آرٹیکل 370کیا ہے؟

تحریر : روزنامہ دنیا


جموں و کشمیر کے راجہ ہری سنگھ کے ساتھ ساز باز کرکے بھارت نے ریاست کو مشروط طور پر اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور اس وقت راجہ کو یقین دلایا تھا کہ جموں و کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل ہوگا۔ اس یقین دہانی کو آئینی بنانے اور کشمیریوں کے گرد جال کو مزید مضبوط کرنے کیلئے بھارتی آئین میں آرٹیکل 370 شامل کی گئی تھی۔ آرٹیکل 370 کو 17 اکتوبر 1949ء کو ہندستان کے آئین میں شامل کیا گیا تھا۔

اس آرٹیکل کے مطابق:

٭…جموں و کشمیر کو خصوصی ریاست کی حیثیت دی گئی۔

٭…جموں و کشمیر کو اپنا ایک الگ آئین بنانے اور ہندستانی آئین (آرٹیکل 1 اور آرٹیکل 370 کو چھوڑ کر) کو نافذ نہ کرنے کی اجازت دی گئی ہے۔

٭…جموں و کشمیر کے بارے میں پارلیمنٹ کے قانونی اختیارات کو پابند کرتا ہے۔

٭…ریاست کشمیر دفاعی،مالیاتی،مواصلاتی اور خارجہ امور کو چھوڑ کے کسی اور معاملے میں وفاقی حکومت،مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر کشمیر میں بھارتی قوانین کا نفاذ نہیں کیا جا سکے گا۔

٭…شہریت ، جائیداد کی ملکیت اور جموں و کشمیر کے باشندوں کے بنیادی حقوق کا قانون باقی ہندوستان میں مقیم باشندوں سے مختلف ہے۔ جس کے تحت دیگر ریاستوں کے شہری جموں و کشمیر میں جائیداد نہیں خرید سکتے ہیں۔

٭…مرکز کو مقبوضہ کشمیر میں مالی ایمرجنسی کا اعلان کرنے کا اختیار نہیں ہے۔

بھارتی آئین کی آرٹیکل 370 کے تحت مقبوضہ کشمیر کو خصوصی درجہ حاصل تھا اور اس آرٹیکل کے تحت مقبوضہ کشمیر کی علیحدہ اسمبلی، علیحدہ پرچم اور امور خارجہ و دفاع کے علاوہ تمام معاملات میں آزادی تھی۔بنیادی طور پر یہ آرٹیکل مرکز اور ریاست جموں و کشمیر کے تعلقات کے خدوخال کا تعین کرتا تھا اور بھارتی آئین کے تحت جو دفعات دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتی ہیں ان کا اطلاق کشمیر پر نہیں ہوتا تھا۔ 5اگست 2019 ء کو بھارت نے کشمیریوں کی پیٹھ میں چھرا گھونپتے ہوئے اس آرٹیکل کو منسوخ کردیا اور ریاست کو مکمل طور پر اپنے قبضے میں لے لیا۔  اس آرٹیکل کی منسوخی کے ساتھ ہی مقبوضہ کشمیر کا یہ خصوصی اسٹیٹس ختم ہوگیا ہے اور اب ریاست پر بھارتی آئین پوری قوت اور تمام جذئیات کے ساتھ نافذ کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ 

آرٹیکل 35 اے کیا تھا؟

آرٹیکل 370 کے خاتمے کے ساتھ ہی آرٹیکل 35 اے بھی ختم ہوگیا ہے۔ یہ آرٹیکل 1954ء کے  ایک صدارتی حکم کے تحت شامل کیا گیا تھا۔آرٹیکل 35 اے آرٹیکل 370 سے ہی نکلا ہے۔ اس آرٹیکل کے مطابق:

٭…مقبوضہ کشمیر کی قانون سار اسمبلی کو یہ فیصلہ کرنے کا مکمل اختیار ہے کہ ریاست کے مستقل رہائشی کون ہیں۔

٭…مقبوضہ کشمیر کے رہائشیوں کو سرکاری ملازمت، جائیداد کے حصول،آبادکاری،اسکالر  اور امدار کی دیگر اقسام کے حق سے متعلق خصوصی حقوق اور مراعات ملتی ہے۔

٭…ریاست کی قانون ساز اسمبلی کو مستقل رہائشیوں کے علاوہ کسی دوسرے شخص پر کوئی بھی پابندی عائد کرنے کی اجازت ہے۔

 جس کے تحت ریاست کے باشندوں کی بطور مستقل شہری کی تصدیق ہوتی تھی اور انھیں ریاست میں تمام حقوق ملنے کی یقین دہانی کرائی جاتی تھی۔ اس قانون کی رو سے جموں و کشمیر سے باہر کا باشندہ ریاست میں غیر منقولہ جائیداد کا مالک نہیں بن سکتا تھا اور نہ ہی یہاں سرکاری نوکری کرسکتا تھا۔ اس قانون کی وجہ سے انتہاپسند ہندوئوں کو کشمیرمیں باقاعدہ جائیداد کی خریداری اور سرمایہ کاری کی اجازت نہیں تھی۔تاہم اب بھارت سے کوئی بھی شخص جموں و کشمیر میں نہ صرف سرمایہ کاری کرسکتا ہے بلکہ جائیداد خرید کرکے مستقل شہری بھی بن سکتا ہے۔ اسی وجہ سے کشمیریوں کو خدشہ ہے کہ جس طرح اسرائیل نے فلسطینیوں کو ان کی سرزمین سے بے دخل کیا ہے اس طرح اب اس آرٹیکل کے خاتمے کے ذریعے بھارت کشمیریوں کو ان کی زمین سے بے دخل کرنا چاہتا ہے۔ 

آرٹیکل 370 کے خاتمے کا مطلب کیا؟

بی جے پی کی حکومت کی جانب سے لائی جانے والی اس تبدیلی کے نتیجے میں جموں و کشمیر کو ایک ریاست کا درجہ حاصل نہیں رہا۔اب ریاست جموں و کشمیر کی جگہ مرکز کے زیرِ انتظام دو علاقے بن جائیں گے جن میں سے ایک کا نام جموں و کشمیر اور دوسرے کا لداخ ہو گا اور ان دونوں علاقوں کا انتظام و انصرام لیفٹیننٹ گورنر چلائیں گے۔جموں کشمیر میں قانون ساز اسمبلی ہو گی تاہم لداخ میں کوئی اسمبلی نہیں ہو گی۔ اس کے علاوہ اب جموں و کشمیر کے داخلہ امور وزیراعلیٰ کی بجائے براہِ راست وفاقی وزیرِ داخلہ کے تحت آ جائیں گے جو لیفٹیننٹ گورنر کے ذریعے انھیں چلائے گا۔ انڈیا کے تمام مرکزی قوانین جو پہلے ریاستی اسمبلی کی منظوری کے محتاج تھے اب علاقے میں خودبخود نافذ ہو جائیں گے۔ اسی طرح انڈین سپریم کورٹ کے فیصلوں کا اطلاق بھی اب براہِ راست ہو گا۔جموں و کشمیر کی ریاستی اسمبلی کی مدت بھی چھ کی جگہ پانچ برس ہو جائے گی۔کشمیر میں خواتین کے حوالے سے جو روایتی قوانین نافذ تھے وہ ختم ہو جائیں گے۔وفاقی حکومت یا پارلیمان فیصلہ کرے گی کہ جموں و کشمیر میں تعزیراتِ ہند کا نفاذ ہوگا یا پھر مقامی آر پی سی نافذ رہے گا۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔