غیبت: ایک کبیرہ گناہ

تحریر : صاحبزادہ ذیشان کلیم معصومی


’اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے‘‘ (سورۃ الحجرات:12) موجودہ معاشرے میں حالات یہ ہیں کہ ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے

غیبت ایک بُری عادت ہے جس سے دین و دنیا دونوں کی خرابی کا قوی اندیشہ ہے۔ غیبت کرنے والا خود کا نقصان کرتا ہے۔ غیبت نیکیوں میں کمی کا سبب بنتی ہے اور بندے کو لوگوں کی نظروں میں گرا  دیتی ہے۔ یہ ایک ایسا گناہ ہے جب تک جس کے بارے میں غیبت کی وہ معاف نہ کرے یہ گناہ معاف نہیں ہو سکتا۔ حضرت ابو سعید خدریؓ اور حضرت جابرؓ کی روایت ہے کہ نبی پاک ﷺ نے فرمایا ’’غیبت زنا سے بھی زیادہ سنگین گناہ ہے‘‘، بعض صحابہ کرامؓ نے عرض کیا کہ اے اللہ کے نبی ﷺ غیبت زنا سے زیادہ سخت و سنگین کیونکر ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: (بات یہ ہے کہ) آدمی اگر بدبختی سے زنا کر لیتا ہے تو صرف توبہ کرنے سے اس کی معافی اور مغفرت اللہ پاک کی طرف سے ہو سکتی ہے مگر غیبت کرنے والے کو جب تک خود وہ شخص معاف نہ کر دے جس کی اس نے غیبت کی ہے، اس کی معافی اور بخشش اللہ تعالیٰ کی طرف سے نہیں ہو گی (شعب الایمان للبیہقی)۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے لوگوں جو ایمان لائے ہو بہت گمان کرنے سے پرہیز کرو کہ بعض گمان گناہ ہوتے ہیں، تجسس نہ کرو اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے، کیا تم میں سے کوئی بھی اپنے مردہ بھائی کا گوشت کھانا پسند کرتا ہے، تمہیں اس سے گھن آئے گی، اور اللہ سے ڈرتے رہو، بیشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے (سورۃ الحجرات :12)

اگر کوئی آدمی کسی کی پیٹھ پیچھے کوئی ایسی بات کرے جو اگر اس کو معلوم ہو تو اس کو ناگوار گزرے، یہ غیبت کہلاتی ہے جبکہ بہتان اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کسی بندے کی طرف ایسی کسی برائی اور بد اخلاقی کی نسبت کی جائے جس سے بالکل وہ بری ہو اور وہ پاک ہو۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا: کیا تم جانتے ہو کہ غیبت کس کو کہتے ہیں؟ صحابہؓ نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسولﷺ ہی زیادہ جانتے ہیں۔ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا اپنے (مسلمان) بھائی (کی غیر موجودگی میں اس) کے بارے میں ایسی بات کہنا جو اسے ناگوار گزرے (بس یہی غیبت ہے)، کسی نے عرض کیا: اگر میں اپنے بھائی کی کوئی ایسی برائی ذکر کروں جو واقعتاً اس میں ہو (تو کیا یہ بھی غیبت ہے)؟ آپﷺ نے ارشاد فرمایا اگر وہ برائی جو تم بیان کررہے ہو اس میں موجود ہے تو تم نے اس کی غیبت کی اور اگر وہ برائی اس میں موجود ہی نہ ہو تو پھر تم نے اس پر بہتان باندھا (ابو داؤد :4874)۔

حضرت انس بن مالک ؓ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا کہ میں نے معراج کی رات میں ایسے لوگ دیکھے جن کے ناخن سرخ تانبے کے تھے جن سے وہ اپنے چہروں اور سینوں کو نوچ رہے تھے۔ میں نے جبرائیل ؑ سے پوچھا کہ یہ کون لوگ ہیں جو ایسے سخت عذاب میں مبتلا ہیں۔ جبرائیل ؑ نے عرض کیا یہ وہ لوگ ہیںجو زندگی میں لوگوں کا گوشت کھاتے تھے یعنی غیبت کرتے تھے اور ان کی آبروئوں سے کھیلتے تھے (مشکوٰۃ شریف : 974)۔یہ تو غیبت کرنے والے کے حال جہنم کا بیان ہے مگر غیبت کرنے والے پر تو قبر سے ہی عذاب کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے، حضرت ابوبکرؓ فرماتے ہیں کہ ’’رسول اللہﷺ دو قبروں کے پاس سے گزرے اور فرمایا ان کو عذاب ہو رہا ہے، ایک کو پیشاب سے نہ بچنے کی وجہ سے اور دوسرے کو غیبت کی وجہ سے‘‘ (سنن ابن ماجہ، جلد اوّل، حدیث: 349)

موجودہ معاشرہ میں حالات یہ ہیں کہ ہم غیبت کو برائی تسلیم نہیں کر تے اور ایک دوسرے کی برائیوں، خامیوں اور کوتاہیوں کا بیان فیشن کے طور پر کیا جاتا ہے، جب کہ یہ کسی بھی طرح درست نہیں، بد قسمتی سے آج ہم علم نہ ہونے کی وجہ سے ایسی باتوں کا ذکر کرتے رہتے ہیں جو غیبت کے زمرے میں آتی ہیں۔ ہمیں خیال رکھنا چاہیے کہ ایسی ہر بات جس سے کسی کی برائی واضح ہوتی ہو، چاہے اس کا تعلق اس کے لباس، جسم، اس کے فعل یا قول کے متعلق ہو، مثال کے طور پرکہا جائے کہ اس کا قد چھوٹا ہے یا اس کا رنگ کالاہے ۔ وہ بری عادات والا ہے، یا مغرور، بد تمیز اور بزدل ہے، یا افعال کے بارے میں ہو کہ وہ چور، بے ایمان، بے نمازی ہے، قرآن پاک غلط پڑھتا ہے،یا زکوٰۃ ادا نہیں کرتا یا حرام مال کھاتا ہے، زبان دراز ہے، پیٹو ہے، سوتا بہت ہے،یہ سب باتیں غیبت کے زمرے میں آتی ہیں۔ یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ غیبت کرنا گناہ کبیرہ تو ہے ہی، غیبت سننا بھی گناہ کبیرہ ہے، لہٰذا کوئی بھی شخص غیبت کر رہا ہو تو ہمیں اس کو روکنا چاہیے۔ 

ایک حدیث مبارکہ میں ہے کہ ’’جو اپنے مسلمان بھائیوں کی پیٹھ پیچھے اس کی عزت کا تحفظ کرے تو اللہ تعالیٰ کے ذمہ کرم پر ہے کہ وہ اسے جہنم سے آزاد کر دے‘‘ ( مسند امام احمد)۔ ہمیں چاہئے کہ نہ صرف خود غیبت کرنے سے گریز کریں بلکہ دوسرں کو بھی اس کی تلقین کریں۔ اللہ رب العزت ہمیں اس مرض سے بچائے اور اپنے حبیب پاک ﷺکے صدقے ہماری مغفرت فرمائے، آمین۔

 

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔