وعدہ !
چھوٹا سا نرم و نازک خرگوش پپو آج بہت غصے میں تھا۔ اس کا دل کر رہا تھا کہ سب چیزیں الٹ دے یا کہیں بھاگ جائے۔ وہ سوچ رہا تھا، آخر امی اور بابا میری بات کیوں نہیں مانتے؟ میں سب سے بڑا ہوں، بھلا میں غلط کیسے ہو سکتا ہوں؟۔
پپو کو ہر وقت گاجر کھانا اور فریج میں رکھا ٹھنڈا جوس پینا بہت پسند تھا۔ اب جبکہ بارشوں کا موسم چل رہا تھا، امی بار بار کہتی تھیں کہ کھانے پینے میں احتیاط کرو ، فریج سے ٹھنڈی گاجریں اور جوس مت لیا کرو، ورنہ بیمار ہو جاؤ گے۔پھر دوا کھانی پڑے گی اور اسکول سے چھٹیاں ہو جائیں گی، جبکہ امتحانات بھی ہونے والے ہیں۔
پپو کا پارہ چڑھ گیا۔امی تو ہمیشہ ڈانٹتی رہتی ہیں، ہر وقت روک ٹوک، آخر میں بڑا ہوں تو خود جانتا ہوں کیا کرنا ہے! وہ غصے سے پاؤں پٹختا ہوا اپنے کمرے میں گیا اور سو گیا۔
شام کو بابا آفس سے آئے تو اپنے ساتھ کھانے کی مختلف اشیاء بھی لائے۔ پپو کو جگایا گیا، وہ خوش تو ہوا، لیکن جب امی نے کہا: سب بچوں کو برابر برابر ملے گا، میں حصے کر دوں گی، تو وہ پھر منہ پھلا کر بیٹھ گیا۔
بابا نے امی کی بات ماننے کے بجائے چیز کا پیکٹ پپو کو تھما دیااور کہا تم سب کو خود برابر بانٹ دینا، تم ہمارے بڑے بیٹے ہو۔
پپو خوش تو ہوا، لیکن چالاکی سے اس نے خود زیادہ چیز رکھ لی اور اپنے چھوٹے بہن بھائیوں، ٹوٹی اور منگو کو تھوڑی تھوڑی دیں۔ وہ بے چارے خاموش رہے۔
پھر پپو کسی کو بتائے بغیر کھیلنے باہر نکل گیا۔دوست کرکٹ کھیل رہے تھے۔ وہ خوب کھیلتا رہا۔ گھر آ کر جوس پیا، ٹھنڈی گاجریں کھائیں۔
اگلے دن امتحانات کا پہلا پرچہ تھا اور تیاری بھی برائے نام تھی! رات کو گلہ درد کرنے لگا، لیکن سوچا صبح پڑھ لوں گا۔ صبح اٹھا تو بخار، سردرد اور پیٹ درد کا شکار ہو چکا تھا۔ امی نے سیرپ پلایا اور اسکول بھیجا، لیکن پپو کچھ بھی نہیں لکھ پایا۔
شام کو بخار تیز ہو گیا، اور بابا اسے فوراً ڈاکٹر بھالو انکل کے کلینک لے گئے۔
ڈاکٹر بھالو انکل نے پوچھا:بیٹا، کیا کھایا تھا؟
پپو رو پڑا:بس، فریج کا ٹھنڈا جوس پیا تھا اور گاجریں کھائی تھیں۔
ڈاکٹر نے سر ہلاتے ہوئے کہا:یہی تو وجہ ہے بیماری کی! موسم بدل رہا ہے، ٹھنڈی چیزوں سے پرہیز ضروری ہے۔ اب ایک ہفتہ آرام کرو گے، کڑوی دوا کھاؤ گے اور اسکول بھی نہیں جا سکو گے۔
پپو بہت پریشان ہوا۔ وہ ہمیشہ امتحان میں اوّل آتا تھا، اب اگر غیر حاضر ہو گیا تو اس کی پوزیشن خطرے میں پڑ جائے گی۔
گھر آ کر وہ چپ چاپ لیٹ گیا۔ امی نے پیار سے اس کے ماتھے پر ہاتھ رکھا اور کہا: بیٹا، ہم تمہارے دشمن نہیں۔ ہر بار روکتی ہوں، سمجھاتی ہوں، اس کا مقصد تمہاری بھلائی ہوتا ہے۔ اب خود نتیجہ دیکھ لو!
بابا مسکرائے اور بولے: اسی لیے میں نے امی سے کہا تھا کہ تمہیں تمہاری مرضی سے جینے دیں۔ تاکہ تم خود جان سکو کہ بڑوں کی بات میں کیا دانائی ہوتی ہے۔
پپو نے شرمندگی سے نظریں جھکائیں۔ امی، بابا، میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ کبھی ضد نہیں کروں گا، آپ کی بات مانوں گا۔
بابا نے امی کو کہا کہ کل اسکول جا کر درخواست دے آئیں کہ پپو کو امتحان سے فیل نہیں بلکہ غیر حاضر لکھا جائے۔ وہ سالانہ امتحان میں محنت کرے گا۔
پپو نے وعدہ نبھانے کا عہد کیا۔ اسے سمجھ آ گئی تھی کہ ہر چیز اعتدال میں ہی اچھی لگتی ہے۔