وزیراعلیٰ اراکین کو چمک سے بچا سکیں گے ؟

تحریر : عابد حمید


خیبرپختونخوا میں سینیٹ انتخا بات کی تاریخ کا اعلان ہوتے ہی ایک نئے بحران نے سر اٹھالیا ہے۔21 جولائی کو ایوان بالاکے انتخاب ہونے جارہے ہیں۔

خیبرپختونخوا کی 11 نشستوں پر یہ انتخابی معرکہ ہوگا لیکن اس سے قبل ایک قانونی اور آئینی تقاضاپوراکرنا ضروری ہے اور و ہ ہے مخصوص نشستوں پر حلف برداری۔آئینی بینچ کے فیصلے کے بعد خیبر پختونخوا میں 25مخصوص نشستیں اپوزیشن جماعتوں میں بانٹ دی گئی ہیں۔آئینی طور پرسپیکر خیبرپختونخوا اسمبلی کو مخصوص نشستوں پر نامزد ہونے والے اراکین سے حلف لینا ہے۔اگروہ ایسا نہیں کرتے تو یہ آئین کی خلاف ورزی ہوگی۔پی ٹی آئی اس وقت مشکل صورتحال میں ہے۔ ایک طرف اس کی سینیٹ کی نشستیں جارہی ہیں اوردوسری جانب ایوان میں اس کی تعداد کم ہوگئی ہے۔ اگرچہ حکومت کو فی الوقت کوئی خطرہ نہیں لیکن سینیٹ انتخابات سے مستقبل قریب کا فیصلہ ہوجائے گا۔ سینیٹ میں خیبرپختونخوا کی 11 نشستیں ہیں جن پر 26امیدوار مد مقابل ہیں۔ جنرل نشستوں کی تعداد سات ہے جن پر 16 امیدواروں نے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ ٹیکنوکریٹ کی دو نشستوں پر چھ اور خواتین کی دو نشستوں پر چار امیدوار قسمت آزمائی کریں گے۔ الیکشن کمیشن کی جانب سے جاری کی گئی فہرست کافی دلچسپ ہے۔ اس فہرست میں پی ٹی آئی کے رہنما مراد سعید، جو عرصے سے منظر عام سے غائب ہیں، کا نام بھی سینیٹ کی نشست کے امیدواروں میں شامل ہے، اسی طرح انجینئر امیر مقام کا بیٹا بھی سینیٹ کی نشست کیلئے تادم تحریر امیدواروں میں شامل ہے۔ روبینہ خالدجن کا تعلق پیپلزپارٹی سے ہے وہ ایک بارپھر قسمت آزمائی کررہی ہیں اور اس فہرست کا حصہ ہیں، دلاور خان جوآزاد حیثیت سے کھڑے تھے انہیں جمعیت علمائے اسلام نے اپنانے کا اعلان کیا ہے اور اب اسی کے ٹکٹ پر میدان میں اتریں گے، جے یو آئی سے تعلق رکھنے والے طلحہ محمود پیپلزپارٹی کو پیارے ہوگئے ہیں، یہ دونوں امیدوار تگڑے ہیں اور ماضی کی طرح اس بات کاقوی امکان ہے کہ یہ اپنی نشستیں جیت جائیں گے۔ جے یو آئی کی جانب سے دوسرے اعلان کردہ امیدوار مولاناعطا الحق درویش ہیں، پی ٹی آئی کے امیدواروں کی فہرست میں اظہر مشوانی، آصف رفیق اورخرم ذیشان بھی شامل ہیں۔ آصف رفیق اور خرم ذیشان تگڑے امیدوار سمجھے جارہے ہیں۔ عرفان سلیم کا نام بھی اس فہرست میں شامل ہے جو پی ٹی آئی کے پرانے کارکن ہیں۔ فیصل جاوید اس سے قبل بھی پی ٹی آئی کے ٹکٹ پر ایوان بالا کے رکن رہ چکے ہیں اور اس بار بھی پی ٹی آئی نے انہیں نامزد کیا ہے۔ محمد اعظم خان سواتی بھی مقدمات کے باوجود سینیٹ کی نشست جیتنے کے خواہشمند ہیں، وہ بھی فہرست کا حصہ ہیں۔

 سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی سینیٹ انتخابات میں کتنی نشستیں لے سکتی ہے ؟ اگرایوان میں پارٹی پوزیشن کو دیکھا جائے تو اس کا جواب انتہائی سادہ ہے کہ پی ٹی آئی پانچ جنرل،ایک ٹیکنوکریٹ اور ایک خاتون کی نشست بآسانی جیت سکتی ہے۔ اس سے قبل پی ٹی آئی سینیٹ کی گیارہ نشستوں میں سے بآسانی 10 لے سکتی تھی لیکن مخصوص نشستیں دیگر جماعتوں کو بانٹ دیے جانے کے بعد ایوان میں پارٹی پوزیشن تبدیل ہو چکی ہے۔ان نشستوں سے اپوزیشن کو نئی کمک ملی ہے اور اپوزیشن جو پہلے ایک نشست جیت سکتی تھی، 52 نشستوں کے ساتھ اب بآسانی تین نشستیں لے جاسکتی ہے۔ اگر تھوڑاسازور لگایاگیا تو یہ نشستیں تین کے بجائے چار بھی ہوسکتی ہیں۔

 یہ بات ذہن نشین رہے کہ خیبرپختونخوا کے سینیٹ انتخابات میں ہمیشہ چمک نے بڑا کام کیاہے۔ یہ چمک ہی ہے جس سے پانچ نشستوں والی جماعت دو جنرل نشستیں بھی جیت سکتی ہے۔ ماضی قریب میں اس حوالے سے کئی ویڈیو شواہد بھی سامنے آچکے ہیں، کئی ایم پی ایز ہارس ٹریڈنگ کے الزامات میں پارٹی کی رکنیت بھی کھوچکے ہیں۔ خدشہ ہے کہ21 جولائی کو ہونے والے انتخابات بھی چمک سے بچ نہیں سکیں گے۔ سیاسی جماعتیں اپنے پرانے کارکنوں کی جگہ نئے تگڑے امیدواروں کو ٹکٹ اسی لیے دیتی ہیں کہ وہ خود اپنے لیے ووٹ پیدا کریں۔ ماضی کے انتخابات میں ایسا ہی ہوا کہ کئی جماعتوں کے اراکین اسمبلی چمک دیکھ کر سب بھول بیٹھے۔ اگرچہ یہ الزامات کبھی ثابت نہیں ہوئے لیکن اس میں پھر بھی صداقت موجود ہے۔ 

اپوزیشن 21 جولائی کو سینیٹ انتخابات کیلئے نہ صرف پرامید ہے بلکہ پرعزم بھی ہے۔ پیپلزپارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے اور پارلیمانی امور کے ماہر سمجھے جانے والے احمد کنڈی کے مطابق 21 جولائی کو الیکشن ضرور ہوں گے۔ اگرچہ مخصوص نشستوں کے حوالے سے پی ٹی آئی پارلیمنٹیرین، اے این پی اور مسلم لیگ( ن) کی درخواستیں عدالتوں میں زیرسماعت ہیں لیکن ان کا ماننا ہے کہ انتخابات سے قبل یہ تمام اپیلیں نمٹا دی جائیں گی۔ دوسری جانب وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور نے ایک بارپھر مخصوص نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے عدالت سے رجوع کرنے کااعلان کیا ہے۔ قطع نظر اس کے کہ انتخابات ہوں گے یا نہیں سوال یہ ہے کہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کیا اس بار اپنے اراکین اسمبلی کو چمک سے بچاسکیں گے ؟ یہ انتہائی اہم سوال ہے اور یہ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کیلئے ایک ٹیسٹ کیس بھی ہے۔ اس وقت پارٹی کے اندر اُن کی خاصی مخالفت پائی جاتی ہے۔ ایک مضبوط دھڑا انہیں مزید اس کرسی پر نہیں دیکھنا چاہتا۔بجٹ کی منظوری کے بعد اختلافات کی یہ خلیج اور بھی گہری ہوگئی ہے۔ گزشتہ روز صحافیوں سے غیر رسمی گفتگو کرتے ہوئے علی امین گنڈاپور کا کہناتھا کہ بجٹ کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے جوڑنا ان کافیصلہ نہیں تھا، بجٹ کی منظوری کافیصلہ بھی پارٹی کا تھا، یہ فیصلے پارٹی کی جانب سے ہوئے اور بعد میں خود ہی انہوں نے اپنے فیصلوں کی مخالفت کی۔ ان حالات میں جب علی امین گنڈاپور خود اپنے اراکین اسمبلی اور ورکروں کو خوش نہیں کرپارہے وہ کیسے سینیٹ انتخابات میں اپنے ساتھیوں کو پیسے کی چمک کا شکار ہونے سے بچائیں گے؟اس بات کے بھی امکانات ہیں کہ اگر ہارس ٹریڈنگ کا لیول زیادہ ہوا تو اپوزیشن چار کے بجائے پانچ نشستیں بھی لے جاسکتی ہے، لیکن اگر وزیر اعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنے اراکینِ اسمبلی کو بکنے سے بچانے میں کامیاب ہوگئے توان کی پارٹی میں ساکھ دوبارہ بحال ہوجائے گی۔ بظاہر ایسا مشکل لگ رہا ہے لیکن اگر حکومتی مشینری اور اداروں کا استعمال کیاجاتا ہے تو کوئی بھی کام مشکل نہیں۔ماضی قریب میں بانی پی ٹی آئی سرکاری اداروں کے ذریعے اپنے اراکین اسمبلی پر نظررکھتے تھے، یہ روایت سابق وزیراعلیٰ محمود خان نے بھی اپنائی اور اپنے ایم پی ایز کو بچانے میں کامیاب رہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ اس بار کتنے کی بولی لگتی ہے اور وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کیسے اپنے ایم پی ایز کو بچانے میں کامیاب رہتے ہیں۔نشستوں کی تقسیم کے حوالے سے فی الوقت اپوزیشن میں کھینچا تانی جاری ہے اور اپوزیشن فی الوقت کسی فارمولے پر متفق نظر نہیں آتی۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭