سوء ادب:دیوان غالب مرمت شدہ
شعر میں قافیے کو ایک خصوصی حیثیت حاصل ہے جس سے اسے نہ صرف ڈسپلن حاصل ہوتا ہے بلکہ یہ شعر کو ایک خاص موسیقی سے بھی بہرہ ورکرتا ہے اس لیے شعرا نہ صرف اسے ایک خاص اہمیت دیتے ہیں بلکہ اس کے تمام تلازمات کا بھی خیال رکھتے ہیں غالب نے چونکہ مستقبل میں ایک سند کا درجہ حاصل کرنا تھا اس لیے ان کے لیے ضروری تھا کہ اس کی ضروریات کو ملحوظ خاطر رکھتے۔
لیکن غالب نے ایک سے زیادہ غزلوں میں اس سے انحراف کیا بلکہ بعد میں آنے والوں کو یہ لائسنس بھی فراہم کیا کہ وہ بھی قوافی کی ضروریات کو نظر انداز کر سکتے ہیں بلکہ من چاہا کھلواڑ بھی ان کے ساتھ روا رکھ سکتے ہیں ۔ چنانچہ ایک سے زیادہ غزلوں میں یہ انحراف صاف نظر آتا ہے جن میں سے کچھ کا ذکر ہم کر چکے ہیں اور ایسی ہی ایک غزل کا مطلع ہے۔
گئی وہ بات کہ ہو گفتگو تو کیوں کر ہو
کہے سے کچھ نہ ہوا پھر کہو تو کیوں کر ہو
اس میں دونوں قافیے گفتگو اور کہو آپس میں لگا نہیں کھاتے حالانکہ غزل کو مقفیٰ کہا گیا ہے۔ اس میں اس بات کا بھی لحاظ نہیں رکھا گیا کہ بعد میں آنے والے بھی قافیے کے ساتھ یہ کھلواڑ کر سکتے ہیں ؛چنانچہ اس غزل میں بھی ہو بہو ، کھو دیدار جوکے ساتھ ساتھ ہو ، دو ، کو ، فرو کے ساتھ ساتھ وہ بھی شامل ہے جو کھو دیدار جُو وغیرہ کے ساتھ ہر گز لگا نہیں کھاتے اور ہم عصر شعراء اور بعد میں آنے والوں کو ایک کھلی اجازت دیتے ہیں کہ وہ بھی قافیے کے ساتھ اس قسم کا ارتکاب کر سکتے ہیں، جبکہ قافیے کو جو حرمت حاصل ہے تمام زبانوں کی شاعری میں اس کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے ۔ غالب کو بھی اس کا احساس ہونا چاہیے تھا کہ اس رویے سے دوسروں کو بھی اس کی کھلی آزادی حاصل ہوجائے گی اور یہ ان جیسے بڑے شاعر کو ہر گز زیب نہیں دیتا، لیکن انہوں نے ایک سے زیادہ غزلوں میں اس کا ارتکاب کیا حالانکہ وہ اس سے درگزر بھی کر سکتے تھے کیونکہ زبان پر جس قدر عبور انہیں حاصل تھا اور وہ شاعری کے تلازمات کی جس قدر پیروی کر سکتے تھے اس میں کوئی دوسری رائے موجود ہی نہیں ہے ۔ بہرحال ہم نے اپنا فرض ادا کر دیا ہے اور ان کی شاعری میں اس طرح کی جو جو مثالیں موجود ہیں ہم ان کا ذکر کرتے رہیں گے اگرچہ یہ کام ہم خوشی سے نہیں کرتے لیکن فنی التزامات سے در گزر کرنا ہمارے اپنے اختیار میں بھی نہیں ہے۔