محمود خان اچکزئی کی بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی سیاست میں پی ٹی آئی کی ترجیحات؟
بانی پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر پختونخوا ملی عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کو نامزد کرکے ایک واضح پیغام دیا ہے کہ سیاست میں ان کی ترجیحات کیا ہیں اور وہ مستقل کی سیاست میں کیا چاہتے ہیں۔
فیلڈ مارشل سید عاصم منیر کے حوالے سے کچھ روز قبل شائع ہونے والی ایک خبر میں سیاسی مصالحت کیلئے سچے دل سے معافی مانگنے کی بات کو سیاسی محاذ پر مفاہمتی عمل کے حوالے سے ایک اہم پیش رفت کے طور پر لیا جا رہا تھا۔ مطلب یہ کہ 9مئی کے واقعات پر معافی کی صورت میں ڈائیلاگ کا دروازہ کھل سکتا ہے اور آگے بڑھا جا سکتا ہے لیکن بانی پی ٹی آئی کے طرزِ فکر وعمل سے لگتاہے کہ وہ سیاسی محاذ پر مفاہمت کی بجائے محاذ آرائی اور احتجاجی راستے کے خواہاں ہیں۔ ان کی حکومت کیخلاف آنے والی تحریک عدم اعتماد کے بعد سے اب تک ان کا طرز عمل یہی ظاہر کرتا ہے کہ وہ سمجھتے ہیں احتجاج کے آپشن کو بروئے کار لا کر وہ حکومت اور ریاست پر اثر انداز ہو سکتے ہے ،مگریہ تصور اب تک تو ناکام ثابت ہوا ہے، اور اس کے نتیجہ میں نہ صرف خود بانی پی ٹی آئی کیلئے مشکلات رہی ہیں بلکہ ان کی جماعت کے ذمہ داران اور اراکین اسمبلی کو بھی مقدمات کا سامنا ہے ۔ بانی پی ٹی آئی نے یوم استحصال کشمیر اور یوم آزادی جیسے قومی ایام پربھی احتجاج کی کال دی لیکن ان کی جماعت احتجاجی کیفیت طاری نہ کر پائی اور مذکورہ احتجاجی کالوں کے باوجود ملکی معاملات چلتے نظر آ رہے ہیں۔اس صورتحال میں بانی پی ٹی آئی کوتسلیم کرلینا چاہیے کہ سیاست، حکومت اور ریاست بارے ان کا طرزِ عمل درست نہ تھا اور 9مئی جیسے گھیرائو جلائو کے واقعات کا کوئی ملک متحمل نہیں ہو سکتا ۔ مگراس کے باوجود بظاہر یوں لگتا ہے کہ بانی پی ٹی آئی اپنی غلطی پر ندامت کا اظہار نہیں کریں گے اور ان کی غلطی پر اصرار نے ہی انہیں اس کیفیت سے دوچار کر رکھا ہے۔ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ریاست ان کے حوالے سے پسپائی ظاہر کرے گی تو ایسا ممکن نظر نہیں آتا، لہٰذا ان کے پاس اب محاذ آرائی کی بجائے صرف سیاسی پسپائی کا ہی آپشن بچتا ہے۔ سیاسی امور کے ماہرین یہ سمجھتے ہیں کہ سیاسی طرز عمل ہی مؤثر اور نتیجہ خیز ہوتا ہے اور اسی میں بانی پی ٹی آئی اور ان کی جماعت کا بھلا ہے۔
سیاست میں ہٹ دھرمی سیاستدانوں کو بند گلی میں لے جاتی ہے۔ وزیراعظم شہبازشریف نے بھی یوم آزادی کے موقع پر میثاق استحکام پاکستان کی بات کی اور کہا کہ پاکستان میں سب کو احتجاج کا حق ہے مگر جلائو گھیرائو کا نہیں، سب کو سیاست کا حق ہے مگر بغاوت کا نہیں، تنقید کا حق ہے مگر توہین کا نہیں، لہٰذا سب آگے بڑھیں اور مل کر استحکام پاکستان کیلئے اپنا اپنا کردار ادا کریں ۔ اب جبکہ وزیراعظم شہباز شریف ملک میں میثاق ِاستحکام اور سیاسی مصالحت کی بات کر رہے ہیں تو اس کے جواب میں بانی پی ٹی آئی نے قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر محمود خان اچکزئی کو نامزد کرکے ایک واضح پیغام دیا ہے۔ مطلب یہ کہ ہمیں مزاحمتی سیاست کرنی ہے ۔ محمود خان اچکزئی پاکستان میں ریاست کے کردار کے بڑے ناقد رہے ہیں ۔ ان کامقتدرہ کے ساتھ تعلق تنائو سے بھرا ہوا ہے اور وہ ہمیشہ اسے جمہوری عمل میں رکاوٹ قرار دیتے رہے ہیں۔ وہ اسی بنا پر سابق وزیراعظم نوازشریف کے ہم نوا تھے مگر مسلم لیگ( ن) نے سیاسی محاذ آرائی کی کیفیت کو آئین کے دائرے میں رکھا اور سیاست کو ایک حد سے آگے لے جانے کے خلاف رہی ۔ خودبانی پی ٹی آئی ماضی میں محمود خان اچکزئی کے اس حوالے سے شدید ناقد رہے یہاں تک کہ وہ ان کی شخصیت کو بھی ٹارگٹ کرتے تھے اور اس کے جواب میں محمود خان اچکزئی بانی پی ٹی آئی کو اسٹیبلشمنٹ کا بندہ قرار دیتے تھے۔ اب نئی صورتحال میں محمود خان اچکزئی کی بطور اپوزیشن لیڈر قومی اسمبلی نامزدگی سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی مزاحمتی سیاست کی خواہاں ہے اور احتجاجی آپشن سے رجوع پر تیار نہیں۔ یہ عمل کس حد تک ان کیلئے فائدہ مند ہوگااس کا اندازہ آنے والے حالات سے ہوگا۔ محمود خان اچکزئی کی بطور اپوزیشن لیڈر نامزدگی سے ایک اور بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ بانی پی ٹی آئی کا اپنے مائنڈسیٹ کے مطابق احتجاج اور مزاحمتی عمل بارے اپنی جماعت کے اراکین اسمبلی میں سے کسی پر اعتماد نہیں اور انہوں نے اسی بنا پر ایک قدرے چھوٹی جماعت کے لیڈر محمود خان اچکزئی کو ترجیح دی ہے۔ اس سے پہلے انہوں نے محمود خان اچکزئی کو تحریک تحفظ آئین پاکستان کا سربراہ نامزد کیا تھا لیکن اس پلیٹ فارم کو وہ سیاسی محاذ پر زیادہ فعال نہیں کر پائے البتہ وہ بانی پی ٹی آئی کی ہدایات پر کاربند رہے ۔ قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر کے طور پر وہ کتنے مؤثر ثابت ہوں گے اس کا انحصار آنے والے چند روز پر ہوگا۔ بلاشبہ ان کا پارلیمانی تجربہ ہے اور سیاسی محاذ پر بھی ان کو اہمیت و حیثیت ہے لیکن ان کا علاقائی کردار تو رہا ہے لیکن ان کے قومی کردار کو سیاسی جماعتوں میں زیادہ پذیرائی نہیں رہی ۔ اس کی بڑی وجہ ان کے مقتدرہ کے حوالے سے خیالات ہیں، اور مقتدرہ کے حوالے سے ان کے تحفظات کی بڑی وجہ ان کے افغانستان کے حوالے سے خیالات ہیں جنہیں پاکستان کے مفادات کے حوالے سے خطرناک قرار دیا جاتا رہا۔
پنجاب گروپ کے چیئرمین میاں عامر محمود نے گورننس کے ایشوز کی بنیاد پر نئے صوبوں کے قیام پر ایک سنجیدہ بحث کا آغاز کیا ہے جس میں انہوں نے آئینِ پاکستان پر توجہ مبذول کراتے ہوئے کہا ہے کہ ہر ڈویژن کو صوبہ بنانا چاہیے۔ اس عمل کے ذریعے مقامی لیڈرشپ کو آگے آنے کے وہ مواقع ملیں گے جن کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ میاں عامر محمود اس حوالے سے یکسو ہیں کہ موجودہ ریاستی ڈھانچہ گورننس کی ناکامی کی بڑی وجہ ہے ۔ ایک فیڈریشن کیلئے ہر جگہ اور شہر تک پہنچنا آسان نہیں ہو گا، لہٰذا گورننس کے ایشوز سے نمٹنے کیلئے نئے صوبوں کے قیام کی بات وقت کی آواز ہے اور اس پر پیش رفت اتنی مشکل بھی نہیں جتنی سمجھی جاتی ہے۔ البتہ اس عمل سے حکمران طبقات ضرور پریشان ہو گئے ہیں کیونکہ اس عمل سے ان کے مفادات کو زَک پہنچنے کا خطرہ ہے۔ مگر اس سے مقامی لیڈر شپ کو ابھرنے کے غیر معمولی مواقع ملیں گے۔ آج کا بڑا المیہ یہی ہے کہ جمہوری سسٹم کہلانے کے باوجود اختیارات کی تقسیم پر کوئی تیار نہیں۔اختیارات کا ارتکاز، گورننس کے مسائل، انصاف کی عدم فراہمی اور ترقی کی سست روی آج کے اصل ایشوز ہیں۔ اس کا حل صوبوں کی تقسیم کے بغیر ممکن نہیں۔جب تک کارکردگی کے ساتھ جوابدہی ممکن نہیں ہو گی مؤثر انتظامی سسٹم عمل میں نہیں آئے گا اور ملک میں استحکام آئے گا اور نہ ہی اختیارات اور وسائل کی تقسیم ممکن ہو پائے گی، لہٰذا ان ایشوز کا حل نئے صوبوں کا قیام سے ہی ممکن ہے اور اس پیش رفت کے بغیر ملک ترقی نہیں کر سکتا۔