16 جولائی کو یوم وفات دلی کے صاحب کمال مفتی صدر الدین آزردہ

تحریر : ڈاکٹر عرفان احسن پاشا


ان کا شمار اپنے عہد کے مشاہیر شعرا میں ہوتا ہے ، یہ عمر اور عشق ہے آزردہ جائے شرم حضرت یہ باتیں پھبتی ہیں عہدِ شباب میں

 مفتی صاحب کا دیوان خانہ دہلی کے تمام منتخب افراد کا مرکزتھا

ہر فن کے اکابرین کو وہاں ان کے بہترین وقتوں میں دیکھا 

جا سکتا تھا ،اگر کوئی نووارد دہلی آتا اور چاہتا کہ دہلی کے 

سارے اہلِ فضل و کمال کو بیک وقت اور بیک مجلس دیکھ لے 

تو وہ سیدھا ان کے دیوان خانے کا رخ کرتا

دلّی میں عام طور سے اہل کمال تین جگہ اکٹھا ہوا کرتے تھے، ایک علامہ فضل حق خیر آبادی کے دولت کدہ پر، دوسرے نواب مصطفی خاں شیفتہ کی کوٹھی پر، تیسرے مفتی صدر الدین آزردہ کے دیوان خانے پر۔یہ جگہیں شاہی دربار سے کسی طرح کم نہ تھیں۔ بادشاہوں نے لاکھوں روپے صرف کرکے نورتن جمع کئے تھے۔ ان شاہانِ علم نے اپنے حسنِ اخلاق سے سینکڑوں باکمال درباری بنا لیے۔ مولانا ابوالکلام آزاد اپنے والد سے روایت بیان کرتے ہیں جسے غلام رسول مہر نے اپنی کتاب ’’غالب‘‘ میں نقل کیا ہے ۔ ’’والد مرحوم (مولانا خیر الدین دہلوی) شب کی نشستوں میں جب کبھی اس عہد کا ذکر کرتے تو بار بار شعر پڑھتے اور آبدیدہ ہو جاتے۔فرماتے تھے کہ مفتی صاحب کا دیوان خانہ دہلی کے تمام منتخب افراد کا مرکز، جاڑا گرمی، برسات، کوئی موسم ہو  لیکن شب کی یہ مجلس کوئی قضا نہیں کرتا تھا۔ ہر فن کے اکابرین کو وہاں ان کے بہترین وقتوں میں دیکھا جا سکتا تھا ۔اگر کوئی نووارد دہلی آتا اور چاہتا کہ دہلی کے سارے اہل فضل و کمال کو بیک وقت اور بیک مجلس دیکھ لے تو وہ سیدھا مفتی صاحب کے دیوان خانے کا رخ کرتا۔ اٹھارہویں صدی میں پیرس اور لندن کے علم دوست امراء کے سیلون اور ڈرائنگ روم کے جو حالات ہم پڑھتے ہیں بعینہ یہی حال دہلی کے دیوان خانوں کی مجلسوں کا بھی تھا۔ ہر حلقے میں کسی نہ کسی امیر کا دیوان خانہ شب کے اجتماع کا مرکز بن جاتا تھا۔اس حلقے کے لئے ٹھیک ٹھیک ایک علمی، ادبی اور تفریحی کلب کا کام دیتا تھا۔ والد مرحوم ان دیوان خانوں کی مجلس کے جو افسانے سنایا کرتے تھے کاش وہ قلم بند کئے جا سکتے۔ بجھنے والے چراغ کا یہ آخری اجالا تھا۔ گوشان و شکوہ کے پچھلے سارے نقوش مٹ چکے تھے لیکن ان مٹے ہوئے رنگ و روغن میں بھی عہد ماضی کے مرقعوں کی بہاردیکھی جا سکتی تھی‘‘۔

مرزا فرحت اللہ بیگ اپنی تصنیف’’ دلی کی آخری شمع‘‘ میں لکھتے ہیں کہ حویلی عزیز آبادی کے سامنے مفتی صدر الدین کا مکان تھا، اس کے نزدیک نواب مصطفی خاں شیفتہ رہتے تھے۔مکان کوٹھی انگریزی اور ہندوستانی دونوں وضع کو ملا کر بنایا گیا ۔ صحن بہت بڑا نہیں۔ اس میں مختصر سی نہر تھی اور پہلو میں انگریزی وضع کے کمرے تھے۔ دالانوں سے ملا ہوا اونچا صحن اور چبوترہ تھا۔ چبوترے کے اوپر تخت بچھے ہوئے تھے۔ ان پر چاندنی کا فرش اور دو طرف گائو تکیے لگے ہوئے تھے۔

مولوی بشیر الدین احمد بھی لکھتے ہیں کہ مٹیا محل سے سیدھے ہاتھ پر مولوی صدر الدین خاں کی حویلی ہے جو ان سے پہلے ہزارہ بیگ کی حویلی کہلاتی تھی۔ مولوی صاحب نے اسے خرید کر نئے سرے سے بنوایا ۔ حویلی بہت خوش قطع ہے اور اس میں خانہ باغ، نہر فوارے سب کچھ تھا۔

 ناقدین کے مطابق مفتی محمد صدر الدین  آزردہ کو ان کے علم و فضل اور زہد و درع کے پیش نظر محض شاعروں کے زمرے میں شمار کرنا ان کے شایان شان نہیں لیکن اس کے باوجود ان کا اپنے عہد کے مشاہیر شعرا میں شمار ہوتا ہے اور ان کے معاصرین میں سے متعدد اصحاب اس سے مستفیدبلکہ متاثر ہوئے۔ان کا خاندان ہمیشہ علم و فضل سے مفتخر رہا۔ ان کے والد مولوی لطف اللہ کشمیری الاصل تھے۔ مفتی محمد صدر الدین کی ولادت1789ء میں دہلی میں ہوئی۔ قرآن و حدیث و فقہ مولانا شاہ عبدالعزیز اور مولانا عبدالقادر اور شاہ محمد اسحاق سے پڑھے اور فلسفہ منطق وغیرہ علوم حکیمہ مولوی فضل امام خیر آبادی سے۔ اپنے زمانے کے رواج کے مطابق خوشنویسی کی بھی باقاعدہ مشق کی تھی اور اس میں بہادر شاہ ظفر کے شاگرد تھے۔ پھر  علوم نقلیہ و عقلیہ میں خود وہ درجہ کمال حاصل کیا۔ انہوں نے بھی صدقہ جاریہ کے طور پر یہ فیض عام کردیا۔

 شاہجہان نے اپنے زمانہ حکومت میں ایک مدرسہ دارالبقا کے نام سے قائم کیا تھا۔ مناسب انتظام کے فقدان اور بے توجہی کے باعث یہ ایک زمانے سے ویران حالت میں پڑا تھا۔ مفتی آزردہ نے عمارت کی مرمت کروائی اور اسے پھر سے جاری کردیا۔ اس کے تمام اخراجات اپنی جیب سے ادا کرتے اور خود بھی طلبہ کو پڑھاتے ۔یہی نہیں، نادار اور ضرورت مند طلبہ کی ضروریات کے بھی کفیل ہوتے۔ ان کے نامور شاگردوں میں سر سید احمد خاں، یوسف علی خاں ناظم (نواب رامپور)، مولانا ابواکلام آزاد کے والد مولانا خیرالدین، نواب صدیق حسن خاں اور مولانا فیض الحسن خاں جیسے لوگ شامل تھے۔

 اپنی علمی فضیلت اور دوسری دماغی اور روحانی خوبیوں کے باعث مرجع خاص و عام تھے۔ سلطنت مغلیہ کی طرف سے مفتی کے خطاب  سے مفتخر ہوئے اور مدتوں حکومت کی طرف سے مسند افتا کی زینت رہے۔

جب انگریزں نے اپنی سلطنت کا استحکام چاہا تویہ تجویز سوچی گئی کہ یہاں کے اہلِ وجاہت اور بار سوخ اصحاب کو انتظام حکومت میں شامل کرنا چاہئے تاکہ لوگوں کی وحشت دور ہو اور ان کی نظروں میں اس کا وقار بڑھے۔ چنانچہ شخصی مقدمات فیصل کرنے کیلئے علماء اور پنڈتوں کی خدمات حاصل کی گئیں۔ اسی منصوبے کے تحت مفتی صاحب بھی انگریزوں کے ملازم ہوئے۔ اُن کے جرنیل ڈیوڈ اختر لونی(David Ochterlony) کے ساتھ بہت دوستانہ تعلقات تھے اور اسے ان پر کامل اعتماد تھا۔ اسی کی سفارش اور وساطت سے یہ انگریزی ملازمت میں داخل ہوئے۔ ابتدائی زمانہ ملازمت میں بہت دن تک اختر لونی ہی کے ساتھ اجمیر اور جے پور  وغیرہ میں مقیم رہے۔ ان دنوں یہ چار سو روپیہ مشاہرہ پاتے تھے۔ اس کے بعد انہیں 15جون1844ء کو دلی میں صدر الصدور مقرر کیا گیا۔

   1857ء کے ہنگامے ہوئے تو اسی انگریزکے ہاتھوں معتوب ہوئے تھے۔ الزام یہ تھا کہ تم نے بخت خاں کے فتویٰ جہاد پر دستخط کئے تھے۔ تقریباً چھ مہینے حوالات میں رہے۔بہرحال فیصلے میں جان بخشی تو ہو گئی اور رہائی پائی لیکن جائیداد ضبطی کے بعد نیلام ہو گئی اور ملازمت سے بھی ہاتھ دھونا پڑا۔ رہائی کے بعد یہ لاہورآئے اور سر جان لارنس سے ملاقات کی جو اُس وقت پنجاب کے چیف کمشنر تھے۔ مقصد یہ تھا کہ کسی طرح کتب خانہ جس کی قیمت تین لاکھ روپے بتائی جاتی ہے اور جو دوسرے مال اسباب کے ساتھ نیلام ہو گیا تھا، واپس مل جائے۔ سرجان لارنس ان کے پرانے ملنے والے تھے اور اپنے قیام دلّی کے زمانے کی ملاقاتوں میں ان پر بہت مہربانی کرتے رہے تھے۔ مفتی صاحب چاہتے تھے کہ وہ سرکاری طور پر مداخلت کرکے کسی  طرح یہ کتب خانہ واپس دلوا دیں چونکہ منقولہ جائیداد جو قانونی طور پر کسی دوسرے شخص کے قبضے میں چلی گئی ہو اس کا بحال ہونا محال ہے اس لئے انہیں اپنے مقصد میں کامیابی نہ ہوئی۔ البتہ اتنا فائدہ ضرور ہوا کہ سرجان کی سفارش اور کوشش سے نصف جائیداد واگزار ہو گئی۔

عبدالرحمان پرواز اصلاحی لکھتے ہیں کہ آزردہ نے اپنا اردو کلام شروع میں چند دن نصیر دہلوی کو دکھایا تھا۔ ان کے بعد رحمت اللہ اکبر آبادی اور میر نظام الدین ممنون سے اصلاح لی۔ افسوس یہ سارا ذخیرہ شورش کے ایام میں برباد ہو گیا اور اس کے بعد جو حالات رہے ظاہر ہے کہ ان میں شعر گوئی کہاں سوجھ  سکتی تھی، لیکن ادھر اُدھر تذکروں میں جو چند غزلیں ملتی ہیں ان سے معلوم ہوتا ہے کہ طبیعتِ رسا پائی تھی اور غزل خوب کہتے تھے۔                                                                

یہ عمر اور عشق ہے آزردہ جائے شرم

حضرت یہ باتیں پھبتی ہیں عہدِ شباب میں

صاف اور سلیس زبان میں اظہارِ خیالات ان کا طرۂ امتیاز ہے۔ تعقید اور ثقالت ان کے ہاں برائے نام بھی نہیں، نہ صرف اپنے ہاں بلکہ دوسروں کے بھی وہی شعر پسند کرتے جو آسان اور رواں ہوتے یا جن میں کوئی جدت کا پہلو ہوتا۔ روایت ہے کہ کسی نے ان کے سامنے غالب کی تعریف کی چین بجیں ہو کر کہا ’’بہت مشکل کہتا ہے‘‘ پھر خود ہی زانو پر ہاتھ مار کر کہنے لگے ’’ہائے، کیا اچھا کہتا ہے ۔‘‘

عمر کے آخری مرحلے میں جب قویٰ کمزور ہو گئے تو عبادت کے ساتھ ان کا محبوب مشغلہ طلبہ کو پڑھانا تھا۔ اگرچہ مالی لحاظ سے وہ حیثیت نہ رہ گئی تھی کہ طلبہ کے اخراجات کا بار برداشت کریں لیکن جہاں تک بن پڑتا تھا طلبہ کی دیکھ بھال بھی کرتے تھے۔ اس سلسلے میں نواب صاحب رام پور جناب کلب علی خاں کو توجہ دلاتے ہوئے خط لکھتے تھے۔

مفتی صاحب کے کوئی اولاد نہ تھی۔ ان کی معنوی اور روحانی اولاد طالبان علم و فن تھے اور ان سے ان کی وابستگی عمر کے آخری دنوں تک باقی رہی۔اس کے علاوہ طبیعت میں فیاضی اور جودو سخا کا مادہ فطری طور پر بہت زیادہ تھا۔ اس لئے اپنی آمدنی میں اور دوسروں کو بھی شریک بنا لیا تھا۔ مفتی صاحب کے جو خطوط خواجہ احمد فاروقی صاحب نے شائع کئے ہیں ان میں طلبہ کے علاوہ اپنی بیماری کا ذکر ہے۔ دوائوں کی فرمائش ہے۔ تہنیت و مزاج پرسی ہے۔ اپنی بیوی کے حقیقی بھانجے عنایت الرحمن خاں سابق ڈپٹی کمشنر محکمہ دریافت انعامات سرکار نظام دکن کے لئے اعانت و وظیفہ کی اپیل بھی ہے۔عنایت الرحمن خاں مفتی صاحب کے متبنیٰ تھے جنہیں وہ نہایت عزیز رکھتے تھے۔ مفتی صاحب نے انتقال سے ایک دن پہلے جو خط نواب کلب علی خاں کو لکھا اس میںتحریر فرماتے ہیں کہ اس کو میں نے فرزندانہ پرورش کیا ہے اور نہایت لئیق و سعادت مند اور نیک چلن ہے اپنی ز وجہ ضعیفہ اور ان کو آپ کے سپرد کئے جاتا ہوں میرے بعد ان کی خبر گری فرماتے رہیں۔

مفتی صاحب دو سال تک فالج کے مرض میں مبتلا رہے۔ بقول مرزا غالب ’’پرسوں (11دسمبر) کو فالج ہو گیا ہے۔ سیدھا ہاتھ رہ گیا۔ زبان موٹی ہو گئی ہے ،بات مشکل سے کرتے ہیں اور کم سمجھ میں آتی ہے‘‘۔ چنانچہ یہی فالج کا مرض ان کیلئے جان لیوا ثابت ہوا۔ 81 سال کی عمر میں 157 سال قبل 16جولائی1868ء کو انتقال کیا۔ 

آزردہ کا کلام

اگر ہم نہ تھے غم اٹھانے کے قابل

 تو کیوں ہوتے دنیا میں آنے کے قابل

کروں چاک سینہ تو سو بار لیکن

نہیں داغ دل پہ دکھانے کے قابل

ملیں تم سے کیونکر رہے ہی نہیں ہم

بلانے کے قابل نہ آنے کے قابل

چھٹے بھی قفس سے تو کس کام کے ہیں

نہیں جب چمن تک بھی جانے کے قابل

خدایا یہ رنج اور یہ ناصبوری

نہ تھے ہم تو اس آزمانے کے قابل

وہ آزردہ جو خوش بیاں تھے نہیں اب

اشارے سے بھی کچھ بتانے کے قابل

………………

نکلنا ہوا دل سے دشوار کیوں

یہ اک آہ ہے اس کا پیکاں نہیں

یہ ہاتھ اس کے دامن تلک پہنچے کب

رسائی جسے تا گریباں نہیں

فلک نے بھی سیکھے ہیں تیرے سے طور

کہ اپنے کئے سے پشیماں نہیں

مرا نامۂ شوق تلوئوں تلے

نہ ملیے یہ خونِ شہیداں نہیں

اسی کی سی کہنے لگے اہل حشر

کہیں پرسش داد خواہاں نہیں

………………

یہ کہہ کے رخنے ڈالیے ان کے حجاب میں

اچھے برے کا حال کھلے کیا نقاب میں

بے اعتدالیاں مری ظرف تنگ سے ہیں

 تھا نقص کچھ نہ جوہر صہبائے ناب میں

اٹھنے میں صبح کے یہ کہاں سرگرانیاں

زاہد نے مے کا جلوہ یہ دیکھا ہے خواب میں

تحقیق ہو تو جانوں کہ میں کیا ہوں قیس کیا

لکھا ہوا ہے یوں تو سبھی کچھ کتاب میں

انوار فکر سے نہ ہوا کچھ بھی انکشاف

جتنا بڑھے ہم اور بڑھی جا حجاب میں

یہ عمر اور عشق ہے آزردہ جائے شرم

حضرت یہ باتیں پھبتی ہیں عہدِ شباب میں

…………

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭