معافی: دلوں کو جوڑنے کا نسخہ

تحریر : مفتی ڈاکٹر محمدکریم خان


( اہل فضل کو چاہیے) کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے (النور:22) ’’پھر جس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے‘‘(الشوریٰ:40) بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے، اور جو شخص بھی اللہ کی رضا کیلئے عاجزی کرتا ہے اللہ اس کا درجہ بلند کرتا ہے (صحیح مسلم)نبی کریمﷺ کو جو بھی تکلیف پہنچائی گئی، آپؐ نے اس کا کبھی بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر اللہ کی حدود کو توڑا جاتا تو پھر آپ ؐاللہ کی وجہ سے انتقام لیتے (صحیح بخاری)

انسان کی تخلیق جس فطرت پر ہوئی وہ یہ ہے کہ انسان کا انسان سے محبت، درگزر، رواداری اور معافی کا معاملہ روا رکھنا ہے اور اللہ کریم انسان کو بھی باہم محبت، انسیت، عفو و درگزر، معافی اور احسان کا حکم دیتا ہے۔ احسان کا لغوی مفہوم نیکی، اچھا سلوک، بھلائی اور شکر ہے۔نبی کریمﷺ کو اللہ تعالیٰ جل جلالہ نے عفو و درگزر کا حکم فرمایا: (اے حبیبِ مکرّم!) آپ درگزر فرمانا اختیار کریں، اور بھلائی کا حکم دیتے رہیں(سورۃ الاعراف: 199) اللہ تعالیٰ نے اپنے محبوبِ مکرمﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:(اے حبیبِ والا صفات!) پس اللہ کی کیسی رحمت ہے کہ آپ ان کیلئے نرم طبع ہیں اور اگر آپ تُندخُو (اور) سخت دل ہوتے تو لوگ آپ کے گرد سے چھٹ کر بھاگ جاتے (آل عمران:159)۔

عفوودرگزر اوراسلامی تعلیمات

کسی بھی مہذب اور تعلیم یافتہ معاشرے میں باہمی رویہ اور روش میں درگزر اور معافی بنیادی اہمیت کی حامل ہوا کرتی ہے۔ یہ مسلّمہ حقیقت ہے کہ رویہ میں عدمِ برداشت لاقانونیت کو جنم دیتی ہے اور ایسا عمل انسانیت کی بنیادیں کھوکھلی کر دیتا ہے۔ اسلام میں عفو و درگزر اور باہمی رواداری اسلام کی بنیادی اساس ہے اور یہ دین اسلام میں ایک امرضروری ہے اور یہ دین اسلام کی روح ہے۔

اسلام معمولی سطح کی زیادتی اور ظلم کی بھی ممانعت کرتا ہے لیکن اس کے باوجود ایک معاشرے میں رہتے ہوئے دانستہ و غیردانستہ طورپر بعض اوقات ایک دوسرے پر زیادتی کا ارتکاب ہوجانا بعید از قیاس نہیں ہے۔ بشری تقاضے کے تحت ایک دوسرے کی حق تلفی یا دوسرے پر زیادتی ہو سکتی ہے، ایسی صورت میں انتقام کی روش کو اپنانے سے معاشرہ میں بد امنی پھیلتی ہے اور معاشرت تباہ ہو جاتی ہے۔ اسلام اپنے ماننے والوں کو قصاص کی بھی اجازت دیتا ہے جو عین عدل کے قرآنی تقاضوں کے مطابق ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ عفو و درگزر اور معافی کی ترغیب بھی دیتا ہے۔

ارشادباری تعالیٰ ہے: ’’اے ایمان والو! تم پر ان کے خون کا بدلہ (قصاص) فرض کیا گیا ہے جو ناحق قتل کیے جائیں، آزاد کے بدلے آزاد، غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت، پھر اگر اس کو (یعنی قاتل کو) اس کے بھائی (یعنی مقتول کے وارث) کی طرف سے کچھ (یعنی قصاص) معاف کر دیا جائے تو چاہیے کہ بھلے دستور کے موافق پیروی کی جائے اور (خون بہا کو) اچھے طریقے سے اس (مقتول کے وارث) تک پہنچا دیا جائے، یہ تمہارے رب کی طرف سے رعایت اور مہربانی ہے، پس جو کوئی اس کے بعد زیادتی کرے تو اس کیلئے دردناک عذاب ہے‘‘(البقرہ: 178)۔ ایک اور مقام پر فرمایا: ’’پھر جِس نے معاف کر دیا اور (معافی کے ذریعہ) اصلاح کی تو اس کا اجر اللہ کے ذمّہ ہے‘‘(الشوریٰ:40)۔ عفو و درگزر کا یہ جذبہ جب تک معاشرے کے ہر فرد اور ہر طبقہ میں رچ بس نہ جائے اس وقت تک کوئی بھی معاشرہ مہذب معاشرہ نہیں کہلا سکتا۔

 قرآنی تعلیمات کی روشنی میں

اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے: (1) معاف کرنا اختیار کیجئے، نیکی کا حکم دیجئے اور جاہلوں سے اعراض کیجئے۔ (الاعراف : 199)

(2)( اہل فضل کو چاہیے) کہ وہ معاف کر دیں اور درگزر کریں کیا تم یہ پسند نہیں کرتے کہ اللہ تعالیٰ تمہیں بخش دے۔ (النور :22)

(3)جو لوگ کبیرہ گناہوں اور بے حیائی کے کاموں سے بچتے ہیں اور جب وہ غضبناک ہوں تو معاف کر دیتے ہیں۔ (الشوریٰ : 37)

(4) برائی کا بدلہ اسی کی مثل برائی ہے، پھر جو معاف کر دے اور اصلاح کرے تو اس کا اجر اللہ (کے ذمہ کرم) پر ہے۔ (الشوریٰ :40)

(5)البتہ جو صبر کرے اور معاف کر دے تو یقیناً ضرور یہ ہمت والوں کے کاموں میں سے ہے۔ (الشوریٰ :43)

احادیث مبارکہ کی روشنی میں

 احادیث مبارکہ میں عفوودرگزرسے متعلق جوفضیلت واردہوئی ہے ان میں سے چندایک کاتذکرہ حسب ذیل ہے۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: صدقہ مال میں کمی نہیں کرتا، بندے کے معاف کرنے سے اللہ تعالیٰ اس کی عزت ہی بڑھاتا ہے، اور جو شخص بھی اللہ تعالیٰ جل جلالہ کی رضا کیلئے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ جل جلالہ اس کا درجہ بلند کرتا ہے (صحیح مسلم ،ج 2 ،ص321) ۔اس حدیث میں جو عزت بڑھانے کا ذکر ہے اس کے دو محمل ہیں، ایک یہ کہ جس کا قصور معاف کیا جائے اس کے دل میں معاف کرنے والے کی عزت بڑھ جاتی ہے اور دوسرا محمل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ آخرت میں معاف کرنے والے کی عزت بڑھائے گا۔ 

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا:جو شخص نرمی سے محروم رہا وہ خیر سے محروم رہا (صحیح مسلم:2592)۔ حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: وہ شخص بڑا پہلوان نہیں ہے جو لوگوں کو پچھاڑ دے، بڑا پہلوان تو وہ شخص ہے جو غصہ کے وقت خود کو قابو میں رکھ سکے (صحیح مسلم:2609)۔ حضرت سلیمان بن صرد ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ کے سامنے دو شخص لڑے، دو میں سے ایک کی آنکھیں سرخ ہوگئیں اور گردن کی رگیں پھول گئیں، رسول اللہﷺ نے فرمایا: مجھے ایک ایسا کلمہ معلوم ہے اگر وہ کلمہ یہ شخص کہہ دے تو اس کا غصہ چلا جائے گا، وہ کلمہ اعوذ باللہ من الشیطان الرجیم ہے(صحیح مسلم :2610) 

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریمﷺ کو جو بھی تکلیف پہنچائی گئی، آپﷺ نے اس کا کبھی بدلہ نہیں لیا، البتہ اگر اللہ تعالیٰ کی حدود کو توڑا جاتا تو پھر آپ ﷺ اللہ کی وجہ سے انتقام لیتے تھے (صحیح بخاری،ج 2، ص 1013)۔

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہابیان کرتی ہیں کہ جب بھی رسول اللہﷺ کو دو چیزوں کے درمیان اختیار دیا جاتاتو آپﷺ ان میں سے زیادہ آسان چیز کو اختیار فرماتے، بشرطیکہ وہ گناہ نہ ہو اور اگر وہ گناہ ہوتا تو آپﷺ سب سے زیادہ اس سے دور رہنے والے تھے، رسول اللہ ﷺ نے کبھی اپنی ذات کیلئے انتقام نہیں لیا، الا یہ کہ کوئی شخص اللہ کی حدود کی خلاف ورزی کرے  (صحیح مسلم،ج 2، ص256)۔

حضرت ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: تین باتیں جس شخص میں ہوں گی اللہ کریم قیامت کے دن اس کا حساب بہت آسان طریقے سے لے گا اور اس کو اپنی رحمت سے جنت میں داخِل فرمائے گا۔ صحابہ کرام ؓ نے عرض کی:یارسول اللہﷺ! وہ کون سی باتیں ہیں؟فرمایا:جو تمہیں محروم کرے تم اسے عطا کرو،جو تم سے تعلق توڑے تم اس سے تعلق جوڑو، جو تم پر ظلم کرے تم اس کو معاف کردو۔ (المعجم اوسط:5064)

حضرت انس بن مالک ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:قیامت کے روز اعلان کیا جائے گا:جس کا اجر اللہ پاک کے ذمہ کرم پر ہے، وہ اٹھے اورجنت میں داخل ہو جائے۔پوچھا جائے گا:کس کیلئے اجر ہے؟ اعلان کرنے والا کہے گا: ان لوگوں کیلئے جو معاف کرنے والے ہیں۔تو ہزاروں آدمی کھڑے ہوں گے اور بلا حساب جنت میں داخل ہو جائیں گے۔ (معجم اوسط :1998)۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا:جو کسی مسلمان کی غلطی کو معاف کرے گاقیامت کے دن اللہ پاک اس کی غلطی کو معاف فرمائے گا(ابن ماجہ:2199)۔

عفوودرگزراورسیرت رسولﷺ

آج اگر ہمیں کوئی معمولی سی تکلیف بھی پہنچا دے، یا ذرا سی بد اخلاقی کا مظاہرہ کرے تو ہم عفو و درگزر کا دامن ہاتھ سے چھوڑدیتے ہیں اور مختلف طریقوں سے اس سے بدلہ لینے کی کوشش کرتے ہیں۔ حالانکہ نبی اکرمﷺ کی سیرت مبارکہ جو ہمارے لیے مشعلِ راہ اور کامل نمونۂ حیات ہے وہاں آپﷺ کی پوری حیات طیبہ میں عفو و درگزر اور رواداری ہی نظر آتی ہے۔ نبی کریمﷺ کے عفو و درگزرکی چند مثالیں حسب ذیل ہیں۔

حضرت ابوہریرہ ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک شخص نے رسول اللہﷺ سے تقاضا کیا اور بہت بدکلامی کی، صحابہ کرامؓ نے اس کو مارنے کا ارادہ کیا، آپﷺ نے فرمایا: اس کو چھوڑ دو،کیونکہ صاحب حق کیلئے بات کرنے کی گنجائش ہوتی ہے اور ایک اونٹ خرید کر اس کا حق ادا کر دو، صحابہ کرام ؓ نے کہا:اس وقت جو اونٹ دستیاب ہیں اس کے اونٹ سے افضل ہیں۔ آپﷺ نے فرمایا: وہی خرید کر اس کو ادا کردو ،کیونکہ تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو قرض اچھی طرح ادا کرے۔ (صحیح بخاری،ج 1 ،ص309) 

حضرت براء ؓ بیان کرتے ہیں کہ جب نبی کریم ﷺ مدینہ کی طرف ہجرت کر رہے تھے تو سراقہ بن مالک بن جعشم نے آپﷺ کا پیچھا کیا ،نبی کریم ﷺ نے اس کے خلاف دعا ضرر کی، تو اس کا گھوڑا زمین میں دھنس گیا ، اس نے کہا :آپ ﷺمیرے لیے اللہ سے دعا کیجئے، میں آپﷺ کو کوئی ضرر نہیں پہنچائوں گا، نبی کریمﷺنے اس کیلئے دعا کی۔ (صحیح بخاری، ج1 ،ص555) 

وحشی بن حرب ،جبیر بن مطعم کے غلام تھے، ایک قول یہ ہے کہ بنت الحارث بن عامر کے غلام تھے ،حارث بن عامر کی بیٹی نے ان سے کہا :میرا باپ جنگ بدر میں قتل کردیا گیا تھا، اگر تم نے (سیدنا) محمد ﷺ، حمزہؓ یا علی بن ابی طالب ؓ،ان تینوں میں سے کسی ایک کو قتل کردیا تو تم آزاد ہو ، جنگ احد میں وحشی نے حضرت سیدنا حمزہؓ کو شہیدکردیا تھا اور ان کے شہیدہونے سے رسول اللہ ﷺ کو بہت اذیت پہنچی تھی ، جب رسول اللہ ﷺ نے مکہ فتح کیا تو یہ جان کے خوف سے طائف بھاگ کر چلے گئے تھے ، پھر ایک وفد کے ساتھ آکر رسول اللہﷺ سے ملاقات کی اور کلمہ پڑھ لیا۔

ہندہ نے قبول اسلام سے قبل حضرت وحشی رضی اللہ عنہ کے ذریعے سپہ سالار اسلام حضورﷺ کے چہیتے چچا حضرت حمزہ ؓ کو بے دردی سے نہ صرف قتل کروایا بلکہ آپ ؓ کا کلیجہ چبایا، جو ایک نہایت ظالمانہ اور وحشیانہ قدم اور ناقابلِ معافی عمل تھا۔ رسول اللہﷺ کیلئے اسے بشری حیثیت سے معاف کرنا بہت مشکل تھا۔ تاہم رسول اللہ رحمتِ دو عالمﷺ نے فتح مکہ کے دن اس حبشی غلام کو بھی معاف کر دیا، جس نے ہندہ کی ایماء پر حضرت حمزہ ؓ کو شہید کیا تھا اور ہندہ کو بھی معاف کردیا۔ یہ رواداری اور عفو ودرگزر کی عظیم مثال ہے۔

دین اسلام اور تعلیماتِ نبویﷺ ہمیں کسی کے ناروا رویہ اور سلوک پر برا سلوک کرنے کی قطعی اجازت نہیں دیتیں بلکہ ہر موقع پر رواداری اور برداشت کا درس دیا گیا ہے۔ اس حکمت عملی سے دشمن بھی دوست بن جاتا ہے۔

حضرت انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ: میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ جا رہا تھا اس وقت آپﷺ ایک نجرانی (یمنی) چادر اوڑھے ہوئے تھے، راستہ میں ایک اعرابی (دیہاتی) ملا،اس نے بہت زور سے آپﷺ کی چادر کھینچی، پھر اس نے کہا: اے محمدﷺ! آپ کے پاس جو اللہ کا مال ہے اس میں سے مجھے دینے کا حکم دیجئے۔ نبی کریمﷺ اس کی طرف متوجہ ہو کر مسکرائے، پھر اس کو مال دینے کا حکم دیا۔ (کتاب المغازی، ج2، ص 900) ۔اس حدیث میں نبی کریمﷺ کی نرمی،حسن اخلاق اور برائی کا جواب اچھائی سے دینے کا واضح بیان ہے۔

لوگوں کی غلطیوں سے درگزر کرنا اللہ تعالیٰ کو بہت پسند ہے۔ شیطان انسان کا ازلی دشمن ہے، اسے ہرگز یہ گوارا نہیں کہ مسلمان آپس میں متحد رہیں۔ اسلام ہمیں ایک دوسرے کی خیر خواہی کرنے، ایک دوسرے کی عزت و ناموس کے محافظ بننے، غلطیوں کو نظر انداز کرنے، اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کرنے، اپنے حقوق معاف کرنے، دوسرے کے حقوق کا خیال رکھنے، ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنے پر ابھارتا ہے، جس سے پرامن معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔ کسی مسلمان سے غلطی ہو جانے پر اسے معاف کرنا اگرچہ نفس پر نہایت دشوار ہے، لیکن اگر ہم عفو و درگزر کے فضائل کو پیشِ نظر رکھیں گے تولوگوں کومعاف کرنے کا جذبہ پیدا ہو گا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔