وزیراعلیٰ کی دہری مشکلات
پانچ اگست کو جب یوم استحصال کشمیر منایاجارہا تھا ایسے میں پی ٹی آئی کی جانب سے احتجاج کی کال دی گئی تھی۔خیبر پختونخوا اسمبلی کی اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے پی ٹی آئی کے اس احتجاج کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا کہ یہ کسی اور دن بھی ہو سکتا تھا۔
پی ٹی آئی کی جانب سے پانچ اگست کو احتجاج کی کال کا مقصد غالبا ًیہ اشارہ دینا تھا کہ اس کے حقوق غصب کئے گئے ہیں تاہم پاکستان تحریک انصاف اس بات کو سمجھنے کو تیار نہیں کہ جو مقدمہ وہ پارلیمنٹ کے اندر بیٹھ کر لڑ سکتی ہے وہ سڑکوں پرنہیں لڑا جاسکتا۔نومئی کے بعد جتنے بھی احتجاج اور دھرنے دیئے گئے وہ یا تو ناکامی سے دوچار ہوئے یا بے نتیجہ رہے۔ پانچ اگست کو ہونے والی احتجاجی ریلیاں بھی خاص تاثر چھوڑنے میں ناکام رہی ہیں۔ گزشتہ سال ان سطورمیں اسلام آباد احتجاج کے بعد بتادیاگیاتھا کہ پی ٹی آئی اب جو بھی احتجاج کرے گی وہ اضلاع کی سطح پر ہی ہو گا، دوبارہ اسلام آباد کا رخ نہیں کیا جائے گی۔ ذرائع کے مطابق اس بات کی یقین دہانی وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے کرائی گئی تھی۔ ایسا ہی ہورہاہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا اضلاع کی سطح پر بالخصوص خیبرپختونخوا میں ہونے والے احتجاج سے مقتدرہ اور وفاقی حکومت پر کوئی دباؤ ڈالا جاسکتا ہے؟ اس کا جواب نفی میں ہے۔ فی الوقت خیبرپختونخوا حکومت قائم ہے اوراس میں تبدیلی کے امکانات نہیں لیکن سیاسی ماحول اسی طرح رہا اور امن وامان کی صورتحال میں بہتری نہ آئی تو شاید خیبرپختونخوا میں کوئی بڑی تبدیلی آجائے۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور اپنے سخت بیانات کے باوجود مقتدرہ کیلئے تاحال قابلِ قبول ہیں۔وفاقی حکومت بھی ان کے بیانات پر بظاہر ردعمل تو سخت دیتی ہے لیکن جس طرح سے سینیٹ کی دونشستیں حکومتی جماعتوں کو دی گئی ہیں تو وہ بہر حال ان کے کردار سے مطمئن ہی نظرآرہی ہے۔ خیبرپختونخوا میں امن وامان کی صورتحال انتہائی خراب ہے اور کوشش یہی کی جارہی ہے کہ ایسے میں سیاسی ماحول میں مزید حدت نہ آئے۔پی ٹی آئی کے رہنماؤں کو بھی ذہن میں رکھنا چاہئے کہ بیشتر رہنماؤں کے کیسز عدالتوں میں ہیں۔ اگر ان پر فیصلے آتے ہیں تو ایوان میں پی ٹی آئی کی پوزیشن شدید متاثر ہوسکتی ہے اورنمبر گیم کسی بھی وقت تبدیل ہوسکتی ہے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کے خلاف بھی درجنوں کیسز عدالتوں میں زیر سماعت ہیں جن میں نو مئی کے کیسز بھی شامل ہیں۔ مخصوص نشستیں ملنے کے بعد ایوان میں اپوزیشن کی تعداد میں خاطرخواہ اضافہ ہوا ہے۔ لگتا ہے کہ حزب اختلاف کو بھی کوئی جلدی نہیں اور وہ تیل دیکھو تیل کی دھار دیکھو کے مصداق موجودہ صورتحال سے حظ اٹھارہے ہیں۔اگرچہ گورنر کے بیانات سے لگتا ہے کہ وہ شاید جلد تبدیلی چاہتے ہیں لیکن ان کی اپنی جماعت اس حوالے سے ان سے متفق نہیں۔ اپوزیشن کے پاس ایک آپشن پی ٹی آئی کے ناراض ارکانِ اسمبلی کو توڑنا ہے‘ لیکن اس آپشن پر زیادہ انحصار نہیں کیاجا سکتا۔ ناراض ارکان اگرچہ اپنے بعض مرکزی رہنماؤں بشمول وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا سے نالاں ہیں لیکن وہ کھل کر پارٹی پالیسی کے خلاف نہیں جاسکتے۔ ان ارکان اسمبلی کو عوامی ردعمل کو اچھی طرح اندازہ ہے، لیکن اگرعدالتوں سے فیصلے آتے ہیں تو یقینا اپوزیشن کیلئے یہ ایک سنہری موقع ہوگا۔
حزب اختلاف وزیراعلیٰ خیبرپختونخواکی بے بسی سے بھی لطف اٹھارہی ہے۔کہنے کو تو علی امین گنڈاپور مضبوط وزیراعلیٰ ہیں لیکن موجودہ حالات میں وہ دہری مشکلات سے دوچارہیں۔ ایک طرف پارٹی کی پالیسیاں ہیں اور دوسری طرف حکومت کی مجبوریاں۔وہ دودھاری تلوار پر چل رہے ہیں۔ اگرچہ ان کی تقاریر میں ماضی قریب کی طرح دم خم نہیں رہا لیکن پھر بھی وہ کبھی کبھار ایسے بیانات دے جاتے ہیں جس سے خود ہی مشکل میں پڑ جاتے ہیں اور اپوزیشن جماعتوں سمیت بعض اپنے پارٹی رہنماؤں کو بھی لگتاہے کہ وہ ابھی گئے کہ ابھی گئے۔علی امین گنڈاپور پرپارٹی رہنما کی حیثیت سے دباؤ ہے کہ وہ جماعت کی متعین کردہ پالیسی پر چلیں۔ پارٹی رہنما کی حیثیت سے وہ اکثر متنازع بیانات بھی دے دیتے ہیں جس کی مثال چند روز قبل دیاگیا ان کابیان ہے جس میں انہوں نے باجوڑ اور تیراہ میں فوجی آپریشن کو تنقید کا نشانہ بنایا،لیکن دوسرے ہی روز ایپکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد ان کا بیان پہلے بیان سے یکسر مختلف تھا۔ذرائع کے مطابق ایپکس کمیٹی کے اجلاس سے قبل ان کی کچھ اہم لوگوں سے ملاقات ہوئی جس میں انہیں باجوڑ اور تیراہ کی صورتحال سے آگاہ کیاگیا۔اگرچہ صوبے کے چیف ایگزیکٹو کی حیثیت سے چاہیے تو یہ تھا کہ انہیں پہلے ہی ان علاقوں میں معاملات کی سنگینی کااحساس ہوتا تاہم معاملے کی سنگینی کے احساس کے بعد وزیراعلیٰ کی حیثیت سے انہوں نے جو بیان دیا وہ مناسب تھا اور جن فورسزکو وہ نکالنے کامطالبہ کررہے تھے انہیں خود ہی مہمان بھی قراردیا۔ابھی بھی ان پر دباؤ ہے اور بانی پی ٹی آئی کی جانب سے انہیں ہدایت دی گئی ہے کہ وہ خیبرپختونخوامیں کسی بھی ممکنہ آپریشن کی حمایت نہ کریں، لیکن کیا ایسے میں جب ان کا صوبہ دہشت گردی کے نشانے پر ہے ان کیلئے ایسی کسی ہدایت پر عمل کرناممکن ہے؟
باجوڑ اورتیراہ میں جرگے چل رہے ہیں، باجوڑ میں دہشت گردوں کو گھیرے میں لیاجاچکا ہے، قانون نافذ کرنے والے ادارے صرف اس کوشش میں ہیں کہ عام افراد کی جانوں کو خطرے میں نہ ڈالاجائے۔یہ بات ذہن میں رہے کہ یہ فوجی کارروائی پورے ضلع باجوڑ میں نہیں ہورہی ‘ صرف 16 کے قریب گاؤں ہیں جہاں دہشت گردوں نے اڈے بنانے کی کوشش کی تھی۔ تیراہ میں بھی ایسی ہی صورتحال ہے۔ اگرجرگے کے ذریعے دہشت گردوں کو نہیں نکالاجاتا تو لامحالہ یہاں ٹارگٹڈ آپریشن کئے جائیں گے۔مقامی سہولت کاری کے بغیر دہشت گرد ان علاقوں میں ٹھکانے نہیں بناسکتے۔ اس کی مثال ضلع دیر،کوہستان،کالام اور دیگر علاقوں کی بھی ہے جہاں مقامی لوگوں نے اپنے طورپر دہشت گردوں کو پیچھے ہٹنے یا بھاگنے پر مجبور کیا۔باجوڑ کے ان مخصوص علاقوں میں ماضی میں بھی دہشت گردوں کے ٹھکانے رہے ہیں اور وہ اب بھی ادھرکا رخ کررہے ہیں۔ باجوڑ کے ان شورش زدہ علاقوں سے درجنوں خاندان نقل مکانی کرچکے ہیں۔ صوبائی حکومت کوچاہئے کہ وہ انہیں رہائش اور سہولیات فراہم کرے۔وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا نے اضلاع کی سطح پر جرگے بھی شروع کررکھے ہیں جس کے بعد گرینڈ جرگہ کیاجائے گااور اس جرگے کی سفارشات وفاقی حکومت کے سامنے رکھی جائیں گی۔ یہ جرگے گزشتہ ایک سال سے جاری ہیں،اگر حکومت اس پر سنجیدگی سے توجہ دیتی تو شاید یہ حالات نہ ہوتے۔پی ٹی آئی کو اپنے سیاسی بیانیے کیلئے صوبائی حکومت کے پلیٹ فارم کو استعمال کرنے سے گریز کرناچاہیے تاکہ حکومت اس صوبے کے عوام کیلئے یکسوئی سے کام کرسکے۔ وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کو بھی اس طرف توجہ دینی ہوگی اورپارٹی کے بجائے حکومت پر گرفت مضبوط کرنے کیلئے سنجیدہ اقدامات کرنا ہوں گے۔