ابھی تو بچہ ہے!
رفتارِ زمانہ اپنے عروج پرہے اور ترقی کے نعروں نے دروبام پرہلچل مچارکھی ہے ،واقعی تبدیلیاں رونماہورہی ہیں مگر اس حدتک کہ احساس اور ضمیرکابھی خون ہوتاہوا نظرنہیں آتا۔کبھی ہم نے سوچاہے کہ نئی نسل کو اس ہنگامی دور نے کیادیاہے اور اس سے کیاچھیناہے؟
ایک زمانہ ایسابھی تھا جب والدین بچوں کے تئیں سنجیدہ رہاکرتے تھے بچے کے رہن سہن،طرزِ تکلم،طریقہ تعامل، اندازِ چال چلن غرض کہ ہرحرکت وعمل پر نظر رکھتے تھے اور اس کے بیشمار اخلاقی و تعلیمی فوائد ظہور پذیرہوتے تھے ، مگر اب۔۔؟ معصوم بچے کو چپ کرانے کیلئے ماؤں کے پاس لوریاں نہ رہیں،سچائی کے قصے نہ رہے،بہادری کی داستانیں نہ رہیں۔اب بچے کوچپ کرانے کیلئے کوئی میوزک لگادیا جاتا ہے،ذہنی تفریح کیلئے ہمارے پاس کارٹونز کی کمی نہیں ہے،وقت گزاری کیلئے گیمز کی بھرمار ہے، سچ تو یہ ہے کہ کہیں تو ہم نے اپنے بچوں کی تربیت مشینوں کوسونپ دی ہے،یہی وجہ ہے کہ بچوں میں احساس کی کمی روز افزوں ہے،کیونکہ مشین کے پاس دھڑکنے والا دل اور سمجھانے والی شیریں زبان نہیں ہوتی، خوشی اور غم،محبت ونفرت میں تمیزکے ساتھ رہنمائی کامادہ نہیں ہوتا،ایسے میں ہم اپنے بچوں سے سماج اور انسانیت کی فلاح کیلئے کیااور کیسی امیدیں رکھ سکتے ہیں؟
مشینوں کے ساتھ صبح کو شام کرنے والے بچوں کو کیامعلوم کہ درد کیاہوتاہے؟ انہیں کیاپتہ کہ فردسماج کاحصہ ہوتابھی ہے یانہیں؟یہ نہیں جانتیں کہ صلہ رحمی کس چیزکانام ہے،انہیں خبرنہیں کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے،انہیں ادراک نہیں کہ باپ جنت کا دروازہ ہے اور یہ اس سے بھی نابلدہیں کہ کہاں دھیمی آواز میں بات کرنی ہے،کہاں خاموش رہناہے اور کہاں بولناضروری ہے ۔آج بچوں کی طرف سے ہم جتنے لاپروا ہیں تاریخ میں اس طرح کی لاپرواہی شایدہی کبھی برتی گئی ہو۔بچے کی زبان سے غلط لفظ سن کرمثبت انداز میں اس کی اصلاح کرنے کی بجائے ہم یہ کہہ کربات ٹال دیتے ہیں کہ ابھی تو بچہ ہے! غلط حرکتیں دیکھ کر ہماری پلکوں میں کوئی ردعمل نہیں ہوتا ہم بول اٹھتے ہیں ابھی تو بچہ ہے! دادا، دادی اورنانا نانی کے ساتھ غیر اخلاقی زبان کا استعمال، پاس پڑوس کے ساتھ بدتمیزی اور ارد گرد کے ہم عمروں سے ناشائستہ گفتگو ہم صرف یہ کہہ کر نظرانداز کردیتے ہیں کہ ابھی تو بچہ ہے!
ہماری پوری توجہ صرف ہوم ورک کروانے میں رہتی ہے،ہمیں قطعی اس کی فکرنہیں کہ بچے کی ذہنی ارتقاء کس سطح پر ہے،کیاوہ کتابوں سے لدے بیگ کے باہربھی سوچتاہے؟ہماری لاپرواہی کاصلہ ہے کہ ہمارابچّہ انسانیت کو توسمجھتاہے مگر ’’مسلمان ،مسلمان کابھائی ہے‘‘ نہیں سمجھتا ،یہی بچّہ بڑا ہوکرخون عطیہ تو کرتاہے مگر اْسے نہیں پتہ کہ ’’ایک انسان کی جان بچانے والاگویاپوری انسانیت کی جان بچاتاہے ‘‘ ہماراجوان شجرکاری کرتاہے مگر اسے علم نہیں کہ ’’صدقہ جاریہ‘‘ کیاہے دو بچّوں میں لڑائی ہوتی ہے تو ہم ڈانٹ کر جداکردیتے ہیں مگر یہ نہیں بتاتے کہ تین روز سے زیادہ قطع کلامی کرنا شریعت میں جائز نہیں ہم نے اپنی نسل کو اصل دین اور زندگی سے دور کردیاہے، وجہ حدسے زیادہ لاپرواہی اور بچّوں کے تئیں دِکھاوے کی شفقت کے سواکچھ بھی نہیں!ہم کبھی نہیں سوچتے کہ ملک و ملت کامستقبل سنوارنے میں ہمارے اپنے بچے کا کیاکردارہوگا؟بحیثیت ایک مدرس ہماری ملاقات روز والدین سے ہوتی ہے،کوئی شکوہ کناں ہوتا ہے، کوئی خوش ، کوئی کچھ تو کوئی کچھ، مگر کسی کے پاس امتحان میں اعلیٰ کامیابی کے علاوہ کوئی دوسرا مدعا نہیں ،نتیجہ صاف طورپراخلاقی بے راہ روی،باہمی ہمدردی کی خلش،احترام کا خاتمہ، اخلاق کا فقدان، علم کی ناپختگی،ادب سینابلدی اور کتابوں سے نفرت کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ تدارک کی ایک ہی سبیل ہے کہ بچّے کوصرف بچّہ سمجھ کراس کی قابلِ اخذ خطاؤں پر پردہ ڈالنے کی عادت چھوڑدی جائے، والدین سرجوڑکربیٹھیں کہ بچّے کی مناسب تربیت کیسے ہو؟ بچّے کے اساتذہ سے مشورہ کیاجائے کہ تعلیم کیساتھ بہتر تربیت کیسے فراہم کی جائے ورنہ ’’ابھی توبچّہ ہے‘‘ کا ڈائیلاگ صرف نقصان ہی پہنچائے گا اور کچھ نہیں ۔