قومی سپورٹس پالیسی پر عملدرآمد: کھیلوں میں اصلاحات وعملی ا قدامات
ایک زمانہ تھا جب پاکستان بیک وقت ہاکی، سکواش، کرکٹ اور سنوکر کا عالمی چیمپئن تھا۔ ہاکی اور سکواش میں تو گرین شرٹس ناقابل شکست تصور کئے جاتے تھے جبکہ دیگر کھیلوں میں بھی سبزہلالی پرچم ہمیشہ سربلند دکھائی دیتا تھا۔
یہ وہ زمانہ تھا جب ملک میں سکول سپورٹس کا کلچر عام تھا، ہر تعلیمی ادارے میں کھیلوں کا ٹیچر (پی ٹی آئی /ڈی پی ای) ہوا کرتا تھا۔ سپورٹس کے پیریڈ میں طلباء و طالبات میدان میں سپورٹس ٹیچر کی زیرنگرانی کھیلتے تھے۔ اس سے کھیلوں کا بہترین ٹیلنٹ سامنے آتا تھا۔ پھر آہستہ آہستہ کھیلوں میں سیاست، اقربا پروری اور مالی بدعنوانیوں کی شکایات بڑھتی گئیں اور عالمی میدانوں میں پاکستانی فتوحات کم ہوتی گئیں۔ حتیٰ کہ ایسا بھی وقت آیا کہ پاکستان کیلئے ہاکی ورلڈکپ یا اولمپک جیسے بین الاقوامی مقابلوں میں کوالیفائی کرنا بھی مشکل ہو گیا۔
2005ء میں حکومت پاکستان نے نئی ’’قومی کھیل پالیسی‘‘ جاری کی جس کا مقصد ملک بھر میں کھیلوں کو فروغ دینا اور ترقی دینا تھا۔ اس میں مختلف فریقین کے کردار ، ذمہ داریوں، بشمول پاکستان سپورٹس بورڈ (پی ایس بی)، صوبائی سپورٹس بورڈز، ٹورنامنٹس کے انعقاد، قومی ٹیموں کے انتخاب اور کھیلوں کی فیڈریشنوں کو مدد فراہم کرنے کا خاکہ پیش کیا گیا۔سپورٹس پالیسی میں تعلیم، کمیونٹی کی ترقی اور مجموعی بہبود میں کھیلوں کی اہمیت پر بھی زور دیا گیا۔تاہم اس پالیسی پر مکمل عملدرآمد نہ ہوسکا جس کے باعث پاکستان کھیل کے میدانوں میں بہت پیچھے چلا گیا۔
موجودہ حکومت میں وزارت بین الصوبائی رابطہ کے وزیر رانا ثناء اللہ،وفاقی سیکرٹری محی الدین وانی اور پاکستان سپورٹس بورڈ کے ڈائریکٹرجنرل محمدیاسر پیرزادہ نے قومی سپورٹس پالیسی پر عملدرآمد کیلئے اپنی ترجیحات واضح کیں اور نیشنل سپورٹس فیڈریشنز میں اصلاحات کا ایسا عمل جاری کیا جس سے نہ صرف ادارہ جاتی شفافیت ممکن ہوگی بلکہ کارکردگی پر مبنی نظام بھی فروغ پائے گا۔اس مضمون میں ہم اپنے قارئین کیلئے کھیلوں میں اصلاحات اور حکومتی ترجیحات کا جائزہ پیش کررہے ہیں۔
بین الاقوامی مقابلوں میں کھلاڑیوں کی شرکت سے قبل این او سی کے اجراء کا نظام ہمیشہ شکوک و شبہات کا شکار رہا۔ اب پی ایس بی نے ایک واضح اور موثر میکنزم متعارف کرایا ہے جس کے تحت صرف وہی کھلاڑی این او سی کے حقدار ہوں گے جو شفاف اور باقاعدہ ٹرائلز کے ذریعے منتخب کیے گئے ہوں گے۔ ان ٹرائلز کے نتائج پی ایس بی کی ویب سائٹ پر اپ لوڈ کیے جائیں گے تاکہ اگر کسی کو اعتراض ہو تو وہ بروقت شکایت کر سکے۔
کھیلوں میں اخلاقی اقدار کو قائم رکھنے کیلئے پہلی مرتبہ کوڈ آف ایتھکس متعارف کرایا گیا ہے جس کے تحت عمر میں جعل سازی، ڈوپنگ، جوئے اور دیگر بے ضابطگیوں پر واضح سزائیں تجویز کی گئی ہیں۔ یہ ضابطہ نہ صرف کھلاڑیوں بلکہ فیڈریشنز کے عہدیداروں پر بھی لاگو ہوتا ہے، جس سے ایک شفاف، منظم اور قانون پر مبنی کھیلوں کا کلچر فروغ پائے گا۔
فیڈریشنوں کو دی جانے والی مالی امداد کو محض روایت کے بجائے میرٹ، کارکردگی، اور ترقیاتی منصوبوں سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ سال 2024-25ء میں 10کروڑ 19لاکھ 96 ہزار روپے کی گرانٹس اسی بنیاد پر جاری کی گئیں۔ اس سے مستقبل میں خوداحتسابی فروغ پائے گی۔
ماضی میں کوچز کو اکثر نظر انداز کیا جاتا رہا حالانکہ کھلاڑیوں کی کامیابی میں کوچ کا بنیادی کردار ہوتا ہے۔ اب پی ایس بی نے کوچز کو بھی کیش ایوارڈز کے دائرے میں شامل کر لیا ہے، جو پیشہ ورانہ حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ ٹریننگ کے معیار میں بہتری کا ذریعہ بنے گا۔
پی ایس بی نے کئی برس سے رکے ہوئے قومی فیڈریشنوں کے انتخابات کو نہ صرف مکمل کرایا بلکہ آزاد الیکشن کمیشن کے ذریعے شفاف طریقے سے ممکن بنایا۔ الپائن کلب، باڈی بلڈنگ اور ٹین پن بولنگ فیڈریشن کے انتخابات عالمی اداروں کی توثیق کے ساتھ مکمل ہوئے، جو اس نظام پر اعتماد کا مظہر ہے۔پاکستان فٹ بال فیڈریشن کے انتخابات کی بھی مکمل مانیٹرنگ کی گئی۔ پاکستان ریسلنگ فیڈریشن کے الیکشن بھی پی ایس بی کے مبصرین کی موجودگی میں ہوئے ، جن کی رپورٹ پی ایس بی الیکشن کمیشن کو بھجوا دی گئی ہے۔ یہ ماڈل مستقبل میں دیگر فیڈریشنوں کیلئے مثال بن سکتا ہے۔
پی ایس بی نے فیڈریشنز کے اندرونی نظم و نسق اور بے ضابطگیوں سے نمٹنے کیلئے ایک موثر ڈسپلنری نظام متعارف کرایا ہے۔ جس میں شکایات کی سماعت، تادیبی کارروائی اور عہدوں سے معطلی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ اس سے کھیلوں میں شفافیت اور عدل کا راستہ ہموار ہوا ہے۔اب فیڈریشنز کی کامیابی یا ناکامی کا فیصلہ ’’Key Performance Indicators ‘‘(کے پی آئیز)کی بنیاد کیاجاتا ہے۔ میڈلز کی تعداد، کھلاڑیوں کی ترقی، تربیتی منصوبے اور بین الاقوامی نمائندگی کو بطور معیار مقرر کیا گیا ہے۔اس سے کارکردگی پر مبنی سپورٹس گورننس کو فروغ ملے گا۔
نیشنل سپورٹس فیڈریشنوں کو اب مقامی و علاقائی ایسوسی ایشنوں کے ساتھ اشتراک کی ہدایت کی گئی ہے تاکہ نچلی سطح سے ٹیلنٹ کی تلاش ممکن ہو سکے۔اس اقدام سے نہ صرف نئے کھلاڑی سامنے آئیں گے بلکہ کھیلوں کا دائرہ شہری مراکز سے دیہی علاقوں تک پھیل سکے گا۔قومی فیڈریشنوں کو اب اپنی سرگرمیوں اور مالی اخراجات کی رپورٹنگ پی ایس بی کے ساتھ شیئر کرنا لازمی قرار دیا گیا ہے اور انہیں اپنی ویب سائٹس پر بھی باقاعدگی سے اپ ڈیٹ رکھنا ہوگا۔گرانٹس کے اجراء کے بعدپی ایس بی باقاعدہ آڈٹ رپورٹس کا جائزہ لیتا ہے اور اس کی بنیاد پر آئندہ کی گرانٹس منظور کی جاتی ہیں۔ پاکستان سپورٹس بورڈ کی یہ پالیسیاں اور اصلاحات قومی کھیلوں میں عملی، شفاف اور دیرپا بہتری کی بنیادثابت ہوسکتی ہیں لیکن اس کیلئے ضروری ہے سپورٹس فیڈریشنیں بھی اپنی ذمہ داریاں محسوس کرتے ہوئے خود کو نئے نظم و ضبط، میرٹ، اور کارکردگی کے تقاضوں سے ہم آہنگ کریں۔
حال ہی میں ایک فیڈریشن کی جانب سے مالی مفادات اور پذیرائی حاصل کرنے کیلئے اپنی چھٹی پوزیشن کو فتح قرار دیا گیا جس کی حقیقت چند روز بعد کھل کر سامنے آگئی، پاکستان نیٹ بال فیڈریشن نے ایشین یوتھ نیٹ بال چیمپئن شپ 2025 ء میں پاکستان یوتھ گرلز ٹیم کی مبینہ ’’پہلی پوزیشن‘‘کا دعویٰ اور اسے میڈیا میں گولڈمیڈل ظاہر کیا۔ پی این ایف نے پی ایس بی کو کیش ایوارڈ کیلئے خط بھی لکھا جس میں یہ دعویٰ اس انداز سے کیا گیا جیسے ٹیم نے گولڈ میڈل حاصل کیا ہو۔پی ایس بی نے اس بات پر بھی تشویش ظاہر کرتے ہوئے پی این ایف کو نوٹس جاری کیا اور ہدایت کی کہ اس بابت مکمل تحریری وضاحت پیش کرے،اب دیکھنا یہ ہے کہ پی ایس بی مذکورہ فیڈریشن کی جانب سے حکومت اور قوم سے غلط بیانی کرنے پر کیا فیصلہ کرتا ہے۔
حال ہی میں پاکستان سپورٹس بورڈ نے کھیلوں کی مختلف قومی فیڈریشنوں کے سنیئر عہدیداران کو اپنی 2مدتیں پوری ہونے کے بعد قومی پالیسی پر عملدرآمد کیلئے خطوط لکھے ہیں جن پر تقریباًتمام فیڈریشنوں نے مثبت ردعمل کا مظاہرہ کیاہے۔ توقع ہے کہ آئندہ چند روز میں پی ایس بی کی ہدایات پر عملدرآمد ہوتا نظر آئے گا۔ اگر ایسا ہوجاتا ہے تو یہ کھیلوں میں اصلاحات کی جانب ایک بڑاقدم ہوگا۔