انوکھا سخی

تحریر : اشفاق احمد خاں (قسط نمبر2)


سعیدؓ عمر کے اس دور سے گزر رہے تھے جب قدم قدم پر باپ کی شفقت اور محبت کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ باپ کو نہ پا کر ان کے اندر احساس محرومی ابھر سکتا تھا، جن لوگوں نے ان کے سر سے باپ کا سایہ چھینا، وہ ان سے نفرت بھی کر سکتا تھا۔ لیکن سعیدؓ نے ایسا نہیں کیا۔ ان کی روح کی گہرائیوں میں اسلام کی سچی روشنی اتری ہوئی تھی۔ حق اور باطل کے راستے ان پر واضح ہو چکے تھے۔ اس لئے سعید ؓبن عاص اس راستے کی طرف دوڑے جو حق کا راستہ تھا۔

سعید رضی اللہ عنہ نے رسول ﷺ کی قربت میں ہدایت کی روشنی پائی، علم سیکھا۔ آپ ﷺ کی محبت اور شفقت سے سرشار ہوئے۔ اسی کے نتیجے میں ان کے اندر اس سوچ و فکر نے جنم لیا جس کا سامنا کرکے عمر ؓ دنگ رہ گئے تھے۔ وہ ایک دن سعیدؓ بن عاص سے فرمانے لگے: ’’سعیدؓ! میں نے تمہارے باپ کو قتل نہیں کیا، بلکہ میں نے تو اپنے ماموں عاص بن ہشام کو قتل کیا تھا اور مجھے ایک مشرک کے قتل پر معذرت کی ضرورت نہیں‘‘۔سعید ؓ نے فرمایا: ’’ اگر آپؓ میرے باپ کو قتل کرتے بھی تو کوئی بات نہیں تھی، وہ باطل پر اور آپؓ حق پر تھے‘‘۔

سعیدؓ بن عاص کی بات حیرت انگیز تو تھی، یہ سب ایمان کا کمال تھا۔ سعید رضی اللہ عنہ کا جواب اس بات کا ثبوت تھا کہ ان کے دل میں اپنے باپ کے قاتل کیلئے کوئی نفرت نہیں۔ ان کے نزدیک تو یہ بات اہم ہے کہ ان کے باپ کا قاتل دفاع دین کیلئے لڑ رہا تھا، جب کہ ان کا باپ اس دین کو اور اس کی عمارت کو ڈھا دینا چاہتا تھا۔ یہ اللہ کی قدرت کا کرشمہ ہے کہ کفر کے اندھیروں سے ایک نور کے پیکر نے جنم لیا۔ ایک مشرک کے گھر میں ایک مومن پیدا ہوا۔

سعید رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺ سے بڑی گہری عقیدت اور محبت رکھتے تھے۔ اسی بنا پر انہیں بھی دربار رسالت سے محبت اور شفقت کا بے پایاں خزانہ نصیب ہوا تھا۔ آپﷺ نے اپنی بے مثال بصیرت سے دیکھ لیا تھا کہ اس بچے کو عظیم مرتبہ اور شان حاصل ہو گی۔

عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما، ان کے حوالے سے ایک واقعہ بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ایک دن ایک عورت رسول اللہ ﷺ کے پاس آئی اور کہنے لگی: ’’ میں نے نیت کی ہے کہ یہ چادر عرب کے معزز آدمی کو دوں‘‘۔آپﷺ نے فرمایا: ’’ یہ اس بچے کو دے دو!‘‘، اشارہ سعیدؓ بن عاص کی طرف تھا جو قریب ہی کھڑے تھے۔ اس وقت ان کی عمر بمشکل دس سال تھی۔ ان کا نبیﷺ سے قرب یہ بھی ظاہر کرتا ہے کہ وہ ہر وقت اس کوشش میں رہتے تھے کہ محفل میں ہمیشہ رسول اللہ ﷺ کے قریب ہو کر بیٹھیں اور ہر وقت آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر رہیں۔ یہی وجہ تھی کہ اس عورت کے آنے پر سعید دربار رسالت میں موجود تھے۔ اسی قرب کی بنا پر آپ ﷺسعید ؓکی ایک ایک چیز، ان کی ہر ہر بات کو نظر میں رکھتے تھے۔ ان کی عادات اور ان کی حرکات و سکنات کے مشاہدہ ہی سے آپ ﷺ نے یہ فرمان ارشاد کیا: ’’ اس بچے کو عظیم شان نصیب ہو گی‘‘۔

سعیدؓ بن عاص کو اللہ تعالیٰ نے بڑی جرأت اور دلیری عطا کی تھی۔ آپؓ کے اندر بصیرت بھی تھی اور قائدانہ صلاحیتیں بھی۔ رسول اللہ ﷺکے وصال کے بعد سید نا ابوبکر ؓخلیفہ بنے۔ انہیں خلافت کی ابتدا ہی میں بے انتہا مشکل کا سامنا کرنا پڑا۔ بہت سے قبائل مرتد ہو گئے، یعنی اسلام سے پھر گئے اور انہوں نے اسلامی حکومت کے خلاف بغاوت کا اعلان کر دیا۔ ان میں سے کچھ تو وہ تھے جو یہ کہتے تھے کہ ہم اسلام کی سبھی باتوں کو مانیں گے لیکن زکوٰۃ نہیں دیں گے۔ کچھ وہ تھے جنہوں نے مسیلمہ کذاب کی جھوٹی نبوت کو تسلیم کرکے ایمان سے ہاتھ دھو لئے۔ مسیلمہ نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ میں بھی نبی ہوں۔ حالانکہ قرآن اور تعلیمات نبوی ﷺ سے یہ بات بڑی واضح تھی کہ آپﷺ آخری نبی ہیں۔ آپﷺ کے بعد نبوت کا دروازہ بند ہو گیا۔ آپ ﷺ خاتم النبین ہیں۔

سید نا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ نے ان سب قبائل سے جنگ کرکے انہیں دوبارہ اسلامی حکومت کا مطیع بنانے کا فیصلہ کیا۔ اس مقصد کیلئے گیارہ لشکر ترتیب دے کر ان کے گیارہ قائد مقرر کئے گئے۔ انہی میں سے ایک قائد سعید  ؓ بھی تھے۔ آپ ؓکی کم عمری کے باوجود سید نا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اپنے تجربے سے بھانپ لیا تھا کہ ان میں ایک تجربہ کار قائد کی تمام خوبیاں پائی جاتی ہیں۔ سعید رضی اللہ عنہ کی ثابت قدمی، شجاعت اور معاملہ فہمی بھی آپؓ کی نظروں میں تھی۔ اس وقت لشکر میں ان سے زیادہ تجربہ کار اور عمر رسیدہ صحابہ کرام ؓبھی موجود تھے، لیکن ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے اللہ کی دی ہوئی ذہانت سے ان کی صلاحیتوں کو پہچان لیا تھا، جس کی صلاحیتوں پر رسول اللہ ﷺ اعتماد فرماتے تھے، سعید رضی اللہ عنہ بھی اس پر فوراً اعتماد کر لیتے تھے۔ (جاری ہے)

 

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

35ویں نیشنل گیمز2025:پاک آرمی 29ویں بار فاتح

آرمی نے196گولڈ میڈلز اپنے نام کئے،واپڈا نے84اورنیوی نے36طلائی تمغے جیتے

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭