مہمان نوازی !

تحریر : طوبیٰ سعید


برسات کے دن تھے، ہر طرف بارش سے موسم خوشگوار اور سڑکیں پانی سے جل تھل تھیں۔ بارش رکنے کے کچھ دیر بعد بہت حبس ہو گیا تھا۔

رانیہ پانچویں جماعت میں پڑھتی ہے۔ایک مرتبہ اتوار کے روز اس کے امی ابو شاپنگ پر گئے ہوئے تھے۔ اچانک تیز بارش شروع ہوجانے سے وہ وہیں رک گئے۔ گھر بیٹھی رانیہ پریشان ہوئی لیکن اس نے اپنا حوصلہ بلند رکھا اور خیریت فون پر پوچھتی رہی۔ 

ابھی موسم خوشگوار ہوجانے کے بعد حبس کا سماں تھا کہ دروازے پر دستک ہوئی۔رانیہ نے دروازہ کھولا تو اس کے چچا اور چچی سامنے کھڑے تھے۔

’’اسلام علیکم ‘‘ رانیہ نے انھیں سلام کیا اور اندر آنے کا کہا۔ 

’’وعلیکم السَّلام! شکریہ بیٹی ‘‘۔

رانیہ نے انھیں ڈرائنگ روم میں اے سی لگا کر بٹھایا۔ ان سے باتیں کیں تو اسے معلوم ہوا کہ وہ خریداری کی غرض سے باہر نکلے تھے، بارش ، پھر اس کے بعد حبس اور کیچڑ کی وجہ سے انھیں ادھر آنا پڑا۔

رانیہ نے بتایا کہ ’’اس کے مما بابا بھی بازار ہی گئے ہوئے ہیں اور وہیں بارش کے باعث رک گئے۔ اب پتہ نہیں کہ کب تک واپس آتے ہیں ‘‘۔

’’چلو کوئی بات نہیں، ہم بھی تھوڑی دیر رک کر چلے جائیں گے‘‘۔ رانیہ کی چچی نے کہا تو رانیہ بولی : ’’کوئی بات نہیں چچی، آپ جتنی دیر تک چاہیں رک سکتی ہیں‘‘۔ 

رانیہ اپنے چچا چچی کو بیٹھا کر کچن میں گئی اور ان کیلئے کھانے پینے کا بندوبست کرنے لگی۔اس نے جگ میں پانی ڈالا اوراس میں چینی گھولی، اس میں نمک اور فریج سے لیموں نکال کر نچوڑے اور اس میں برف ڈال کر اچھی طرح مکس کیا اور ان کیلئے مزیدار شکنجبین تیار کر کے لے آئی۔

چچا اور چچی نے پانی پیا تو ان کو شدید حبس میں سکون سا آگیا۔ دونوں بے حد خوش ہوئے اور اس کو بہت سی دعائوں سے نوازا۔

رانیہ نے کہا: ’’میری ٹیچر نے ہمیں چھٹیوں سے پہلے بتایا تھا کہ ’’گرمی اور حبس میں خون اور پانی ایک ہوا ہوتا ہے اور جسم میں نمکیات کی کمی ہوجاتی ہے۔ تو آپ جتنا چاہیں پانی پئیں۔ تاکہ سکون بھی ملے اور پانی کی بھی کمی جسم میں واقع نہ ہو‘‘۔

آپ لوگ تھکے ہوئے بھی ہیں۔ اس لیے میں نے سوچا کہ اس موسم میں یہی بنائی جائے‘‘۔یہ سن کر اس کے چچا چچی اس سے بہت متاثر ہوے۔

اس کے بعد شام کی چائے کا وقت ہوا تو اپنے امی ابو کی فکر کرتے ہوئے رانیہ دوبارہ کچن میں گئی اور چائے بنائی اور کباب بھی گرم کیے۔ 

تھوڑی دیر میں اس کے گھر کا دروازہ کھٹکا تو اس کے چچا نے کھولا تو اس کے امی ابو بھی آگئے۔جن کے آنے سے رانیہ مطمئن ہوگئی۔ 

چچا چچی سے مل کر اس کے امی ابو بہت خوش ہوئے۔ 

رانیہ نے انھیں بھی شکنجبین پیش کی تو ان کو سکون سا آگیا اور اس کی بہت تعریف کی۔

رانیہ نے شدید حبس میں چائے اور کباب تیار کیے اور نہایت خوبصورتی سے ٹرے میں چمچ، پلیٹیں اور کیچپ اور ٹشو رکھ کر ڈرائنگ روم میں لے آئی اور اس کے بعد دوسری ٹرے میں چائے کے پانچ کپ مورکھ کر پیش کیے۔

رانیہ کی اس مہمان نوازی سے سب بے حد متاثر ہوئے اور بالخصوص اس کے علم اور اس پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ تابعداری سے بے حد خوش ہوئے۔

کھانے پینے سے فارغ ہوجانے کے بعد اس کے چچا چچی جب گھر جانے کیلئے تیار ہوئے تو انھوں نے اس کو پانچ سو روپے بطورِ انعام میں دیے۔ جس کو پاکر رانیہ بے حد خوش ہوئی اور اس نے ان کا شکریہ ادا کیا۔

 

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭