آفتابِ حسینیت کی حسین کرنیں

کوئی نہیں حسین سا،حسین بس حسین ہے
اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت نازل ہو سیدنا حسین بن علی رضی اللہ عنہما پر جنہوں نے اپنی عملی زندگی سے اہل اسلام کو جینے اور راہ حق میں قربان ہونے کا سبق دیا۔ آج بہت بڑا المیہ یہ ہے کہ حضرت حسینؓ کی صرف شہادت کو بیان کیا جاتا ہے، آپؓ کے فضائل و مناقب، سیرت و کردار، زہد و تقویٰ، خشیت وللٰہیت، علم و تفقہ، عبادت و ریاضت، تواضع و انکساری، جمال و کمال، عفو و درگزر، فیاضی و سخاوت، گفتار و رفتار، جلوت خلوت، قول وعمل،ایثاروہمدردی، عادات واطوار، خوش خلقی،حسن سلوک، مروت رواداری، شجاعت و عزیمت، دوراندیشی وفر است،حکمت و دانائی، محبت و معرفت ِخداوندی اورمتبع سنت ہونے کی باتیں عموماً نظر انداز کی جاتی ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ آپؓ کو انتہائی بے دردی کے ساتھ شہید کیا گیا، لیکن یہ بات بھی سوچنے کی ہے کہ صرف شہادت کو بیان کرنا اور آپؓ کے اعلیٰ اخلاق، عمدہ اوصاف، بہترین کمالات کا تذکرہ نہ کرنا کیا اس بات کی طرف اشارہ نہیں کر رہا کہ لوگ حسینیت کو صرف بیان کرنا چاہتے ہیں، اپنانا نہیں چاہتے۔ آئیے! جنتی نوجوانوں کے سردار کی زندگی کے چند پہلوئوں پر نظر ڈالتے ہیں۔
کثرت عبادات
انسان کی زندگی کا مقصد خدائے ذوالجلال کی رضا اور خوشنودی ہے، اس کے حصول کیلئے سیدنا حسین بن علیؓ باوجودیکہ جنتی نوجوانوں کے سردار تھے لیکن پھر بھی فرائض کی ادائیگی کے بعد کثرت کے ساتھ نوافل کا اہتمام فرماتے، فرض روزوں کے علاوہ کثرت کے ساتھ نفلی روزے رکھتے۔ آپؓ نے 25 حج کیے جن میں اکثر پیدل کئے۔ رات کے پہلے حصے میں حضرت حسنؓ عبادت فرماتے اور آخری حصے میں حضرت حسینؓ اپنے اللہ کے حضور کھڑے ہو جاتے، رو رو کر دعائیں مانگتے، کثرت سے استغفار کرتے اور آپؓ کی عبادات کی عادات مبارکہ شہادت تک جاری رہیں۔ یہاں تک کہ میدان کربلا میں آخری رات آپؓ ساری رات عبادات میں مشغول رہے، اتنے کٹھن حالات میں بھی نوافل، تلاوت، اذکار و اوراد، عاجزی و انکساری سے دعائیں مانگتے رہے۔ آپؓ کی عادت شریفہ تھی کہ آپؓ جب بھی سونے کیلئے بستر پر آتے تو سورۃ الکہف کی تلاوت فرماتے۔ اس سے کثرت عبادت پر ہمیشگی کا سبق ملتا ہے۔
تواضع و انکساری
تکبر انسان کو برباد کرتا ہے اور تواضع قرب الہٰی کا ذریعہ ہے، خانوادہ نبوت کے اس چشم و چراغ نے ساری زندگی تواضع کے ساتھ گزاری۔ ایک بار کہیں جا رہے تھے تو کچھ غریب لوگ راستے میں آپؓ کو ملے جو اس وقت کھانا کھا رہے تھے۔ انہوں نے جب آپؓ کو دیکھا تو عرض کی کہ اے اولاد رسول ہمارے ساتھ کھانا تناول فرمائیں! آپؓ سواری سے اترے ان کے ساتھ بیٹھے اور کھانے لگے، آخر میں فرمایا: اللہ تکبر کرنے والوں کو اپنا دوست نہیں رکھتا۔ پھر ان سے فرمایا!میں نے آپؓ کی دعوت قبول کی ہے، آپ بھی میری دعوت کو قبول فرمائیں۔ کچھ دیر بعد ان کو اپنے گھر لے آئے اور اپنی شان کے مطابق ان کی دعوت کی۔ اس سے ہمیں تواضع کا سبق ملتا ہے۔
عفو و درگزر
عداوت، کدورت اور باہمی رنجشیں صرف افراد ہی نہیں خاندان بھی تباہ کر دیتی ہیں جبکہ عفو و درگرز کی بدولت معاشرے میں محبتیں جنم لیتی ہیں اور قائم بھی رہتی ہیں۔ آپؓ کی تربیت جس گھرانے میں ہوئی وہ علم و ادب، تہذیب و اخلاق کا ایسا نمونہ تھا جس کی مثال نہیں ملتی۔ ایک بار آپؓ کے چھوٹے بھائی محمد بن حنفیہؒ سے کوئی ایسی بات سر زد ہو گئی جس سے آپؓ کو تکلیف پہنچی، آپؓ نے بڑے بھائی ہونے کی وجہ سے اظہار ناراضگی بھی کیا۔ محمد بن حنفیہؒ فوراً گھر پہنچے اور حضرت حسینؓ کے نام ایک معذرت نامہ لکھا: ’’آپؓ کو شرف و فضل کا جو درجہ حاصل ہے میں کسی صورت وہاں تک نہیں پہنچ سکتا، اگرچہ ہم دونوں اپنے والد حضرت علیؓ کی اولاد ہیں، باپ کی جانب سے(خونی رشتے کے اعتبار سے) ہم میں کوئی فرق نہیں لیکن والدہ کی جہت سے آپؓ کو جو مرتبہ و مقام حاصل ہے میں وہاں تک کبھی نہیں پہنچ سکتا۔ کیونکہ وہ رسول اللہﷺ کی(لاڈلی) بیٹی ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے آپؓ کو میرے مقابلے میں جو شرف و کمال بخشا ہے اس کی لاج رکھتے ہوئے(مجھے معاف فرما کر) مل لیجیے‘‘۔ حضرت حسینؓ خط پڑھ کر سیدھے بھائی کے پاس پہنچے اور انہیں گلے لگا لیا۔ اس سے ہمیں خونی رشتوں کے تقدس کا سبق ملتا ہے۔
جذبہ خیرخواہی
بخل اور کنجوسی انسان کے عمدہ اوصاف کو کھا جاتی ہیں جبکہ سخاوت و دریا دلی انسان کے بلندی اخلاق کا مظہر ہوتی ہیں۔ ایک بار ایک دیہاتی مدینہ منورہ کی گلیوں میں گھومتا پھرتا آپؓ کے دروازے پر رک گیا اور دروازے پر دستک دی، ساتھ میں اپنی غربت و لاچاری کو اشعار کی صورت میں بیان کیا۔ آپؓ اس وقت(غالباً نفلی)نماز میں مشغول تھے، سائل کی آواز اور فقر وفاقہ کا خیال فرما کر نماز کو جلدی جلدی مکمل فرمایا۔ باہر تشریف لائے سائل کی حالت دیکھی تو اس پر فقر و فاقہ کے آثار نمایاں تھے۔ گھر واپس لوٹے اپنے غلام کو آواز دی کہ کیا کچھ نفقہ میں باقی ہے؟ انہوں نے عرض کی کہ آپؓ کے اہل خانہ کیلئے دو سو درہم رکھے ہوئے ہیں۔ آپؓ نے حکم دیا کہ ہمارے اہل خانہ سے زیادہ ان درہم کا یہ سائل مستحق ہے چنانچہ وہ سارے درہم اسے عنایت فرمائے۔ اس سے ہمیں سخاوت اور لوگوں کی خیرخواہی کا سبق ملتا ہے۔
خدمت خلق
ایمان کے بعد خدمت خلق کا جذبہ ایسی نیکی ہے جو اللہ کی دربار میں جلد قبولیت حاصل کرتی ہے۔ سیدنا حسینؓ میں یہ جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ محمد بن ابی طلحہؒ فرماتے ہیں کہ سیدنا حسینؓ مہمانوں کی خدمت کرتے، محبت کرنے والوں کو خوب نوازتے، رشتہ داروں پر خرچ کرتے، محتاج کی حاجت کو پورا کرتے، سائل کو محروم اور خالی ہاتھ واپس نہ لوٹاتے، بھوکوں کو کھلاتے، قرضداروں کا قرض اپنی طرف سے ادا کرتے، کمزوروں کی مدد کرتے، یتیم سے حسن سلوک سے پیش آتے، جب کہیں سے مال و دولت آتا آپؓ اسے لوگوں میں تقسیم فرما دیتے۔ مصنف عبدالرزاق میں ہے کہ حج کے دنوں میں جب حجاج تشریف لاتے تو آپؓ ان کو زمزم پلاتے۔ اس سے ہمیں خدمت خلق کا سبق ملتا ہے۔
باہمی محبت
اسلام بڑوں کی عزت کا درس دیتا ہے، خاندان نبوت نے اس درس کو صرف سمجھا ہی نہیں بلکہ اہل اسلام کو اپنے عمل سے اس کی تعلیم بھی دی ہے۔ حضرات حسنین کریمین رضی اللہ عنہما نے اکابر صحابہ کرامؓ بالخصوص خلفائے راشدینؓ سے جس عقیدت و محبت کا ثبوت دیا ہے ایسے ادب و احترام کی مثال نہیں ملتی۔ عہد ِصدیقی میں آپؓ کم عمر تھے، عہدِ فاروقی کے آخر میں آپؓ سن شعور کو پہنچے، عہد عثمانی میں آپؓ نے بہت سے دینی و ملی خدمات انجام دیں۔ جنگوں میں مجاہدانہ کردار ادا کیا۔ یہاں تک کہ جب بلوائیوں نے حضرت عثمانؓ کے گھر کا محاصرہ کر رکھا تھا تو یہی دو شہزادے حسنین کریمین رضی اللہ عنہما آپؓ کے گھر پر محافظ بن کر کھڑے تھے۔ عہد مرتضوی میں آپؓ اپنے والد کے شانہ بشانہ رہے اس کے بعد عہد امیر معاویہؓ میں دونوں شہزادوں نے حضرت امیر معاویہؓ کے حق میں خلافت سے دستبر داری کا اعلان کر کے خانوادہ نبوی کی تربیت کا اثر دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اس سے ہمیں خلفائے راشدین اور حضرت امیرمعاویہؓ سے محبت کا سبق ملتا ہے۔
عمر رسیدہ لوگوں کا احترام
اکابر صحابہؓ تو اکابر تھے، حضرت امام حسینؓ ایک عام آدمی سے بھی نہایت شرافت و عزت سے پیش آتے۔ ایک بار آپؓ نے ایک بڑی عمر کے دیہاتی کو دیکھا، اس نے جلدی سے وضو کیا اور نماز بھی اتنی جلدی ادا کی۔ آپؓ نے دیہاتی سے فرمایا: ہم نوجوان اور آپ عمر رسیدہ ہیں، میں آپ کے سامنے وضو کر کے نماز پڑھتا ہوں اگر کہیں کوئی بات خلاف سنت ہو تو ہمیں تنبیہ فرمائیں۔ آپؓ نے سنت کے مطابق وضو کیا اور خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کی جس کی وجہ سے اُسے اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ اس سے ہمیں بڑوں کا احترام کا سبق ملتا ہے۔
حسینیت کا پیغام
شہادت کی تاریخ بہت طویل ہے اس دوران آپؓ نے جو خطبے ارشاد فرمائے ہیں، آپؓ کی سیرت و سوانح پر مشتمل معتبر کتابوں میں منقول ہیں۔ ان کا سب کا خلاصہ یہ ہے کہ اشاعت و حفاظت دین کیلئے حرمین شریفین جیسے مقدس مقامات اور ان کے فضائل و مناقب کی جدائی سہنی پڑے تو سہہ لینی چاہیے، حق بات پر ڈٹ جانا چاہیے، ظالم کو اس کے ظلم سے روکنے کیلئے جان کی قربانی سے بھی دریغ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اگر اسلام کی اشاعت و حفاظت کیلئے اپنے اہل و عیال کو پیش کرنا پڑ جائے تو دودھ پیتے معصوم بچوں تک کی بھی قربانی دے دینی چاہیے۔ ظلم سے ٹکرانے کیلئے جوانمردی، جرات اور استقامت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور جب خاندان کے افراد اللہ کی راہ میں کٹ جائیں تو صبر و تحمل سے کام لینا چاہیے لیکن ان جان گسل مراحل کو طے کرتے وقت نماز، تلاوتِ قرآن، نوافل، روزہ، تسبیحات، ذکر اللہ، مناجات اور اسلامی زندگی کے یومیہ معمولات کی ادائیگی میں فرق نہ آنے پائے اور شہادت کے بعد اللہ کی رضا پر راضی رہنا اور صبر و ہمت سے کام لینا خاندان حسینی کا ہمارے لیے پیغام ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں عمل کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین۔