راجہ رانی کی زندگی!

تحریر : علشبہ فاطمہ، فیصل آباد


راجہ رانی ایک قدیمی محل نما مکان میں رہتے تھے۔ انہوں نے اپنی حفاظت کیلئے تین سکیورٹی گارڈ رکھے ہوئے تھے، جو ہر وقت چاک و چوبند رہتے۔ انہیں کھانا، چائے، دیگر ضروریات زندگی کی سہولتیں دی گئی تھیں۔ تنخواہ مناسب اور وقت پر دی جاتی تھی۔ وہ بھی راجہ اور رانی کے حسن سلوک سے بہت خوش تھے۔

 اتفاق سے راجہ اور رانی کو شہر سے باہر جانا پڑ گیا۔ جاتے ہوئے انہوں نے سکیورٹی گارڈز سے کہا ہماری غیر موجودگی میں آپ نے پرندوں اور گھرکی نگرانی کرنی ہے۔ 

چند روز بعد جب راجہ اور رانی گھر واپس آئے تو کمروں کے تالے ٹوٹے ہوئے تھے۔ قیمتی سامان اور زیورات غائب تھے۔ انہوں نے تمام ملازموں کو بلایا اور ان سے پوچھا کہ یہ چوری کیسے ہوئی ہے؟ کیا آپ لوگ چور ہیں؟ 

 ملازموں نے جواب دیا ہمیں گہری نیند آ گئی تھی،ہمیں ہوش نہ رہا اور ہم چور نہیں ہیں۔ راجہ اور رانی نے فوری طور پر انہیں نوکری سے فارغ کردیا اور نئے ملازم رکھ لئے۔ ابھی ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ انہیں رشتے داروں کی شادی کا دعوت نامہ آ گیا۔ انہوں نے سکیورٹی گارڈز کو بلایا اور کہا ہم شادی میں شرکت کیلئے جا رہے ہیں۔ آپ پر پورے مکان اور اعلیٰ نسل کے پرندوں کی حفاظت کی ذمہ داری ڈال کر جا رہے ہیں۔ کوتاہی ہر گز کسی ملازم کی برداشت نہ ہوگی۔ تمام ملازموں نے ایک زبان ہو کر کہا جناب مطمئن رہیں۔

 راجہ اور رانی شادی میں شرکت کیلئے چلے گئے۔ چار دن بعد ان کی وہاں سے واپسی ہوئی، جب وہ گھر میں داخل ہوئے تو ان کے اوسان خطا ہو گئے۔ یہ دیکھ کر کہ کمروں کے تالے ٹوٹے ہوئے ہیں۔ اندر جا کر دیکھا تو تمام قیمتی سامان غائب تھا۔وہ بہت پریشان ہوئے، ایک دوسرے سے کہنے لگے ہماری قسمت بری ہے۔ دوسری دفعہ اتنا زیادہ نقصان ہو گیا۔انہوں نے ملازموں کو طلب کیا اور کہا چور آپ لوگ ہیں کیونکہ آپ نے پوری ذمہ داری لی تھی۔ سب خاموش کھڑے رہے، شرم کے مارے گردنیں جھکا لیں۔ ایک شریف باریش سکیورٹی گارڈ کھڑا ہوا۔ اس نے کہا عالی جاہ ہم ذمہ دار ہیں۔ اس نے بڑے ادب سے کہا اگر آپ اجازت دیں تو واقعہ پیش کروں۔ 

رانی نے غصے میں کہا آپ کیا قصہ بیان کرنا چاہتے ہیں۔ سکیورٹی گارڈ نے ہمت کرکے بتانا شروع کیا۔ جناب عالیٰ چار لوگ جو شکل و صورت میں شریف اور معزز معلوم ہوتے تھے، انہوں نے ہمیں کہا ہم راجہ رانی کے قریبی عزیز ہیں، ملنے آئے ہیں۔ ہم نے ان پر اعتماد کیااور ان سے مٹھائی کھا لی۔ جس کے بعد ہم بے ہوش ہو گئے۔ یہ ہماری بڑی غلطی ہے۔ ہم معافی کے طلب گار ہیں۔ اگر آپ سزا دینا چاہتے ہیں تو ہم قبول کریں گے۔

رانی کو اس کی باتیں سن کر ترس آیا اور کہا ہم آپ کے بچوں پر رحم کرتے ہیں۔ ہم آپ کو معافی دیتے ہیں، آئندہ غلطی کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ راجہ اور رانی بازار سے نیا سامان اور نایاب قیمتی پرندے لے آئے۔انہوں نے چوروں کو پکڑنے کا ایک پروگرام بنایا۔  انہوں نے سکیورٹی گارڈز اور پولیس کو مکان کے چاروں طرف چھپ جانے کا کہا اور خود مکان کو تالے لگا کر مکان کے اوپر چڑھ کر ایک کونے میں چھپ کر بیٹھ گئے۔ چوروں نے تالا لگا ہوادیکھا تو وہ سمجھے کہ وہ کہیں پھر گئے ہوئے ہیں۔ 

چورتالا توڑکر اندر داخل ہو گئے۔ دو چور اوپر چھت پر گئے تاکہ تھیلوں میں نایاب پرندے ڈال لیں۔ ایک چور کی نظر جب راجہ رانی پر پڑی تو اس نے بلند آواز میں اپنے ساتھیوں سے کہا ہوشیار باش بھاگ چلو۔ وہ گھر سے باہر نکلنے لگے تو پولیس اور سکیورٹی گارڈز نے انہیں پکڑا اور خوب پٹائی کی۔ پولیس نے مختلف قسم کے پرچے دے کر انہیں جیل بھیج دیا۔

 تین ماہ بعد ان چوروں کی عدالت میں پیش ہوئی۔ جج نے پوچھا کیا آپ نے چوری کی ہے وہ بولے ابھی تو ہم داخل ہوئے تھے۔ راجہ رانی کے وکیل نے عدالت کو بتایا یہ لوگ دوبار پہلے اس گھر کا صفایا کر چکے ہیں۔ ان کا کیس چھ ماہ چلتا رہا۔ چور پیش ہوتے رہے۔ آخر کار جج نے تمام گواہوں، واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے اور جو ثبوت پیش کئے گئے ان پر غورو فکر کے بعد چوروں کو قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ چور اپنے کئے پر بہت شرمندہ تھے اب کیا ہو سکتا تھا وہ اپنے انجام کو پہنچ چکے تھے۔

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔