وعدے اور وسوسے

تحریر : عرفان سعید


بلوچستان جسے کئی دہائیوں تک محرومی، بداعتمادی اور حکومتی سردمہری کا سامنا رہا اب ایک ایسے موڑ پر کھڑا ہے جہاں امید، امن اور ادارہ جاتی استحکام کی نئی بنیادیں رکھی جا رہی ہیں۔

وزیر اعلیٰ بلوچستان میر سرفراز بگٹی اور صدرِ مملکت آصف علی زرداری کی حالیہ ملاقات کو محض ایک رسمی کارروائی سمجھنا درست نہیں۔ یہ ایک علامتی کے بجائے عملی پیش رفت ہے جس میں نہ صرف صوبے کی مجموعی صورتحال بلکہ ترقیاتی اہداف، قانون و انصاف کی بہتری اور عوامی فلاح کے اقدامات پر تفصیلی گفتگو ہوئی۔صدر زرداری کا یہ کہنا کہ بلوچستان کی ترقی دراصل پاکستان کی ترقی ہے، قومی شعور کی عکاسی ہے۔ سرفراز بگٹی کی جانب سے صحت، تعلیم اور بنیادی ڈھانچے کو اولین ترجیح دینا اور ترقیاتی منصوبوں میں شفافیت پر زور دینا اس نئی حکمرانی کا مظہر ہے۔ اگر وفاق اور صوبہ ایک پیج پر رہیں تو بلوچستان کو نئی ترقیاتی شناخت مل سکتی ہے۔تاہم جہاں ایک طرف سیاسی سطح پر امید کی کرن دکھائی دیتی ہے، وہیں دوسری طرف کوئٹہ کی سڑکوں پر ایک نیا خوف سر اٹھا رہا ہے۔ پولیس وردی میں ملبوس وہ محافظ جنہیں عوام کی حفاظت پر مامور ہونا چاہیے اب شناخت کے باوجود شہریوں کو مشکوک قرار دے کر گاڑیوں میں بند کر رہے ہیں، ان سے بدتمیزی کر رہے ہیں اور مبینہ طور پر بھتہ وصول کر رہے ہیں۔افغان مہاجرین کے خلاف کریک ڈاؤن کے نام پر مقامی افراد کی تذلیل اور قانونی شہریوں کی بے توقیری، ان اداروں کی اخلاقی اور آئینی گراوٹ کی نشاندہی کرتی ہے۔ قانون نافذ کرنے والے ادارے اگر خود قانون توڑنے لگیں تو عوام انصاف کہاں تلاش کریں؟ یہ محض چند واقعات نہیں بلکہ ایک خطرناک رجحان ہے۔

پولیس کی موقع پرستی اور مالی مفادات پر مبنی کارروائیاں پالیسی کے خلا اور ریاستی بدانتظامی کو بے نقاب کرتی ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ ان شکایات کی شفاف تحقیقات کی جائیں اور ان واقعات کے ذمہ داراہلکاروں کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ 

پانچ اگست پاکستانی تاریخ کا وہ دن ہے جب ہم کشمیری عوام سے یکجہتی کا اعادہ کرتے ہیں۔ یومِ استحصالِ کشمیر صرف ایک احتجاجی دن نہیں بلکہ یہ اس درد کی گونج ہے جو ہر پاکستانی دل میں بستا ہے۔اس روزضلعی حکومت کوئٹہ کی زیرِ نگرانی نکالی گئی ریلی نے یہ پیغام دیا کہ ظلم کے خلاف خاموشی بھی جرم ہے۔ اس ریلی میں سیاسی، سماجی اور تعلیمی حلقوں کی بھرپور شرکت نے واضح کیا کہ بلوچستان کشمیر کے ساتھ ہے۔ مقررین کا یہ مطالبہ تھا کہ اقوامِ متحدہ کی قراردادوں کے مطابق کشمیریوں کو حقِ خودارادیت دیا جائے۔یہ مطالبہ ایک عالمی ذمہ داری کی یاد دہانی ہے۔

بلوچستان میں یومِ شہدا پولیس کے موقع پر مختلف تقریبات کا انعقاد، اْن جانثاروں کو خراجِ عقیدت ہے جنہوں نے امن و امان کے قیام کے لیے جان کی بازی لگا دی۔پولیس لائن کوئٹہ میں قرآن خوانی، لنگر اور شہدا کی قبروں پر پھول چڑھانے جیسے اقدامات صرف رسم نہیں بلکہ وفاداری اور احسان مندی کے اظہار کا خوبصورت طریقہ ہیں۔ ان شہدا کے خاندانوں کی فلاح اور عزت ریاستی ذمے داری ہے، جسے مستقل بنیادوں پر نبھانے کی ضرورت ہے۔سابق آئی جی پولیس بلوچستان معظم جاہ انصاری نے یوم شہدائے پولیس کے موقع پر کہا کہ بلوچستان پولیس کٹھن حالات میں کام کر رہی ہے، دہشت گردی کے خلاف جنگ میں بلوچستان پولیس کے کئی بہادر افسران اور جوان شہید ہوئے ہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ ریاست کی جنگ ہے اور ہم سب مل کر اسے لڑیں گے، حکومت اپنے شہداکے مقدس لہو کا بدلہ لینے کی صلاحیت رکھتی ہے اور ہم ایک دن بھی اپنے شہداکی قربانیوں کو نہیں بھولے۔انہوں نے کہا کہ ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ امن و استحکام خود بخود حاصل نہیں ہوتا اس کے پیچھے ان گمنام ہیروز کی قربانی ہوتی ہے جنہوں نے اپنا خون دے کر ہمیں جینے کا حق دیا۔ بلوچستان پولیس کے شہدانے ہر قسم کے حالات میں اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کر دشمن کا مقابلہ کیامیں ان شہداکے خاندانوں کو سلام پیش کرتا ہوں جنہوں نے اپنے بیٹے، شوہر، بھائی اور باپ کو وطن پر قربان ہوتے دیکھا مگر صبر اور فخر کے ساتھ سربلند رکھا۔ ان کی عزت، فلاح و بہبود، تعلیم، صحت اور روزگار کے تمام تر معاملات ہماری اولین ترجیح ہیں، ہم ان خاندانوں کے ساتھ نہ صرف ہمدردی بلکہ عملی تعاون کے پختہ عزم کے ساتھ کھڑے ہیں، ہمیں اپنے شہداکی قربانیوں پر فخر ہے کہ جنہوں نے ہمارے سکون کی خاطر جانوں کے نذرانے پیش کئے۔ ہم نے تما م فرنٹ لائنز پر دہشت گردوں کا بہادری اور جرأت مندی سے مقابلہ کیا ہے اور آئندہ بھی کریں گے۔ 

رواں ہفتے تفتان میں ہونے والی پاک ایران اعلیٰ سطحی سرحدی ملاقات ایک خوش آئند اور اہم پیش رفت تھی۔ اس میں نہ صرف سکیورٹی معاملات پر گفتگو ہوئی بلکہ تجارت، زائرین کی سہولت اور غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام پر بھی غور کیا گیا۔راجے گزرگاہ کی بحالی کا امکان ہو یا مشترکہ گشت کا نظام، یہ تمام اقدامات سرحدی استحکام اور اقتصادی ترقی کے لیے نہایت اہم ہیں۔ دونوں حکومتوں کو چاہیے کہ ان فیصلوں پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں تاکہ بارڈر ایریاز کو ترقی اور امن کے ثمرات حاصل ہوں۔

پاکستان مرکزی مسلم لیگ کے زیر اہتمام منعقدہ امن جرگہ میں جو آوازیں اٹھیں وہ دراصل بلوچستان کے دل سے اٹھنے والی سسکیاں ہیں۔لاپتہ افراد، معاشی استحصال، بھارتی مداخلت اور وسائل کی غیر شفاف تقسیم جیسے مسائل نے بلوچستان کو عدم اعتماد کی دلدل میں دھکیل دیا ہے۔ ریکوڈک، سی پیک، گیس اور ساحلی معاہدوں میں شفافیت اور شمولیت عوام کا بنیادی مطالبہ ہے۔یہ آواز محض سیاست نہیں بلکہ ریاست کی ذمہ داری ہے۔ اگر بلوچستان کا امن بحال نہ ہوا تو اس کے اثرات پورے پاکستان پر مرتب ہوں گے۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ریاست سنجیدگی سے ان شکایات کو سنے اور عملی اقدامات کرے بصورت

 دیگر محرومی کا یہ مسئلہ مزید شدت اختیار کر تا جائے گا۔بلوچستان اس وقت ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں مثبت تبدیلی ممکن ہے لیکن شرط یہ ہے کہ نیت، پالیسی اور عمل میں ہم آہنگی ہو۔ ایک طرف امید ہے دوسری طرف اندیشے۔ ایک طرف ترقیاتی عزم ہے تو دوسری طرف ادارہ جاتی زوال۔اگر قیادت خلوص نیت سے آگے بڑھے اور ادارے خود احتسابی کا عمل اپنائیں تو بلوچستان نہ صرف پاکستان کی ترقی کا انجن بن سکتا ہے بلکہ ایک پرامن، باوقار اور خودمختار صوبے کی مثال بھی قائم کر سکتا ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔