آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہے

تحریر : روزنامہ دنیا


آج شبیر پہ کیا عالمِ تنہائی ہےظلم کی چاند پہ زہرا کی گھٹا چھائی ہے

 

اس طرف لشکرِ اعدا میں صف آرائی ہے

یاں نہ بیٹا نہ بھتیجا نہ کوئی بھائی ہے

برچھیاں کھاتے چلے جاتے ہیں تلواروں میں

مار لو پیاسے کو ہے شور ستمگاروں میں

 

زخمی بازو ہیں کمر خم ہے بدن میں نہیں تاب

ڈگمگاتے ہیں نکل جاتی ہے قدموں سے رکاب

پیاس کا غلبہ ہے لب خشک ہیں آنکھیں ہیں پر آب

تیغ سے دیتے ہیں ہر وار کا اعدا کو جواب

شدتِ ضعف میں جس جا پہ ٹھہر جاتے ہیں

سیکڑوں تیر ستم تن سے گزر جاتے ہیں

 

خون سے تر پیچ عمامے کے ہیں سر زخمی ہے

ہے جبیں چاند سی پر نور مگر زخمی ہے

سینہ سب برچھیوں سے تا بہ کمر زخمی ہے

تیرِ بیداد سے دل زخمی، جگر زخمی ہے

ضربِ شمشیر سے بیکار ہیں بازو دونوں

ظلم کے تیروں سے مجروح ہیں پہلو دونوں

 

برچھی آ کر کوئی پہلو میں لگا جاتا ہے

مارتا ہے کوئی نیزہ تو غش آجاتا ہے

بڑھتے ہیں زخمِ بدن، زور گھٹا جاتا ہے

بند آنکھیں ہیں، سرِ پاک جھکا جاتا ہے

گردِ زہرا و علی گریہ کناں پھرتے ہیں

غل ہے گھوڑے سے امام دو جہاں گرتے ہیں

 

گود میں میری سکینہ کو اٹھاؤ ہمشیر

کوئی اصغر کی طرح مار نہ بیٹھے اسے تیر

پھر یہ بیٹی کو پکارے ترے صدقے شبیر

تو بھی جا ساتھ پھوپھی جان کے اب اے دلگیر

وقتِ طاعت ہے ذرا یادِ خدا کر لیویں

ہم بھی اب آتے ہیں، سجدے کو ادا کر لیویں

 

کہہ کے یہ غش ہوئے پھر رن میں شہنشاہ امم

شمرِ اظلم نے رکھا، سینۂ اقدس پہ قدم

جگرِ فاطمہ زہرا پہ چلی تیغِ دو دم

آگے زینب کے ہوئے ذبح حسین آہ ستم

پیٹ کر بنت شہنشاہِ زمن رونے لگی

باپ کو بیٹی، برادر کو بہن رونے لگی

 

فتح کا فوج مخالف میں بجا نقارا

غل ہوا قتل ہوا شیر خدا کا پیارا

بس انیس اب نہیں گویائی کا مجھ کو یارا

غم سے خوں ہو گیا سینہ میں کلیجا سارا

کس سے اس درد و مصیبت کا بیاں ہوتا ہے

آنکھیں روتی ہیں قلم روتا ہے دل روتا ہے

 

(میر انیس)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

شہادتِ سیدنا حسین رضی الله عنہ

نواسہ رسول ؓ نے کربلا کے میدان میں دین اسلام کو دائمی بقا عطا کی

آفتابِ حسینیت کی حسین کرنیں

کوئی نہیں حسین سا،حسین بس حسین ہے

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیر

جب اصغر معصوم کی گردن پہ لگا تیراور شاہ کے بازو میں بھی پیوست ہوا تیر

عظیم شاہسوار (پانچویں قسط)

عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے امیر لشکر عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ سے گزارش کی ’’ امیر محترم! موجودہ طریقہ جنگ میں مجھے کامیابی کے امکانات نظر نہیں آتے‘‘۔’’ابن زبیر‘‘! عبداللہ بن سعد رضی اللہ عنہ بولے: ’’میدان جنگ کی صورتحال کو دیکھ کر ہی میں نے اس انداز جنگ کو اختیار کیا ہے، اگر تمہارے ذہن میں اس سے بہتر کوئی تجویز ہے تو ضرور بتائو‘‘؟

پھر سے ساتھ!

عائشہ امیر گھرانے کی لاڈلی بیٹی تھی۔ بنگلہ، نوکر چاکر، بہترین اسکول اور ہر سہولت میسر تھی۔ اس کے والدین اکثر کاموں میں مصروف رہتے، سو اس کا زیادہ وقت اپنی ہم جماعت سدرہ کے ساتھ گزرتا تھا۔ سدرہ، دراصل عائشہ کے گھر میں کام کرنے والی ماسی رضیہ کی بیٹی تھی۔ دونوں ایک ہی اسکول اور ایک ہی کلاس میں تھیں۔ سدرہ خاموش طبع اور محنتی لڑکی تھی۔ کتابوں سے اسے خاص لگاؤ تھا۔

سارہ نے کھیرپکائی

سارہ ساتویں جماعت کی طالبہ تھی، اسے گرمیوں کی چھٹیاں ہوچکی تھیں۔ سارہ کی امی اس سکول میں استانی تھیں جس میں سارہ پڑھتی تھی۔ وہ سارہ کی سکول کی کارکردگی سے بہت خوش تھیں کیونکہ سارہ ایک ذہین طالب علم اور اپنے سکول کی ٹوپر تھی۔