو بچانا واجب ہے۔

ماہِ محرم الحرام میں روزہ رکھنے کے حدیث شریف میں بڑے فضائل وارد ہوئے ہیں۔ چنانچہ ایک حدیث میں آتا ہے، حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ’’رمضان کے روزوں کے بعد سب سے بہترین روزے اللہ کے مہینے محرم کے روزے ہیں‘‘ (صحیح مسلم:1163، سنن ابو داؤد: 2429، جامع ترمذی438، سنن نسائی:1613، سنن ابن ماجہ:1742)

محدثِ کبیر علامہ سید محمد یوسف بنوریؒ اِس حدیث کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ حدیث میں محرم کے روزے سے صرف دسویں تاریخ یعنی یوم عاشورہ کا روزہ مراد نہیں بلکہ ماہِ محرم کے عام روزے مراد ہیں ( جامع ترمذی: ج 06، ص99)۔ حضرت مجیبہ باہلیہؒ اپنے والد یا اپنے چچا سے نقل کرتی ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے، پھر وہ چلے گئے اور ایک سال کے بعد آئے، اُس وقت اُن کی حالت اور اُن کی ہیئت متغیر ہو چکی تھی، اُنہوں نے عرض کیا: ’’اے اللہ کے رسول ﷺ! کیا آپﷺ نے مجھے نہیں پہچانا؟‘‘آپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’تم کون ہو؟‘‘۔ عرض کیا ’’میں باہلی ہوں جو گزشتہ برس آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تھا‘‘ آپﷺ نے دریافت فرمایا: ’’تمہیں کس چیز نے متغیر کر دیا ہے حالاں کہ تم تو اچھی ہیئت والے تھے؟‘‘ عرض کیا: ’’میں جب سے آپﷺ سے جدا ہوا ہوں میں نے صرف رات کا ہی کھانا کھایا، آپ ﷺ نے فرمایا: ’’اپنے آپ کو کیوں عذاب میں ڈال رکھا ہے؟‘‘پھر فرمایا: ’’صبر (یعنی رمضان )کے مہینے کے روزے رکھا کرو! اور ہر مہینے میں ایک دن کا روزہ رکھ لیا کرو! اُنہوں نے عرض کیا کہ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے، لہٰذا میرے لئے اور اضافہ کیجئے! آپﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ہر مہینے میں دو دن روزہ رکھ لیا کرو! اُنہوں نے عرض کیا کہ میرے لئے اور اضافہ کیجئے! ( کیوں کہ مجھے اس سے زیادہ کی طاقت ہے) آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ہرمہینے میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو‘‘، اُنہوں نے عرض کیا کہ میرے لئے اور اضافہ کیجئے! آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’حرمت والے مہینوں (ذی قعدہ، ذی الحجہ، محرم اور رجب) میں روزے رکھ (بھی) لیا کرو اور چھوڑ (بھی) دیا کرو! (آپ ﷺ نے یہ بات تین مرتبہ ارشاد فرمائی) اور آپﷺ نے اپنی تین انگلیوں سے اشارہ فرمایا، ان کو ساتھ ملا دیا پھر چھوڑ دیا (جس کا مطلب یہ تھاکہ ان مہینوں میں تین دن روزہ رکھ لیا کرو اور تین دن افطار (ناغہ) کر لیا کرو! اور اسی طرح کرتے رہو)۔ (سنن ابی داؤد: 2428، سنن ابن ماجہ: 1741)

حضرت علی المرتضیٰ ؓ سے روایت ہے کہ اُن سے کسی شخص نے دریافت کیا کہ ماہِ رمضان کے بعد آپؓ کس مہینے میں مجھے روزے رکھنے کا حکم دیتے ہیں؟ تو آپؓ نے ارشاد فرمایا کہ میں نے کسی کو بھی اس بارے میں سوال کرتے ہوئے نہیں دیکھا سوائے ایک شخص کے جس نے رسول اللہ ﷺ سے اُس وقت یہ سوال کیا تھا جب کہ میں آپﷺ کے پاس حاضر تھا۔ اُس آدمی نے پوچھا تھا کہ اے اللہ کے رسولﷺ ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد میرے لئے کس مہینے میں روزے رکھنے کا حکم ہے؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا تھا کہ ماہِ رمضان کے روزوں کے بعد اگر تم روزے رکھنا چاہتے ہو تو ماہِ محرم کے روزے رکھا کرو! کیوں کہ یہ اللہ تعالیٰ کا وہ مہینہ ہے کہ جس کے ایک دن اللہ تعالیٰ نے ایک قوم (بنی اسرائیل) کی توبہ قبول کی تھی اور اسی دن دوسرے لوگوں کی بھی توبہ قبول فرمائے گا۔ (جامع ترمذی: 741)

یہ تو اس پورے مہینے میں روزے رکھنے کی عام فضیلت تھی جو اُوپر بیان ہوئی، لیکن اس مہینے میں عاشورہ یعنی دس محرم کے دن کی جو خاص فضیلت احادیث مبارکہ میں وارد ہوئی ہے وہ اس مہینے کے دیگر تمام دنوں سے کہیں زیادہ ہے۔حضرت عبد اللہ بن عباس فرماتے ہیں کہ ’’میں نے نبی کریم ﷺ کو سوائے عاشورہ (دس محرم) کے دن اور رمضان کے مہینے کے علاوہ کسی خاص دن روزہ رکھنے کا اہتمام اور اس دن کو کسی دوسرے دن پر فضیلت دیتے ہوئے نہیں دیکھا‘‘ (صحیح بخاری: 2006)۔

حضرت ابو قتادہ انصاری ؓکی ایک لمبی حدیث میں آتا ہے کہ رسول اللہ ﷺنے عاشورہ (دس محرم ) کے دن کے روزے کی فضیلت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایاکہ: ’’میں اللہ تعالیٰ سے اُمید رکھتا ہوں کہ عرفہ (نو ذی الحجہ) کا روزہ رکھنا گزشتہ اور آنے والے سالوں کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے، اور میں اللہ تعالیٰ سے (اس بات کی بھی) اُمید رکھتا ہوں کہ عاشورہ (دس محرم) کا روزہ گزشتہ ایک سال کے (صغیرہ) گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔(صحیح مسلم:1162،سنن ابی داؤد:2425،جامع ترمذی:749،سنن ابن ماجہ: 1730)۔

 حضرت معاویہ ؓ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو یہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا کہ: ’’یہ (آج) عاشورہ (دس محرم) کا دن ہے، اور تمہارے اُوپر اس دن کا روزہ فرض نہیں کیا گیا، لیکن میں روزہ سے ہوں، سو (تم میں سے) جو شخص (اس دن) روزہ رکھنے کو پسند کرے تو اُسے چاہیے کہ وہ روزہ رکھ لے‘‘( صحیح ابن حبان: 3626)

حضرت ابن عباس ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ جب مکہ مکرمہ سے ہجرت فرماکر مدینہ منورہ تشریف لائے تو آپ نے یہودیوں کو دس محرم کے دن روزہ رکھتے ہوئے دیکھا ( اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں لوگ اس دن روزہ رکھا کرتے تھے۔ آپ ﷺنے اُن سے پوچھا کہ اس دن کی کیا خصوصیت ہے کہ تم روزہ رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ یہ بڑا عظیم (اور نیک) دن ہے، اسی دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور اُن کی قوم کو نجات دی تھی (اور فرعون پر غلبہ عطاء فرمایا تھا) اور فرعون اور اُس کی قوم کو غرق (اور تباہ) فرمایا تھا ، چوں کہ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے بطورِ شکر (اور بطورِ تعظیم) کے اس دن روزہ رکھا تھا اس لئے ہم بھی اس دن روزہ رکھتے ہیں، تو رسول اللہ ﷺنے ارشاد فرمایا کہ: ’’تمہارے مقابلے میں ہم حضرت موسیٰ علیہ السلام سے زیادہ قریب ہیں (اور بطورِ شکر روزہ رکھنے کے ) زیادہ حق دار ہیں۔آپ ﷺ نے عاشورہ (دس محرم) کے دن خود بھی روزہ رکھا اور دوسروں کو بھی روزہ رکھنے کی تلقین ارشاد فرمائی‘‘ (بخاری:3397 ،صحیح مسلم:1130)

حضرت ابو موسیٰ اشعری ؓ فرماتے ہیں کہ یہودی عاشورہ (دس محرم) کے دن کی بہت زیادہ تعظیم کیا کرتے تھے اور اس دن عید منایا کرتے تھے، پس رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا کہ: ’’تم اس دن روزہ رکھا کرو‘‘ (صحیح بخاری:2005)

حضرت عطاء رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اُنہوں نے عاشورہ کے دن کے بارے میں حضرت ابن عباس ؓ کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ : ’’تم عاشورہ (دس محرم) کے دن کا روزہ رکھا کرو! اور اس میں یہودیوں کی مخالفت کیا کرو (کہ وہ صرف ایک دن (دس محرم) کا روزہ رکھتے ہیں اور تم اس کے ساتھ ) اس سے ایک دن پہلے (یعنی نو محرم) کا یا اس سے ایک دن بعد (یعنی گیارہ محرم) کا روزہ بھی رکھ لیا کرو‘‘(مصنف عبد الرزاق: 7839)

حضرت ابن عبادؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اگر آئندہ برس تک میں باقی رہا تو میں ضرور نویں محرم کابھی روزہ رکھوں گا(صحیح مسلم:133، 1134، سنن ابن ماجہ: 1736، مسند احمد: 3213)۔

حضورِ اقدس ﷺ کے مذکورہ بالا ارشادات کے پیش نظر عاشورہ (دس محرم) کے دن کا روزہ رکھنا چوں کہ یہودیوں کی مشابہت سے خالی نہ تھا، نیز اس کو چھوڑ دینا بھی اس کے فضائل و برکات سے محرومی کا باعث تھا، اس لئے فقہائے کرام نے نبی کریم ﷺ کے ان ارشادات کی رُوشنی میں فرمایا ہے کہ تنہا عاشورہ (دس محرم) کے دن کا روزہ رکھنا اگرچہ فی نفسہٖ صحیح اور جائز ہے لیکن چوں کہ اس میں یہودیوں سے مشابہت ہے اس لئے مکروہِ تنزیہی یعنی خلافِ اولیٰ ہے، افضل یہ ہے کہ اس کے ساتھ ایک دن اس سے پہلے کا یا ایک دن اس کے بعد کا بھی روزہ رکھے۔( صحیح المسلم:ج 03 ص 46 ،مشکوٰۃ المصابیح: 08ص293)

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

شہادتِ سیدنا حسین رضی الله عنہ

نواسہ رسول ؓ نے کربلا کے میدان میں دین اسلام کو دائمی بقا عطا کی

آفتابِ حسینیت کی حسین کرنیں

کوئی نہیں حسین سا،حسین بس حسین ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہےظلم کی چاند پہ زہرا کی گھٹا چھائی ہے

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیراور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر

عظیم شاہسوار (پانچویں قسط)

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے گزارش کی ’’ امیر محترم! موجودہ طریقہ جنگ میں مجھے کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے‘‘۔’’ابن زبیر‘‘! عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ بولے: ’’میدان جنگ کی صورتحال کو دیکھ کر ہی میں نے اس انداز جنگ کو اختیار کیا ہے، اگر تمہارے ذہن میں اس سے بہتر کوئی تجویز ہے تو ضرور بتائو‘‘؟

پھر سے ساتھ!

عائشہ امیر گھرانے کی لاڈلی بیٹی تھی۔ بنگلہ، نوکر چاکر، بہترین اسکول اور ہر سہولت میسر تھی۔ اس کے والدین اکثر کاموں میں مصروف رہتے، سو اس کا زیادہ وقت اپنی ہم جماعت سدرہ کے ساتھ گزرتا تھا۔ سدرہ، دراصل عائشہ کے گھر میں کام کرنے والی ماسی رضیہ کی بیٹی تھی۔ دونوں ایک ہی اسکول اور ایک ہی کلاس میں تھیں۔ سدرہ خاموش طبع اور محنتی لڑکی تھی۔ کتابوں سے اسے خاص لگاؤ تھا۔