انوکھا سخی (قسط نمبر1)
حجاز کی سرزمین عجب تماشا دیکھ رہی تھی۔ اس نے قبیلوں کو آپس میں لڑتے دیکھا تھا، خاندانوں کو جھگڑتے دیکھا تھا، برادری کے نام پر نفرت کے کھیل دیکھے تھے، لیکن یہ کیسی ہوا چلی تھی کہ باپ بیٹے کا دشمن ہو گیا تھا، ماں اپنے ہی سگے بیٹے کو زنداں میں بند کر رہی تھی، بھائی بھائی کی جان کے در پے تھا۔ یوں لگتا تھا کسی نے اُن کے دلوں کا رخ پھیر دیا ہے۔
واقعی جس دن سے محمد ﷺ نے اہل حجاز کو سچائی کے راستے پر چلنے کی دعوت دی تھی، اپنے نبی ہونے کا اعلان کیا تھا، اسی دن سے کفار کے دلوں میں رشتوں کی محبت، نفرت کی آگ میں بدلنے لگی تھی۔ جن لوگوں کو ہدایت کا نور نصیب ہوا، وہ اپنی خوش قسمتی پر ناز کر رہے تھے اور ہدایت سے محروم لوگ ان کی بدقسمتی پر ماتم کر رہے تھے۔ اپنے آبائی دین سے پھرنے والوں کو بہلا پھسلا کر، لالچ دے کر اور کہیں کہیں مار پیٹ سے کام لے کر محمد ﷺ کا ساتھ چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی کوشش ہو رہی تھی۔ لیکن ان کی تمام کوششیں ناکام ثابت ہوئی تھیں۔
عداوت اور نفرت کا یہ کھیل دن بدن تیز ہوتا جا رہا تھا۔ حجاز کی فضا دشمنی کے زہر سے آلودہ ہو چکی تھی۔ محمد ﷺ کے ساتھیوں پر حجاز کی سرزمین تنگ ہوتی جا رہی تھی۔ ان کا معاشرتی بائیکاٹ کیا جا رہا تھا۔ انہیں طرح طرح سے اذیتیں دی جا رہی تھیں۔ نفرت اور عداوت کی آگ میں جلنے والوں میں ایک عاص بن اُحیحہ بھی تھا۔ اسے محمد ﷺ کے پیروکاروں کے خلاف سازش کرنے کا جو موقع بھی ملا، اس نے اس سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ تکلیف پہنچانے کا جو راستہ بھی نظر آیا، آنکھیں بند کرکے اسے راستے پر چلا۔ دشمنی کے راستے میں عاص بن اُحیحہ اور اس کے دوسرے ہم سفروں کی طرف سے تکالیف جب انتہا کو چھونے لگیں تو محمد ﷺ کے ساتھی سرزمین حجاز کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے۔ ان کی منزل یثرب( مدینہ) تھی۔ خیال تھا کہ وہاں پہنچ کر وہ آزادی کے ساتھ ہدایت کی روشنی پھیلا سکیں گے، لیکن یہ سکون اور اطمینان عارضی ثابت ہوا۔ محمد ﷺ کے پیروکار مخالفت کے جس طوفان کو پیچھے چھوڑ آئے تھے، وہ بدستور ان کے تعاقب میں تھا۔ یہ طوفان اپنے دامن میں ایک معرکہ سمیٹے چلا آ رہا تھا۔ بالآخر بدر کے میدان میں محمد عربیﷺ کے پیروکاروں کا ان سے سامنا ہوگیا۔
عرب کے سب سے اہم قبیلے قریش کے بڑے بڑے سردار طاقت کے نشے میں میدان جنگ سجانے کیلئے پہنچے ہوئے تھے۔ نفرت کی آگ ان کے دلوں کو جھلسا رہی تھی۔ ان ہی میں عاص بن احیحہ بھی شامل تھا۔ وہ اپنے دل میں فتح کی امید لئے آیا تھا۔ ان کا لشکر اسلحہ اور سازو سامان سے لیس تھا۔ وہ تعداد میں بھی زیادہ تھے، پھر کون تھا جو ان کی جیت کوہار میں بدلتا۔ کیا محمد ﷺ کے پیروکار، جن کے پاس لڑنے کیلئے اسلحہ تک نہ تھا، چند تلواروں کے زور پر وہ کر بھی کیا سکتے تھے۔ عاص بن احیحہ تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ بے سازو سامان، گنتی کے چند لوگ انہیں کوئی نقصان پہنچا سکتے ہیں۔ لیکن وہ اس حقیقت سے نا آشنا تھا کہ محمدﷺ کے جاں نثار، سچائی اور حق کیلئے لڑ رہے ہیں، جبکہ وہ اور اس کے حواری جھوٹ اور باطل کی فتح کیلئے آئے ہیں۔ لیکن بری تدبیر، اپنے کرنے والے ہی کو ہلاک کرتی ہے۔
عاص بن احیحہ میدان میں آیا تو اس کا سر فخر اور غرور سے تنا ہوا تھا۔ وہ اپنے سامنے کھڑے مختصر لشکر کو حقیر نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ اسے اپنے مقابلے کا کوئی آدمی نظر نہیں آ رہا تھا، لیکن اس نادان کی غلط فہمی جلد ہی دور ہو گئی۔ ان کے مقابل وہ شہسوار آیا جس کی ضرب کبھی خطا نہیں گئی۔ علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ، بڑی شان کے ساتھ اس کے مقابلے پر آئے۔ غرور کا پیکرعاص بن احیحہ ان کی شجاعت کا ذرا بھی زور سہہ نہ سکا ،اس کے اندر دشمنی کی بھڑکتی ہوئی آگ، اپنے ہی خون سے بجھ گئی۔
یہ تھی محمد مصطفیﷺ کے جاں نثار صحابہ ؓ اور کفار مکہ کے درمیان معرکہ کی ایک جھلک۔ بڑے بڑے سرداران قریش، اس جنگ میں اپنے غرور سمیت ہلاک ہو گئے۔ مسلمان فتح سے ہمکنار ہوئے۔ دوسرے سرداروں کی طرح عاص بن احُیحہ بھی جہنم واصل ہوا، لیکن عاص بن احیحہ کی کہانی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ یہاں سے ایک اور کہانی جنم لیتی ہے۔ اس کے بیٹے سعیدؓ بن عاص کی صورت میں نیکی کا نیا باب شروع ہو گیا۔ باپ دادا کفر کی حالت میں مر گئے۔ سعیدؓ یتیم ہو گیا۔ ہجرت کے سال ہی میں تو وہ پیدا ہوا تھا۔ کون تھا جو اس کو سچائی کا راستہ دکھاتا، کوئی بھی تو نہیں تھا جو اسے باپ دادا کے کفر کی زد سے بچا کر اسلام کی طرف لاتا۔ یہ ممکن تھا کہ مشرک رشتے دار، اس بچے کو باپ کی الم ناک موت کے جھوٹے سچے قصے سنا کر اس کے اندر انتقام کی آگ بھڑکا دیتے۔ اس کے لہو میں مسلمانوں سے نفرت کا زہر بھر دیتے، یہ کوئی بہت مشکل کام تھا بھی نہیں۔ اپنے باپ کے قاتلوں سے کوئی بھی ہمدردی نہیں رکھتا۔(جاری ہے)