انوکھا سخی (آخری قسط)
ایک بدوی، سعید رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور ان سے سوال کیا۔ سعید ؓ نے اپنے غلام سے کہا: ’’ اسے پانچ سو دے دو‘‘!۔بدوی نے پوچھا: ’’پانچ سو کیا‘‘؟، سعید ؓ نے فرمایا: ’’پانچ سو دینار‘‘۔ بدوی کو اپنی سماعت پر شک ہوا: ’’ پانچ سو دینار، نہیں کچھ اور کہا ہوگا‘‘ ابھی وہ اسی سوچ میں ڈوبا ہوا تھا کہ غلام نے پانچ سو دیناروں کی تھیلی اسے تھما دی۔ بدوی نے حیرت سے سعید ؓ کی طرف دیکھا۔ پھر دیناروں کو اُلٹ پلٹ کر رونے لگا۔سعید ؓنے پوچھا ’’ کس وجہ سے رو رہے ہو‘‘؟۔ بدوی اپنے آنسو پونچھتے ہوئے بولا: ’’ اس لئے رو رہا ہوں کہ یہ زمین آپ جیسے عظیم المرتبت لوگوں کو بھی کھا جائے گی‘‘۔
سعید رضی اللہ عنہ سے جب کوئی سائل سوال کرتا اور آپؓ کے پاس اس وقت کچھ نہ ہوتا تو اس رقم کو اپنے ذمے قرض لکھ لیتے کہ جب ہو گی ادا کر دوں گا۔ ہفتہ میں ایک بار اپنے دوستوں کو کھانے کی دعوت دیتے ، انہیں عمدہ لباس اور دیگر تحائف سے نوازتے۔ آپؓ ہر جمعہ کی رات اپنے غلام کو دیناروں کی تھیلیاں دے کر کوفہ کی مسجد میں بھیجتے۔ غلام وہ تھیلیاں لے جا کر نمازیوں کے سامنے رکھ دیتا۔ لوگ اس میں سے اپنی ضرورت کی رقم لے لیتے۔ سعید ؓ کی اس انوکھی سخاوت کی وجہ سے کوفہ کی مسجد شام کے وقت نمازیوں سے بھر جاتی تھی۔
ایک دفعہ حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا: ’’سعیدؓ، مجھے اپنے مال کے بارے میں بتائو۔ مجھے پتا چلا ہے کہ تم اسے بہت چاہتے ہو، اس کو حاصل کرنے کیلئے بہت جستجو کرتے ہو‘‘۔ سعیدؓ ان کی بات سن کر مسکرائے اور فرمانے لگے: ’’ امیر المومنینؓ! بے شک ہمارے پاس بہت مال ہے، جس سے ہمیں نفع حاصل ہوتا ہے۔ ہمارے پاس رقم ہو تو ہم اسے ضرورت مندوں اور محتاجوں سے بچا کر نہیں رکھتے۔ ہم اپنے لئے گوشت یا چربی کا ٹکڑا تک بچا کر نہیں رکھتے‘‘۔معاویہ ؓ یہ سن کر بہت حیران ہوئے اور فرمایا:’’ اس طرح معاملہ کب تک چلتا ہے‘‘؟ سعیدؓ نے فرمایا:اس طرح معاملات چلاتے ہوئے نصف سال تو بیت ہی جاتا ہے۔باقی نصف سال میں کیا کرتے ہو؟ حضرت معاویہؓ نے حیرت سے سوال کیا۔سعیدؓ نے فرمایا: بقیہ سال میں ہمیں وہ لوگ مل جاتے ہیں جو ہم پر خرچ کریں۔ ہمارے معاملات کو اسی طرح ٹھیک کرنے کی کوشش کریں جس طرح ہم دوسروں کیلئے کرتے ہیں۔
حضرت معاویہ ؓ ان کی باتیں سن کر مطمئن ہو گئے اور وہ ان کی سخاوت کے دل سے قائل ہو گئے۔ بھلا ایسا کون ہوگا جو اپنا سب کچھ اللہ کی راہ میں لٹادے۔ اپنے پاس لٹانے کیلئے کچھ نہ ہو، تو اسے اپنے ذمہ قرض لکھ لے۔ ایک دفعہ آپؓ مسجد کی طرف تشریف لے جا رہے تھے کہ ایک آدمی آپؓ کے ساتھ ساتھ بڑے احترام سے چلنے لگا۔ سعید رضی اللہ عنہ نے اس سے پوچھا: ’’ کیا تمہیں کوئی مشکل در پیش ہے یا تمہاری کوئی حاجت ہے، جس کیلئے تم میرے ساتھ چل رہے ہو‘‘۔اس آدمی نے جواب دیا ’’جی نہیں، میری کوئی حاجت نہیں، میں نے آپؓ کو اکیلے جاتے دیکھا تو آپؓ کے ساتھ ہو لیا‘‘۔
آپ نے اسے کہا ’’ لکھنے کیلئے دوات اور چمڑا لائو اور میرے فلاں غلام کو بلا کر لائو۔‘‘ وہ آدمی چمڑا اور دوات لے آیا اور ساتھ میں ان کے غلام کو بھی بلا لایا۔ آپؓ نے غلام کے سامنے اسے اپنے اوپر بیس ہزار درہم قرض لکھ کر دے دیا اور اسے کہا کہ جب ہمارا غلہ آئے گا تو ہم تمہیں ادا کر دیں گے۔ کچھ ہی عرصے کے بعد آپؓ کی وفات ہو گئی۔ وہ تحریر آپؓ کے بیٹے عمر بن سعیدؓ کے پاس لائی گئی تو انہوں نے وہ بیس ہزار درہم ادا کر دیئے۔
ایک بار حضرت معاویہؓ نے آپؓ کو پچاس ہزار درہم دیئے اور فرمایا: اس سے کوئی جاگیر خرید لیجئے گا۔ سعید ؓ بھلا ایسا کب کر سکتے تھے، فرمانے لگے: ’’ میں اس سے ایسی تعریف خریدنا چاہتا ہوں، جس کی وجہ سے میرا نام ہمیشہ باقی رہے، میں بھوکوں کو کھانا کھلائوں گا، بیوائوں کی شادی کروںگا، غلام آزاد کروںگا، دوستوں کی داد رسی کروں گا، پڑوسیوں کے حال کی درستگی کی کوشش کروں گا‘‘۔ حضرتمعاویہ ؓ نے فرمایا: اللہ پر ایمان کے بعد ذکر و شرف کیلئے سب سے بڑی چیز سخاوت ہے اور سخاوت کو اللہ رب العزت نے ان (سعید ؓ) کی صفت بنایا ہے۔
سعید رضی اللہ عنہ کو اللہ تعالیٰ نے فصاحت و بلاغت کی خوبی بھی عطا کی تھی۔ آپؓ جب گفتگو کرتے تو لوگ مسحور ہو جاتے، آپؓ کے دانشمندانہ اقوال آپؓ کی ذہانت اور بلند فکری کی عکاسی کرتے ہیں۔ خاص طور پر اپنے بیٹوں کو کی گئی وصیت اور نصیحتیں تربیت کا بہت عمدہ پہلو رکھتی ہیں۔
اے بیٹے! شریف سے مذاق نہ کرنا وہ تمہارے خلاف عداوت رکھے گا اور کمینے سے بھی مذاق نہ کرنا کیونکہ وہ تمہارے اوپر جرأت کرے گا۔
اے بیٹے! میری بیٹیوں کی شادی ہم پلہ( مرتبے میں برابر) کے سوا نہ کرنا، اگرچہ جو کی روٹی کے ایک ٹکڑے کے بدلے میں کرنا پڑے۔
اے بیٹے! میرا چہرہ میرے بھائیوں سے چھپ جائے لیکن میری نیکیاں اور بھلائیاں جو ان کے ساتھ ہیں، ختم نہیں ہونی چاہئیں۔
اے بیٹے! میں تیری نگاہوں کو اس وقت سے سخاوت دکھا رہا ہوں جبکہ تو پنگھوڑے میں تھا اور آج تو اس مقام پر پہنچ گیا ہے۔
اگر سخاوت کی خوبی آسان کام ہوتا تو گھٹیا اور کمینے لوگ اس کام میں تم سے سبقت لے جاتے، لیکن یہ خوبی کڑوی اور سخت ہے۔ یہ صفت صرف وہ حاصل کر سکتا ہے جسے اس کی فضیلت اور ثواب کا علم ہے۔
٭٭٭٭