سوء ادب:عمر قید
کسی شخص سے ایک قتل سر زرد ہو گیا تو اس نے ایک وکیل کی خدمات حاصل کیں جسے منہ مانگی فیس دے کر کہا کہ آپ مجھے پھانسی سے بچا لیں ، عمر قید کی مجھے کوئی پروا نہیں وہ میں گزار لوں گا۔
چنانچہ ہر پیشی پر وہ وکیل صاحب کو یاد دلاتا کہ عمر قید والی بات یاد ہے نا۔ کیس کی سماعت ختم ہوئی تو جج صاب نے ملزم کو عمر قید کی سزا سنا دی۔ وکیل صاحب اور سائل جب کمرہ عدالت سے باہر نکل رہے تھے تو سائل نے کہا کہ وکیل صاحب میں آپ کا بہت شکرگزار ہوں کہ آپ نے اپنا وعدہ پورا کر دکھایا جس پر وکیل صاحب بولے ، ’’ میں نے بڑی مشکل سے تمہیں عمر قید کروائی ہے ورنہ جج صاحب تو تمہیں صاف بری ہی کر رہے تھے ‘‘۔
شعری دانش کی دْھن میں
یہ ممتاز شاعر جلیل عالی کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جسے راولپنڈی میں شائع کیا گیا ہے۔ انتساب استاذی المکرم ڈاکٹر برہان احمد فاروقی کے نام جنہوں نے مجھے صوفی مجاہد کے تصور سے آشنا کیا صفحات 284 اور قیمت 500 روپے۔ دیباچہ محمد حمید شاہد نے لکھا ہے جن کے مطابق ’’شعری دانش کی دْھن میں‘‘ ایک ایسے تخلیق کار کے تنقیدی مضامین کا مجموعہ ہے جو اپنے پورے تہذیبی شعور کے ساتھ نہ صرف عصری حسیت کو شعری متن میں گوندھ رہا ہے بلکہ اپنے قارہین کے لیے فکری راہ نمائی اور قومی سطح پر سمت نمائی کا فریضہ بھی سر انجام دے رہے ہے۔ قبل ازیں ایک تحریر میں یہ کہہ چکا ہوں کہ جلیل عالی وہ شاعر ہیں جو پورے اخلاص کے ساتھ تہذیبی اور قومی وجود کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تہذیبی اور قومی وجود کے ساتھ جڑنا ہی ایک تخلیق کار کے زندہ ہونے کی علامت ہوا کرتا ہے۔ اس اعتبار سے دیکھیں تو وہ زندگی سے بھر پور شاعر ہیں۔ ایسے شاعر جس نے رواں وقت کی نبض پر ہاتھ رکھا ہوا ہے۔ یہی سبب ہے کہ وہ تخلیقی سر گرمی کے ساتھ ساتھ تنقید کی طرف متوجہ رہے ہیں اور یہ کتاب اسی سر گرمی کی ایک جھلک ہے۔ چیدہ چیدہ مضامین کے عنوان اس طرح سے ہیں پاکستانی کلچر کیا ہے ؟ اور کیسے ؟ ’’پاکستانی ثقافت‘‘ ( اتفاق و اختلاف ) ہماری تہذیبی روایت اور اردو غزل کے کلاسیکی استعارے ، درجوابِ آنند ، نیا ادب اور اردو غزل ، معاصر اردو غزل ، انجمن ترقی پسند مصنفین کا ملکیاتی محاکمہ جائزے کا جائزہ تنقیدی تھیوری اور تفہیمِ غالب ، آب و باد و خاک کا نغمہ خواں ، فیض کا فکری و شعری تشخص ، ندیم کی شعری واردات کی معنوی جہتیں ، منیر نیازی ، پورا شاعر۔ جمالِ عکس و صدا ، ایک دانشور شاعر ، توصیف کی غزل کے اوصافِ لطیف ، حفیظ تائب کی نعت کا غزلیہ آہنگ ، ’’ میں ہوا سے بات کی بازگشت‘‘ ۔پسِ سرورق مصنف کی تصویر اور اْن کے یہ جملے درج ہیں۔ ’’شعر و ادب معاشرے کی وہ تہذیبی قوت ہے جو انسان کو مایوسی سے بچاتی ہے ، جو امید کا چراغ بجھنے نہیں دیتی اور مشینوں کی حکومت میں احساسِ مروت کو کچلے جانے سے محفوظ رکھتی ہے۔ شاعروں کے کلام میں خواب کا استعارہ اسی عشق ، اسی آ درش یا نصب العین اسی شعرِ مطلوب اور اسی جہانِ نا افریدہ کی طرف اشارہ کرتا ہے جس کی دھن اور لگن انسانی شخصیت میں ایک برتر سطح پر توازن اور ارتباط پیدا کرنے کا وسیلہ بنتی ہیں ‘‘۔
آج کا مطلع
چار سُو پھیلتی خوشبو کی حفاظت کرنا
اتنا آساں بھی نہیں تجھ سے محبت کرنا