سوء ادب:شادی کے بعد !
جنگل میں شیر کی شادی کا اہتمام تھا مہمانوں کی آمد آمد اور رونق لگی ہوئی تھی۔ وہیں پر ایک چوہا بھی ادھر اُدھر پھدک رہا تھا ، کبھی وہ دیگوں والوں کو جھاڑتا جھپٹتا اور کبھی تنبوں قناطوں والوں کو ڈانتا۔ کسی نے اس سے پوچھا:
شادی تو شیر کی ہو رہی ہے ، تم یہاں کیا کر رہے ہو ؟
’’شادی سے پہلے میں بھی شیر ہوا کرتا تھا ‘‘ چوہے نے جواب دیا
سہ ماہی سائبان لاہور
( کتابی سلسلہ شمارہ ہشتم جنوری مارچ 2025 )مدیرِ اعلیٰ حسین مجروح
یہ ادب اور جمالیات کا آئینہ ہے جسے ہمارے شاعر اور نقاد دوست حسین مجروح لاہور سے شائع کرتے ہیں۔ ایڈیٹوریل کا عنوان ہے : ’’کیا ادب غیر متعلق ہو جائے گا؟‘‘ اس کے علاوہ لکھنے والوں میں نسیم سحر ، طالب انصاری ، مضامین میں ڈاکٹر رفیق سندیلوی،ڈاکٹر روش ندیم ، ظفر سپل ، ڈاکٹر طارق ہاشمی ، ڈاکٹر غافر شہزاد ، راضیہ شمشیر۔ وحشت کے پھول کے عنوان سے غزلوں میں یہ خاکسار ، سحر انصاری ، نذیر قیصر ، محمد اظہار الحق ، سرمد صہبائی ، نصرت صدیقی ، رفیق سندیلوی ، طالب انصاری و دیگران۔ اس کے علاوہ اسلم انصاری کا گوشہ ہے اس کے لکھنے والے ڈاکٹر خورشید رضوی ، ایوب اولیا ، ڈاکٹر انوار احمد ، ڈاکٹر مجیب جمال اور اصغر ندیم سید۔ افسانوں میں عرفان جاوید ، عرفان احمد عرفی و دیگران۔ غبارِ آب کے عنوان سے ریپورتاژ نذیر احمد کے قلم سے ہے جبکہ نظموں میں سلیم شہزاد ، اقتدار جاوید، ثاقب ندیم ، نجمہ منصور ، شناور اسحاق و دیگران۔ اس کے علاوہ ڈاکٹر خالد تنویر اور محمد حمید شاہد کے مضامین ہیں حصہ مزاح میں نفیس فیصل کے علاوہ رحمان مذنب کا غیر مطبوعہ افسانہ رانا محمد اظہر کی تحریر کے علاوہ مصنوعی ذہانت کا تمانچا ( سائس فکشن ) پنجاب رنگ اور ادیبوں کے خطوط۔قیمت خاص شمارا 1000 روپے۔
اور اب آخر میں اسی شمارے میں سے نذیر قیصر کی یہ غزل…
غزل…
ہجومِ خواب میں رستہ بنانا پڑتا ہے
اسے چراغ بجھا کر جگانا پڑتا ہے
یہ صورتیں جو نظر آرہی ہیں بنتی ہوئیں
انہیں بنانے میں خود کو مٹانا پڑتا ہے
کہیں کہیں نئی آنکھیں بنانی پڑتی ہیں
کہیں کہیں نیا منظر بنانا پڑتا ہے
کہیں کہیں سے ترا آسمان خالی ہے
کہیں کہیں سے پرندہ اڑانا پڑتا ہے
اسی لیے تو سبھی دن پرانے ہوتے ہیں
خدا کو روز نیا دن بنانا پڑتا ہے
ترے بہشت کی آسائشیں بجا لیکن
زمیں کا رزق زمیں پر کمانا پڑتا ہے
نیا ستارہ نیا آدمی بناتے ہوئے
خدا کو خاک میں آنسو ملانا پڑتا ہے
آج کا مقطع
نازاں ہوں اپنے عیبِ سخن پر ہزار بار
لازم ہے آدمی کو ظفر کچھ ہنر تو آئے