احسان کرنے کا حکم
’’بیشک اللہ عدل کرنے کا،اور احسان کرنے کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے‘‘ (النحل) ’’تم آپس میں ایک دوسرے کے احسان کو مت بھولو، بیشک اللہ تعالیٰ کوتمہارے ‘‘اعمال کی خبر ہے (سورۃالبقرہ) ’’اور احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (سورۃالبقرہ)
احسان یہ ہے کہ ہم کسی کے ساتھ بھلائی اور نیکی کا معاملہ کریں۔ کسی کو راہ راست پر لانا اور اس کی خیر خواہی کرنا بھی احسان ہی کی ایک صورت ہے۔اسی طرح بھلائی کا جواب اس سے زیادہ بھلائی اور برائی کا جواب بھی بھلائی کے ساتھ دینا احسان ہے۔اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو پسند کرتے ہیں، کسی حاجت مند کی ضرورت کو پورا کرنا بھی احسان ہے۔کسی روتے کو ہنسا دینا، کسی غم زدہ کی دلجوئی کرنا بھی حسن سلوک میں آتا ہے جو احسان و بھلائی کا باعث ہے۔کسی کی زیادتی کو برداشت کرنا اور پھر بدلے کی طاقت کے باوجود اسے معاف کر دینا احسان کی سب سے عظیم صورت ہے۔اللہ تعالیٰ ایسے لوگوں کو محبوب رکھتے ہیں جو دوسروں کو معاف کر دیتے ہیں۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کو احسان کرنے کا حکم دیا کہ ہم بھلائی اور نیکی والا معاملہ کرتے ہوئے دوسروں پر احسان کریں،اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا: ’’بیشک اللہ تعالیٰ عدل کرنے کا،اور احسان کرنے کا اور قرابت داروں کو دینے کا حکم دیتا ہے‘‘ (النحل: 90)۔
احسان کرنے والوں کا شمار اللہ رب العزت کے مقرب اور محبوب بندوں میں ہوتا ہے،اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’اور احسان کرو اللہ تعالیٰ احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے‘‘ (البقرہ: 195)۔ جو احسان کو اپناتے ہیں وہی اللہ تعالیٰ کی معیت اور نصرت کے حق دار ہوتے ہیں۔ احسان کرنیوالے ہی متقی لوگوں کی صف میں شامل ہو کر اللہ رب العزت کی رضا کے ساتھ دنیا و آخرت کی بھلائیاں پانے والے ہیں۔ فرمان باری تعالیٰ ہے: ’’بیشک پرہیزگار باغوں اور چشموں میں (لطف اندوز ہوتے) ہوں گے، اُن نعمتوں کو (کیف و سرور) سے لیتے ہوں گے جو اُن کا رب انہیں (لطف و کرم سے) دیتا ہو گا، بیشک یہ وہ لوگ ہیں جو اس سے قبل (کی زندگی میں) صاحبانِ احسان تھے‘‘ (الذاریات: 15،16)۔ ان تمام آیات کی روشنی میں معلوم ہوا کہ احسان کرنا اللہ تعالیٰ کا وصف ہے، اس لیے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو بھی احسان کرنے کی تلقین کرتا ہے۔
احادیث مبارکہ کی روشنی میں بھی احسان کی فضلیت سے آگاہی حاصل ہوتی ہے۔ امام بخاریؒ اور امام مسلمؒ کی روایت کردہ متفق علیہ حدیث میں ہے کہ ایک روز جبرائیل امین علیہ السلام حضورﷺ کی خدمت میں انسانی شکل میں حاضر ہوئے اور امت کی تعلیم کیلئے عرض کیا: یا رسول اللہﷺ! مجھے ایمان کے بارے میں بتائیے کہ ایمان کیا ہے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ تعالیٰ اس کے فرشتوں، اس کے نازل کردہ صحیفوں، اس کے رسولوں اور روز آخرت پر ایمان لائے اور ہر خیر و شر کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے مقدر مانے۔ انہوں نے پھر پوچھا اسلام کیا ہے؟ نبی اکرمﷺ نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ تو اس بات کی گواہی دے کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمدﷺ اللہ کے رسول ہیں، اور یہ کہ تو نماز قائم کرے اور زکوٰۃ ادا کرے اور تو ماہ رمضان کے روزے رکھے اور اگر استطاعت ہو تو اس کے گھر کا حج کرے۔ اس کے بعد جبرائیل امین علیہ السلام نے تیسرا سوال احسان کے بارے میں کیا تو نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے‘‘۔
نبی کریم ﷺ کی زندگی سے بھی احسان کی متعدد مثالیں ملتی ہیں جو روز روشن کی طرح ہمارے لیے نمونے کے طور پر عیاں ہیں۔ نبی کریم ﷺ سب سے زیادہ احسان کرنے والے تھے۔ فتح مکہ کے موقع پر جب اللہ تعالیٰ نے آپﷺ کو فتح دی اور آپﷺ مکہ مکرمہ کے سردار بنے اس وقت یہ موقع تھا کہ اپنے دشمنوں سے بدلہ لیا جائے اور ان کو ان تمام مظالم اور زیادتیوں کی سزا دی جائے جو انہوں نے نبی مکرمﷺ اور صحابہ کرامؓ کے ساتھ کیے تھے۔ مگر نبی ﷺ نے سب کو احسان کا معاملہ کرتے ہوئے معاف فرما دیا اور اپنے بڑے دشمن کے متعلق یہ فرمایا جس نے ابوسفیان کے گھر میں پناہ لی اس کو بھی امان حاصل ہو گئی۔ نبیﷺکی زندگی سے احسان کی لازوال مثالیں ملتی ہیں جو سنہرے حروف میں لکھنے کے قابل ہیں۔رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ: ’’اللہ تعالیٰ نے ہر چیز میں احسان (اچھا انداز اختیار) کرنا تم پر فرض کیا ہے، لہٰذا جب تم کسی (موذی جانور) کو مارو تو اچھے طریقے سے مارو اور جب تم جانور ذبح کرو تو اچھے طریقے سے ذبح کرو، چھر ی اچھی طرح تیزکرو اور ذبیحہ کو راحت پہنچاؤ‘‘ (ابن ماجہ:3170)۔
حضرت ابوہریرہ ؓ رسول اکرم ﷺ سے روایت کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’جو شخص انسانوں کا شکر نہیں اداکرتا، وہ اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کر سکتا‘‘ (جامع ترمذی: 1955)۔ حضرت ابن عباسؓ نقل کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بیویوں کی ناشکری کے حوالے سے ارشاد فرمایا: مجھے دوزخ دکھلائی گئی تو اس میں زیادہ تر عورتیں تھیں جو کفر کرتی ہیں۔ عرض کیاگیا یا رسول اللہﷺ! کیا وہ اللہ کے ساتھ کفر کرتی ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا کہ خاوند کی ناشکری کرتی ہیں اور احسان کی ناشکری کرتی ہیں۔ اگر تم عمر بھر ان میں سے کسی کے ساتھ احسان کرتے رہو پھر تمہاری طرف سے کبھی کوئی ان کے خیال میں ناگواری کی بات ہو جائے تو فوراً کہہ اٹھے گی کہ میں نے کبھی تجھ سے کوئی بھلائی نہیں دیکھی(صحیح بخاری: 5197)۔
احسان کی دو قسمیں ہیں احسان مع الخالق، احسان مع الخلق۔احسان مع الخالق سے مراد اللہ تعالیٰ کے ساتھ احسان کا تعلق ہے۔ اللہ تعالیٰ سے احسان یہ ہے کہ اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کی جائے۔ قرآن کریم میں آتا ہے:احسان کا بدلہ احسان کے سوا اور کیا ہو گا۔ اللہ تعالیٰ نے ہم پر احسان کیا کہ ہمیں انسان بنایا اور نبی کریم ﷺ کا امتی بنا کر تمام امتوں پر ہمیں فضلیت دی۔ اللہ تعالیٰ کے احسانات کا تقاضا ہے کہ ہم اپنی تمام خواہشات کو پس پشت ڈال کر اپنے خالق حقیقی کے آگے سر تسلیم خم کر دیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ تم اللہ تعالیٰ کی عبادت ایسے کرو جیسے تم اسے دیکھ رہے ہو اور اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے تو وہ تو تمھیں دیکھتا ہی ہے، یعنی اللہ رب العزت کی عبادت خشوع وخضوع، عاجزی و انکساری سے کرنی چاہیے یہ بھی احسان کی ہی صورت ہے۔ اللہ کے ساتھ احسان کے تعلق میں نبی ﷺ کے ساتھ احسان بھی شامل ہے یعنی حضورﷺ کی اطاعت و فرمانبرداری بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری کے ساتھ ضروری ہے اور دائرہ اسلام میں داخل ہونے کے بعد بندہ مومن سے اس کا ایمان اسی بات کا تقاضا کرتا ہے۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت و اطاعت احسان کی اعلیٰ و ارفع صورت ہے۔ احسان مع الخلق سے مراد مخلوق کے ساتھ احسان کا معاملہ کرنا ہے۔ اس کا تعلق اللہ کے بندوں کے ساتھ ہے یعنی اللہ کے بندوں کے ساتھ مہربانی، ہمدردی اور احسان کا معاملہ کرنے سے انسان کو اللہ رب العزت کا قرب ملتا ہے اسلام دین کامل ہے جو ہر لحاظ سے اپنے ماننے والوں کو احسان اور درگزر کرنے کا حکم دیتا ہے۔