عظیم شاہسوار (آخری قسط)
معاویہ بن یزید کی وفات کے بعد عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اپنی خلافت کا اعلان کر دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے لوگ آپ کے مطیع و فرمانبردار ہوتے گئے۔ پورے جزیرہ عرب خاص طور پر اہل حجاز نے آپ کی بیعت کرکے خلافت کو تسلیم کر لیا۔
اس موقع پر یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ نے اپنے کسی ذاتی فائدے کیلئے خلافت کا اعلان نہیں کیا تھا، امت مسلمہ اس وقت جس انتشار کا شکار تھی، گروہی اختلافات اور خانہ جنگی کی سی کیفیت کو دیکھ کر انہوں نے یہ قدم اٹھایا تھا۔ اس بروقت اقدام کے نتیجے میں مصر، یمن، خراسان کی تمام ریاستوں میں آپ کی خلافت کو مان لیا گیا اور اہل مکہ تو پہلے ہی سے آپ کی بیعت میں سبقت کر چکے تھے۔
عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے لئے مسائل کا آغاز شام کی طرف سے ہوا۔ شام کے اکثر صوبوں نے عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی بیعت کر لی تھی سوائے اُردن کے۔ اردن کے لوگ اُموی خلیفہ مروان بن حکم کی بیعت کر چکے تھے۔ لیکن عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی حکومت میں جہاں عدل و انصاف کی فراوانی تھی وہاں ظلم و جور کا کوئی نام و نشان نہ تھا اور لوگ ان کی حکومت میں پرسکون اور امن کے ساتھ زندگی بسر کر رہے تھے۔ اسی بنا پر لوگوں نے مروان بن حکم کے مقابلے میں عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت کو ترجیح دی۔عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کی خلافت ان کیلئے کانٹوں کی سیج ثابت ہوئی۔ اپنے پورے دور خلافت میں انہیں چین نصیب نہ ہو سکا۔ ان کے خلاف فتنے ابھرتے رہے، سازشیں جنم لیتی رہیں۔ خاص طور پر اموی اور ان کے حمایتی لوگ جو خلافت کو اپنا حق سمجھتے تھے، ان سازشوں کے تانے بانے بن رہے تھے۔ امویوں نے عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کے خلاف اپنی تحریک کا آغاز شام سے کیا، کیونکہ شام پر تو پہلے ہی ان کی حکومت تھی اہل شام نے عبداللہ بن زبیرؓ کے خلاف اپنی پوری مدد انہیں فراہم کی۔
شام کے بعد ان لوگوں کی توجہ مصر کی جانب ہو گئی۔ مصر میں بھی بے شمار اُموی موجود تھے، وہ بھی ان کی سازشوں میں شریک ہو گئے۔ دھیرے دھیرے دیگر شہر بھی ان کی حمایت کرتے چلے گئے حتیٰ کہ عراق اور حجاز( مکہ) کے سوا ہر جگہ لوگوں نے ان کی تائید کردی۔ عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے خلاف فضا جب پوری طرح تیار ہو گئی تب عبدالملک بن مروان نے ایک بہت بڑے لشکر کے ساتھ عراق کا رخ کر لیا۔عراق میں عبداللہ رضی اللہ عنہ کے بھائی مصعب کو قتل کرکے عراق کی حکومت پر قبضہ کر لیا۔ عراق پر قبضہ ہونے کے بعد عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ کے پاس صرف حجاز کا علاقہ رہ گیا تھا۔ عبدالملک بن مروان نے حجاز پر قبضے کیلئے کئی حملے کئے۔ لیکن عبداللہ بن زبیررضی اللہ عنہ کی دفاعی حکمت عملی نے انہیں ناکام بنا دیا۔
ناکامیوں سے دو چار ہونے کے بعد عبدالملک نے سوچا کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ کو ایسا قائد شکست سے دو چار کر سکتا ہے جو ہوشیار، چالاک اور تجربہ کار ہو۔ تب اس کے ذہن میں حجاج بن یوسف ثقفی کا نام آیا۔ حجاج بن یوسف ایک سخت گیر سالار کے طور پر اپنی صلاحیتیں منوا چکا تھا۔ اموی حکومت کی اطاعت کی خاطر اس نے بے دریغ خون بہایا ہزاروں کو زنداں میں دھکیل دیا۔ حجاج، عبدالملک کا حکم پا کر مکہ کی طرف لشکر لئے بڑھا۔ یہ سن 72ھ کی بات ہے۔
حجاج نے مکہ مکرمہ کو گھیرے میں لے لیا۔ کئی دنوں کے محاصرے میں اس نے مکہ پر منجنیقوں سے سنگ باری کی انتہا کر دی۔ اس کے حملوں کی سختی کی تاب نہ لا کر عبداللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کے اکثر اہم اور سرکردہ ساتھی ان کا ساتھ چھوڑ گئے۔ ان کے اس اقدام سے عبداللہ رضی اللہ عنہ کو شدید دکھ ہوا، ان کی قوت بالکل ختم ہو کر رہ گئی۔ لیکن ان کے جذبے ابھی توانا تھے اور حوصلے برقرار تھے۔ حجاج کی فوج مکے میں داخل ہو گئی اور انہوں نے عبداللہ رضی اللہ عنہ کا محاصرہ کر لیا۔ عبداللہ رضی اللہ عنہ آنے والے وقت کو پہلے ہی دیکھ چکے تھے۔ اس موقع پر ان کے سامنے دو ہی راستے تھے۔ یا تو حجاج بن یوسف کی شرائط مان کر صلح کر لی جائے، یا پھر حق پر قائم رہتے ہوئے جان دے دی جائے۔
حجاج بن یوسف کے ساتھ لڑائی کے دوران آپ کو شہادت نصیب ہوئی۔ شہادت کے وقت آپ کے لبوں پر یہ اشعار تھے: ’’اے میری اماں جان! اگر میں شہید ہو گیا تو مت رونا، میرے حسب نسب اور دین کے سوا کچھ نہیں بچا، اور یہ تلوار کل میرے دائیں طرف ہوگی‘‘۔ اسی حالت میں یہ عبادت گزار ، پاک روح اپنے ہیدا کرنے والے رب کی طرف روانہ ہو گئی۔ وہ موت کا متلاشی تھالیکن اللہ نے ان کیلئے ہمیشہ کی زندگی لکھ دی۔تارخ ان کی بہادری کے چرچے سے منور رہے گی۔
(ختم شد)