عندلیب شادانی ایک ہمہ گیر ادبی شخصیت
وہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار، نقاد، محقق، مورخ، مدیر اور معلم کی حیثیت سے جلوہ گر ہوئے آ ج 56 ویں برسیدیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے توآس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
خدا نے بچپن سے ہی انہیں موزونی طبع کے انمول
خزانے سے نوزا تھا، یہی موزوں طبیعت اور آمد ِ
سخن ان کی شاعری میں حقیقت کا رنگ بھرتی ہے
ڈاکٹرعندلیب شادانی نے اپنی زندگی کا طویل حصہ بنگلہ دیش کے دارالحکومت ڈھاکہ میں اردو اور فارسی ادب کی خدمت میں گزارا ۔ وہ بیک وقت شاعر، افسانہ نگار(سچی کہانیوں کے موجد) نقاد، محقق، مورخ، مدیر اور معلم کی حیثیت سے ہمارے سامنے جلوہ گر ہوئے اور ان کی ہمہ گیر پرکشش شخصیت کے گہرے نقوش آج بھی محسوس کئے جاتے ہیں۔
اپنے تدبر سے ڈاکٹر شادانی ڈھاکہ یونیورسٹی میں کئی بار فیکلٹی آف آرٹس کے ڈین مقرر ہوئے۔ پاکستان اور ہندوستان کی بیشتر یونیورسٹیوں کی کمیٹیوں کے ممبران میں ان کا نام سرفہرست رہتا تھا اور ان کمیٹیوں میں ان کی شمولیت باعث ِافتخار سمجھی جاتی تھی۔ اردو اور فارسی کے علاوہ انگریزی زبان پر بھی انہیں غیر معمولی قدرت و استعداد حاصل تھی۔ انہوں نے لندن سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کی تھی،ایران کا سفر کیا اور امریکہ میں متبادل اساتذہ کے پروگرام میں مدعو کئے گئے تھے۔ ان کی تصانیف اور تالیفات کی تعداد 16 کے قریب ہے۔ ان کی شاعری کے مجموعہ ’’نشاط رفتہ‘‘ میں آج بھی قارئین کو اپنے دل کی دھڑکن سنائی دیتی ہے۔ جبکہ ’’ پریم پجاری‘‘ کے نام سے سچی کہانیوں سے انہیں غیر معمولی شہرت ملی۔ ان کی تنقیدی کتاب ’’دور ِحاضر اور اردو غزل گوئی‘‘ نے اپنے زمانے میں ادبی دنیا میں تہلکہ مچا دیا تھا۔ ان کے تحقیقی مقالے ادب عالیہ میں اہم مقام رکھتے ہیں۔
ڈاکٹر شادانی ان اساتذہ کی صف میں آتے ہیں جنہیں زندگی میں بے پناہ شہرت اور عزت نصیب ہوئی مگر موت کے بعد اہل ادب نے انہیں تقریباً فراموش کر دیا۔ زندگی میں ان کی ادبی حیثیت اس قدر مسلم ہو چکی تھی کہ ان کے عزیز شاگرد ارشد کاکوی نے 1961ء میں ڈھاکہ سے ادبی جریدے ’’ندیم‘‘ کا اجرا کیا تو اس کا خصوصی شمار ’’شادانی نمبر‘‘ نکالا۔
ڈاکٹر عندلیب شادانی کا اصل نام وجاہت حسین صدیقی تھا اور عندلیب تخلص تھا ۔ان کے والد کا نام اشتیاق حسین صدیقی تھا۔اس لئے اپنے آپ کو صدیقی لکھتے تھے ۔ آبائی وطن سنبھل، ضلع مراد آباد(یوپی) ہندوستان تھا اور یہیں یکم دسمبر1896 کو پیدا ہوئے۔
عندلیب شادانی فطرت کی طرف سے شعر کہنے کی صلاحیت لے کر آئے تھے۔ جیسا کہ ہم جانتے ہیں، اردو شاعری میں یدطولیٰ حاصل کرنے کے لئے فن شاعری کے دستور کے مطابق ہر شاعر کسی نہ کسی بڑے شاعر کے سامنے زانوئے تلمذتہ کرتا ہے یہ سلسلہ قدیم سے جاری ہے۔ مگر اپنی خدادادصلاحیت کی بنا پر ڈاکٹر شادانی نے اس میدان میں اپنی انفرادیت کو برقرار رکھا۔ شاعری میں ان کا رنگ کسی خاص شاعر سے متاثر نہیں۔ ساری زندگی اپنی منزل کے وہ خود ہی رہنما رہے ،یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ ان کا محبوب شاعر بھی کوئی نہ تھا، جس کسی کے کلام سے وہ متاثر ہوئے، اس کی مداحی کرنے میں پیچھے نہ رہے مگر شاعری میں انہوں نے کبھی کسی شاعر کی تقلید نہ کی۔ بلکہ جو کچھ کہا وہ ان کے دل کی بازگشت تھی۔ رام پور میں تحصیلِ تعلیم کے وقت وہ اپنے استاد، شاداں بلگرامی سے حد درجہ متاثر تھے۔ ان سے عقیدت مندانہ وابستگی اور والہانہ محبت کی بنا پر اپنے نام کے ساتھ انہوں نے شادانی کا لفظ منسلک کیا۔ بعض لوگوں کو غلط فہمی پیدا ہو سکتی ہے کہ فن شاعری میں وہ شاداں بلگرامی کے شاگرد ہوں گے۔ دراصل وہ ان کے شاگرد ضرور تھے مگر شاعری میں نہیں۔ خدا نے بچپن سے ہی انہیں موزونی طبع کے انمول خزانے سے نوازا تھا۔
یہی موزوں طبیعت اور آمدِ سخن ان کی شاعری میں حقیقت کا رنگ بھرتی ہیں۔ اپنی اس جبلی و فطری دویعت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’میری عمر کوئی دس گیارہ برس کی تھی کہ ہمارے شہر میں ایک بڑا بھاری مشاعرہ ہوا۔ بعض ہم عمر اور ہم سبق لوگوں کی دیکھا دیکھی میں نے بھی چند شعر کہے اور اس دن مجھے معلوم ہوا کہ مبداء فیاض نے مجھے طبع موزوں عطا فرمائی ہے اور اس کے بعد تو قریب قریب ہر روز دورانِ گفتگو میں درجنوں مصرعے بے ساختہ موزوں ہو جایا کرتے تھے لیکن باقاعدہ شعر کہنے اور کسی کے سامنے زانوئے تلمذ تہ کرنے کا اتفاق کبھی نہیں ہوا کیونکہ حالات ساز گار نہ تھے۔
دوسری جگہ ایک انٹرویو میں اپنے ذوق شاعری کا بیان کرتے ہیں: ’’شاعری سے ذوق چھوٹی عمر میں پیدا ہو گیا تھا، جس میں اپنے وطن کے ماحول کو بڑا دخل تھا۔ اس زمانے میں سنبھل، ضلع مراد آباد میں اکثر طرحی مشاعرے ہوا کرتے تھے، میں بھی ان مشاعروں میں شرکت کرتا تھا۔ کم عمر ی میں اس طرح کے ایک طرحی مشاعرے میں چند اشعار بھی کہتے تھے جو محفوظ نہ رہ سکے۔ پھر ریاست رام پور کے زمانہ طلب علمی میں بھی یہ شغل جاری رہا۔ اس وقت باقاعدہ شاعری تو نہ کرتا تھا مگر اس زمانے کے اشعار سے اتنا اندازہ ضرور ہو گیا کہ شاعری کے لئے طبیعت موزوں پائی ہے‘‘۔غرض بچپن سے ان کی طبیعت شعر و شاعری کی طرف مائل تھی۔ مگر ان کی شاعری کی ابتدا 1924ء سے ہوئی، جب وہ لاہور میں زیر تعلیم تھے۔ اس سلسلے میں وہ رقمطراز ہیں: ’’1923ء میں تعلیم کی غرض سے مجھے لاہور جانا پڑا۔ یہاں وہ سب سامان موجود تھا جس کی بدولت انسان کی شاعرانہ صلاحیتیں پوری قوت کے ساتھ ابھر آتی تھیں۔ ایک طرف مولانا تاجور جیسے شاعر کا پڑوسی۔ ان کے اصرار سے لاہور کی ادبی صحبتوں میں شرکت کی۔ دوسری طرف یکایک دل کی گہرائیوں میں اس لطیفہ ازلی کا ظہور جس کے طفیل زندگی بنتی ہے، بلکہ سچ پوچھئے تو حیات کا نقطہ آغاز وہی ہے۔
عشق سے ہوتا ہے آغازِ حیات
اس سے پہلے زندگی الزام ہے
میری شاعری کی ابتدا نظم سے ہوئی اور ’’تصویرِ بہار‘‘ میری پہلی نظم ہے جو دیال سنگھ کالج، لاہور کی بزمِ ادب کے ایک جلسے میں 29جون 1924ء کو پڑھی گئی۔ سامعین کی بے اختیار دادو تحسین نے دل بڑھایا اور میری دوسری نظم ’’شالامار‘‘ وجود میں آئی۔ اس نظم نے ایک نووارد کو لاہور کے ادبی حلقوں میں اچھی طرح روشناس کرا دیا‘‘۔
ڈاکٹر مشفق خواجہ اُن کی شاعری کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’ شادانی صاحب کی ادبی زندگی کا آغاز شاعری سے ہوا۔ انہوں نے بقول خود یہ کام دوسروں کی دیکھا دیکھی شروع کیا۔(دیباچہ ’ نشاطِ رفتہ‘) اس میں شک نہیں کہ انہوں نے کم از کم ایک درجن شعر ایسے ضرور کہے جو ہمارے بہترین ادب کا حصہ ہیں۔ شادانی صاحب نے 1924ء میں باقاعدہ شاعری شروع کی۔ اس زمانے کے لاہور کے ادبی ہنگاموں میں انہوں نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ بے شمار مشاعرے لوٹے اور نام پیدا کیا۔ اس’’ لوٹ مار‘‘ میں شاعری سے زیادہ پڑھنے کے انداز نے حصہ لیا‘‘۔
ڈاکٹر شادانی نے بذات خود اپنی شاعری کو دو ادوار میں تقسیم کیا ہے، وہ لکھتے ہیں: ’’میری شاعری کو دو ادوارمیں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔ پہلا دور جنوری 1924ء سے لے کر اگست 1925ء تک اور دوسرا دور جولائی 1934ء سے لے کر آج (1952ء)’ نشاطِ رفتہ‘ کی اشاعت تک، دونوں ادوار کے درمیان تقریباً پانچ برس کا زمانہ بالکل خاموشی میں گزرا۔ ہاں، دسمبر1931ء میں ایک خاص واقعے سے متاثر ہو کر ایک نظم ’’سی نوری تا ‘‘ لندن میں کہی تھی ۔ اس کے بعد پھر مکمل خاموشی،1934ء میں یکا یک احساس نے انگڑائی لی اور یہ غزل وجود میں آئی۔
گزاری تھیں خوشی کی چند گھڑیاں
انہیں کی یاد میری زندگی ہے
ڈاکٹر عندلیب شادانی 1969 میں آج ہی کے دن وفات پاگئے۔ حکومتِ پاکستان نے اُن کی علمی و ادبی خدمات کے اعتراف کے طور پر انہیں ستارہ ٔامتیاز عطا کیا تھا۔
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
منتخب اشعار
نہ جانے کس کے لئے وقف ہے جہانِ جمال
ہم اک نظر کو ترستے ہیں اور نصیب نہیں
…………
جانتے ہو تم سب کچھ، وجہ غم بتائیں کیا
حال پوچھنا پیارے، اور دل دکھانا ہے
…………
بے نیازانہ برابر سے گزرنے والے
تیز کچھ قلب کی رفتار ہوئی تھی کہ نہیں
…………
لاکھ سعیِ ضبط کی میں نے مگر بے اختیار
شب سرِمژگاں محبت کا فسانہ آ گیا
مجھ کو بھی اے دوست تیری بے نیازی کے طفیل
زندگی کی تلخیوں پر مسکرانا آ گیا
…………
عندلیب شادانی کا کلام
دیر لگی آنے میں تم کو شکر ہے پھر بھی آئے تو
آس نے دل کا ساتھ نہ چھوڑا ویسے ہم گھبرائے تو
شفق دھنک مہتاب گھٹائیں تارے نغمے بجلی پھول
اس دامن میں کیا کیا کچھ ہے، دامن ہاتھ میں آئے تو
چاہت کے بدلے میں ہم تو بیچ دیں اپنی مرضی تک
کوئی ملے تو دل کا گاہک کوئی ہمیں اپنائے تو
کیوں یہ مہرانگیز تبسم مد نظر جب کچھ بھی نہیں
ہائے کوئی انجان اگر اس دھوکے میں آ جائے تو
سنی سنائی بات نہیں یہ اپنے اوپر بیتی ہے
پھول نکلتے ہیں شعلوں سے چاہت آگ لگائے تو
جھوٹ ہے سب تاریخ ہمیشہ اپنے کو دہراتی ہے
اچھا میرا خوابِ جوانی تھوڑا سا دہرائے تو
نادانی اور مجبوری میں یارو کچھ تو فرق کرو
اک بے بس انسان کرے کیا، ٹوٹ کے دل آ جائے تو
………………
کوئی ادا شناسِ محبت ہمیں بتائے
جو ہم کو بھول جائے وہ کیوں ہم کو یاد آئے
کس کی مجال تھی کہ حجاب نظر اٹھائے
وہ مسکرا کے آپ ہی دل کے قریب آئے
اک دل نشیں نگاہ میں اللہ یہ خلش
نشتر کی نوک جیسے کلیجے میں ٹوٹ جائے
ناداں سہی، پر اتنے بھی ناداں نہیں ہیں ہم
خود ہم نے جان جان کے کتنے فریب کھائے
وہ جانِ آرزو کہ ہے سرمایہ نشاط
کیوں اس کی یاد غم کی گھٹا بن کے دل پہ چھائے
مایوسیوں میں دل کا وہ عالم دمِ وداع
بجھتے ہوئے چراغ کی لو جیسے تھرتھرائے
تم تو ہمیںکو کہتے تھے، یہ تم کو کیا ہوا
دیکھو، کنول کے پھولوں سے شبنم چھلک نہ جائے
اک ناتمام خواب مکمل نہ ہو سکا
آنے کو زندگی میں بہت انقلاب آئے
………………
مری آرزو سے تیرا وہ نیاز والہانہ
اسے اب کہاں سے لائوں وہ گزر گیا زمانہ
ترے لطف سے بنا تھا مرا خواب اک حقیقت
تری بے نیازیوں سے وہی اب ہے اک فسانہ
وہ لبوں کی مے فروشی وہ لبوں کی بادہ نوشی
تمہیں کچھ تو یاد ہو گی وہ حکایتِ شبانہ
میرے پاس آج بھی ہیں تری کتنی یاد گاریں
خلش وگداز پہیم، تب و سوز جاودانہ
مجھے بھول جانے والے، مجھے یاد آنے والے
تجھے اپنی خلوتوں کا کوئی یاد ہے فسانہ
میں ہنوز اپنے دل کو یہ فریب دے رہا ہوں
کہ پھر آئے گا پلٹ کر ترے لطف کا زمانہ
غم روزگار سے تومیں بلند ہو چکا ہوں
مری تیرہ بختیو! ہاں!! کوئی دوسرا بہانہ
………………