آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہےظلم کی چاند پہ زہرا کی گھٹا چھائی ہے
اس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہے
یاں نہ بیٹا نہ بھتیجا نہ کوئی بھائی ہے
برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں
مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں
زخمی بازو ہیں کمر خم ہے بدن میں نہیں تاب
ڈگمگاتے ہیں نکل جاتی ہے قدموں سے رکاب
پیاس کا غلبہ ہے لب خشک ہیں آنکھیں ہیں پر آب
تیغ سے دیتے ہیں ہر وار کا اعدا کو جواب
شدتِ ضعف میں جس جا پہ ٹھہر جاتے ہیں
سیکڑوں تیر ستم تن سے گزر جاتے ہیں
خون سے تر پیچ عمامے کے ہیں سر زخمی ہے
ہے جبیں چاند سی پر نور مگر زخمی ہے
سینہ سب برچھیوں سے تا بہ کمر زخمی ہے
تیرِ بیداد سے دل زخمی، جگر زخمی ہے
ضربِ شمشیر سے بیکار ہیں بازو دونوں
ظلم کے تیروں سے مجروح ہیں پہلو دونوں
برچھی آ کر کوئی پہلو میں لگا جاتا ہے
مارتا ہے کوئی نیزہ تو غش آجاتا ہے
بڑھتے ہیں زخمِ بدن، زور گھٹا جاتا ہے
بند آنکھیں ہیں، سرِ پاک جھکا جاتا ہے
گردِ زہرا و علی گریہ کناں پھرتے ہیں
غل ہے گھوڑے سے امام دو جہاں گرتے ہیں
گود میں میری سکینہ کو اٹھاؤ ہمشیر
کوئی اصغر کی طرح مار نہ بیٹھے اسے تیر
پھر یہ بیٹی کو پکارے ترے صدقے شبیر
تو بھی جا ساتھ پھوپھی جان کے اب اے دلگیر
وقتِ طاعت ہے ذرا یادِ خدا کر لیویں
ہم بھی اب آتے ہیں، سجدے کو ادا کر لیویں
کہہ کے یہ غش ہوئے پھر رن میں شہنشاہ امم
شمرِ اظلم نے رکھا، سینۂ اقدس پہ قدم
جگرِ فاطمہ زہرا پہ چلی تیغِ دو دم
آگے زینب کے ہوئے ذبح حسین آہ ستم
پیٹ کر بنت شہنشاہِ زمن رونے لگی
باپ کو بیٹی، برادر کو بہن رونے لگی
فتح کا فوج مخالف میں بجا نقارا
غل ہوا قتل ہوا شیر خدا کا پیارا
بس انیس اب نہیں گویائی کا مجھ کو یارا
غم سے خوں ہو گیا سینہ میں کلیجا سارا
کس سے اس درد و مصیبت کا بیاں ہوتا ہے
آنکھیں روتی ہیں قلم روتا ہے دل روتا ہے
(میر انیس)