بہترین کمائی اپنے ہاتھوں سے کما کر کھانا تمام انبیاء کی سنت ہے
مانگ کر زندگی گزارنا قطعاً باعزت کام نہیں، گداگری اور سود خوری کی آپ ﷺ نے ہمیشہ حوصلہ شکنی کی
حضرت رافع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ عرض کیا گیا اے اللہ کے رسولﷺ سب سے اچھی کمائی کون سی ہے؟ آپﷺ نے فرمایا آدمی کا اپنے ہاتھ سے کام کرنا اور پھر وہ تجارت جو دیانتدارانہ ہونے کی وجہ سے مقبول ہو‘‘(مسند احمد)
رسول اکرم ﷺ کی پوری حیات طیبہ کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ کی ولادت سے 9 سال کی عمر تک آپﷺ کی کفالت آپﷺ کے دادا عبدالمطلب کے ذمہ رہی۔ دادا کی وفات کے بعد رسول اللہ ﷺ کو وراثت کا مال بھی اتنا نہ ملا کہ چچا ابو طالب پر آپﷺ کی پرورش کا بوجھ نہ ہوتا۔ ادھر چچا بھی غریب اور کثیر العیال تھے، گھر کے حالات کے پیش نظر رسول اکرم ﷺنے بکریاںچرانی شروع کیں۔ جب آپ ﷺ جناب حلیمہ کے پاس تھے تو آپﷺ نے حلیمہ کے بچوں کو بکریاں چراتے دیکھا تھا اور آپ ﷺنے ان کا ساتھ بھی دیا تھا۔ اس لیے آپﷺ نے مکہ میں بھی یہی کام اختیار فرمایا۔
جب ذرا بڑے ہوئے تو آپﷺ نے مکہ کے تاجروں کے ہاں اُجرت پر اور کبھی منافع میں شرکت پر کام شروع کر دیا۔ پھر چچا ابو طالب بھی آپﷺ کو شام کی طرف تجارت کے سفروں میں ساتھ لے جاتے۔ اس طرح رسول اللہ ﷺ25 سال کی عمر تک تجارت فرماتے رہے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کا مال تجارت لے کر آپﷺ دو مرتبہ شام تشریف لے گئے اسی تجارت میں آپ ﷺنے ایمانداری اور فرض شناسی کی مثالیں قائم فرمائیں۔
رسول اللہ ﷺ کی معاشی زندگی کا تیسرا دور اُم المؤمنین حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کے بعد شروع ہوتا ہے۔ اب حضور ﷺ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے گھر میں رہنے لگے یہ دور 27 سال تک رہا۔ جس میں 10 سال تک آپ ﷺ کی تجارت کا تذکرہ روایات میں ملتا ہے۔ اس زمانے کے تین سفر تاریخ کا حصہ ہیں ایک یمن کی طرف، دوسرا نفوذ یعنی نجد کی طرف اور تیسرا نجران کی طرف۔ یہ تینوں تجارتی سفر تھے۔
چالیس سال کی عمر میں وحی نازل ہوئی، دعوت اسلام کا آغاز ہوا۔ اس کے بعد13 سالہ مکی زندگی اگرچہ فقرو فاقہ کی زندگی نہ تھی لیکن بہت خوشحال زندگی بھی نہ تھی۔ قریش کی مخالفت کا بازار گرم تھا اس حال میں عام سوداگری کہاں ممکن تھی۔ البتہ وقتی کاروبار اور موسم حج کی آمدن پر گزارا کر کے پاکیزہ زندگی گزاری۔
اپنے ہاتھوں سے کما کر کھانے کی سنت تمام انبیاء کی تھی۔ تاریخی روایات کا مطالعہ کیا جائے تو بہت سے ایسے کام جو آج کل کا سہل پسند انسان ناپسند کرتا ہے، وہ کام سابقہ انبیاء نے اپنے ہاتھوں سے کیے۔ حضرت آدم علیہ السلام نے کھیتی کی، آٹا پیسا روٹی پکائی۔ حضرت ادریس علیہ السلام نے درزی کا کام کیا۔ حضرت نوح علیہ السلام نے کشتی بنائی جو بڑھئی کا کام تھا، ہود علیہ السلام تجارت کرتے تھے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے خانہ کعبہ کی تعمیر کا کام کیا۔ حضرت اسمعیل علیہ السلام تیر بناتے تھے۔ حضرت اسحق علیہ السلام اور یعقوب علیہ السلام اور ان کی آگے تمام اولاد بکریاں چراتے تھے۔
داؤد علیہ السلام زرہ بناتے جو لوہار کا کام ہے۔ زکریا علیہ السلام بڑھئی کا کام کرتے تھے۔ عیسیٰ علیہ السلام ایک دکاندار کے پاس کپڑے رنگتے تھے اور آج بھی اُمت محمدیہ کے بزرگوں کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ کسی نے کپڑا بنا‘ کسی نے چمڑے کا کام کیا ، کسی نے جوتے سینے کا کام کیا‘ کسی نے مٹھائی بنائی۔
معلوم ہوا کہ انسان اپنے ہاتھ سے کما کر کھائے تو یہ انبیاء علیہ السلام اور بزرگوں کا طریقہ ہے۔ دوسروں کے ٹکڑوں پر پلنا اور دوسروں کے مال و دولت پر نظر رکھنا یا ان سے چھین کر یا مانگ کر زندگی گزارنا قطعاً باعزت کام نہیں اور گداگری اور سود خوری کی تو آپ ﷺ نے ہمیشہ حوصلہ شکنی کی۔
رسول اللہ ﷺ نے عملاً یہی سبق دیا۔ ایک صحابی رضی اللہ عنہ حاضر ہوئے، اپنی مالی حالت کا ذکر کیا اور بتایا کہ اب تو کھانے کو بھی کچھ نہیں۔ ایسے لوگوں کو آپ ﷺ صدقات وغیرہ عطا فرما دیا کرتے تھے لیکن ان صحابیؓ سے پوچھا کہ گھر میں کوئی چیز ہے؟ صحابیؓ نے عرض کیا ایک پیالہ اور ایک کمبل ہے۔ آپﷺ نے وہ نیلام کر دیا۔ اس سے جو رقم ملی اس کا ایک کلہاڑا خرید دیا اور فرمایا جائو جنگل سے لکڑیاں کاٹو اور بیچو اور چند روز تک میرے پاس نہ آنا۔ صحابیؓ نے کام شروع کر دیا، چند روز کے بعد حاضر ہوئے تو آپﷺ نے حالت پوچھی۔ عرض کیا کہ الحمدللہ اب مناسب حالت ہو گئی ہے، گھر میں کھانے کو بھی ہے، کچھ بچ بھی گیا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کیا مانگنے والی حالت اچھی تھی جس کی وجہ سے اللہ تعالیٰ تمہیں قیامت کے دن، ذلت کے چہرہ سے اٹھاتا یا اب اپنے ہاتھ سے کما کر حلال و پاکیزہ کمائی اچھی ہے۔
اللہ رب العزت ہمیں اپنے ہاتھ سے حلال کا مال کھانے کی توفیق عطا فرمائے اور جو کچھ کمائیں اسی میں برکت نصیب فرمائے۔