امیر مینائی کی نعت نگاری

تحریر : ڈاکٹر ریاض مجید


جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں حسرت آتی ہے یہ پہنچا، میں رہا جاتا ہوںشیفتگی و محبت کے جذبات کا والہانہ اظہار ان کی نعت گوئی کا منفرد موضوع ہےامیر مینائی کے نعتیہ کلام کا غالب حصہ غزل کی ہیئت میں ہے۔ وہ اردو شاعری کی تاریخ کے پہلے بڑے صاحبِ طرز غزل گو ہیں جنہوں نے کیفِ نعت کو رنگِ تغزل سے ہم کنار کیا

امیر مینائی ایک مذہبی گھرانے سے تعلق رکھتے تھے۔ ان کی طبیعت اور کلام میں تصوف، توکل و استغناء ،انکسار و زہد اور عشقِ رسول اکرم ﷺ کا میلان اسی پس منظر کی دین ہے جو بعد میں ان کی نعتیہ شاعری کی تخلیق کا محرک بنا۔امیر مینائی نے نعت گوئی کو بطور خاص اس وقت اپنایا جب 1857ء کے ہنگامے کے بعد انہوں نے لکھنٔو چھوڑ کر کاکوری میں پناہ لی۔ یہاں ان کی ملاقات مشہور نعت گو شاعر محسن کاکوروی سے ہوئی۔ مذہبی پس منظر کے سبب اگرچہ امیر مینائی کے کلام میں پہلے بھی کہیں کہیں نعت کے اشعار ملتے ہیں مگر ان کے نعتیہ کلام کا بڑا اور وقیع حصہ ان کے قیام کا کورہ اور اس کے بعد کے زمانے میں تخلیق ہوا جس میں محسن کا کوروی کے اثرات کی جھلک واضح طور پر نظر آتی ہے۔

امیر مینائی کی متعدد تصنیفات میں سے محامدِ خاتم النبیینﷺ، مثنوی نورو تجلی و ابرِ کرم، نعتیہ مسدس صبح اول، شام ابد، لیلۃ القدر اور شاہ انبیاءﷺ نعت سے متعلق ہیں۔ علاوہ ازیں نعت میں انہوں نے تین قصیدے بھی لکھے۔’ خیابانِ آفرنیش‘ امیر مینائی کا مولود نامہ ہے جو نثر میں ہے۔ ان تصنیفات کے علاوہ ان کے متعدد نعتیہ اشعار ہیں جو ان کے دوسرے شعری مجموعوں میں ملتے ہیں۔

دوسری جانب لکھنؤ کے دبستان شاعری میں سراپا نگاری کا جو رجحان تھا، اس سے دوسرے نعت گو شاعروں کی طرح امیر مینائی بھی متاثر ہوئے۔ امیر کے ہاں کسی بھرپور اور طویل سراپا کے بجائے مختلف نعتیہ غزلوں میں آنحضرتﷺ کے جمالِ ظاہرکے اوصاف ملتے ہیں۔ کہیں آپ ﷺ کے حسن و جمال کے مجموعی تاثر کا بیان ہے۔ درج ذیل شعر ملاحظہ کیجئے:

جن و بشر تسخیر ہیں، سب صورتِ تصویر ہیں

مازاغ کے سرمے سے ہیں آنکھیں تریؐ شوخی بھری

ایک اور نعت کا یہ شعر دیکھئے جس میں آپ ﷺ کے رخ و لب اور جبیں و دہن کے اوصاف بیان کئے گئے ہیں:

 درود پڑھتے تھے قدسی جو دیکھتے تھے وہ رُخ

 لب آپ ﷺ کے تھے وہ معجز نما کہ صلِ علیٰ

امیر مینائی کے نعتیہ کلام کا غالب حصہ غزل کی ہیئت میں ہے۔ وہ اردو شاعری کی تاریخ کے پہلے بڑے صاحبِ طرز غزل گو ہیں جنہوں نے کیفِ نعت کو رنگِ تغزل سے ہم کنار کیا۔ اگرچہ ان سے قبل اور ان کے معاصر نعت گو شاعروں میں بھی ایسے لوگ ملتے ہیں جنہوں نے غزل کی ہیئت میں نعتیہ دیوان مرتب کئے مگر فنی طور پر امیر کی غزل گوئی کافی، لطف، تمنا اور دوسرے نعت گو شاعروں سے زیادہ درجہ و مقام رکھتی ہے۔ شاعری سے خداداد مناسبت کے سبب اگرچہ ان کے سارے کلام میں تازگی مضمون، پاکیزگی زبان اور متانتِ انداز کی وجہ سے ایک خاص انفرادیت کا احساس ہوتا ہے مگر ان کی غزل گوئی کا ایک خاص انداز ہے۔ تخیل کی رنگینی اور خلاقی کے ساتھ لکھنؤ کی فصیح ، سلیس اور آراستہ زبان ان کی غزل گوئی کی نمایاں خصوصیات ہیں۔ جب ان کی غزل  گوئی میں نعت کے مضامین در آئے تو رنگِ تغزل اور کیف نعت کے امتزاج نے ایک حسین اور مؤثر کیفیت پیدا کر دی۔ یہی دل نشینی ان کی نعتیہ غزلوں کا جوہر ہے۔ ایک جگہ کہتے ہیں:

قابل ہوں میں تو اپنی طبیعت کا اے امیر

مضمونِ نعت میں بھی نہ لطفِ غزل گیا

یہ فی الواقعہ ان کے استادانہ کمال کا ثبوت ہے کہ انہوں نے غزل کے مزاج کو قائم رکھتے ہوئے اسے ایک قرینے اور شائستگی سے نعت گوئی کے لئے استعمال کیا۔ غزل کی ہیئت میں نعت گوئی کی ترویج و مقبولیت امیر مینائی جیسے شاعروں ہی کی مرہون منت ہے۔خالد مینائی نے امیر کی نعتیہ غزلوں کے فکری و فنی محاسن کا ذکر کرتے ہوئے جن خصوصیات کا ذکر کیا ہے ان میں سلاستِ زبان، زورِ اصلیت اور سوزو گداز کی بطور خاص نشان دہی کی ہے۔ وہ امیر کے فنِ نعت کے بارے میں لکھتے ہیں: ’’رعایتِ لفظی و معنوی اور گفتار کی نرمی و گرمی کے باوجود، جو طرز امیر کے احساسات میں سے ہیں، زبان اکثر و بیشتر ان کی صاف، شستہ، ٹھیٹ، بامحاورہ اور مناسبِ موقع ہے کہ عام و خاص سب ہی کو بھاتی ہے اور یہی سبب ہے کہ امیر کی نعت گھر گھر پڑھی جاتی ہے۔ میری رائے تو یہ ہے کہ بیان کی حد تک ان کے نعتیہ کلام کی سب سے بڑی خوبی زبان کا شیریں وسہل ممتنع ہونا ہے۔کلام امیر میں جن جذبات کا اظہار کیا گیا ہے، مصنوعی طرح سے طاری نہیں کئے گئے تھے، اس لئے ان میں اصلیت کا زور اور واقعیت کا جوش پورا پورا موجود ہے۔بیان میں بانکپن کے ساتھ گداز و اثر بھی ہے اور یہ لازمہ ہے ان جذبات کی سچی عکاسی کا جو ذات رسولﷺ کے احترام اور اس سے حقیقی تعلق کی بنا پر دل میں پیدا ہوتے ہیں‘‘۔

امیر مینائی کی نعت گوئی کا کمال یہ بھی ہے کہ وہ عقیدت کی فراوانی کے باوجود نعت گوئی میں محتاط ہیں اور انہوں نے مدح رسول ﷺ میں آدابِ شریعت کو ملحوظ رکھا کہ فن نعت میں مشکل مرحلہ ہے۔ ان کی نعت کے مضامین میں ایک نمایاں مضمون تو حضور اکرم ﷺ کے جمال اور ظاہری شمائل کا ہے۔ اس بارے میں پہلے ذکر کیا جا چکا ہے۔ دوسرے نمایاں مضامین میں حضور اکرم ﷺ سے استمداد اور ان سے شیفتگی و محبت کے جذبات کا اظہار ہے۔ یہ دو موضوع ایسے ہیں جن کے بیان میں امیر مینائی کا اخلاص جھلکتا محسوس ہوتا ہے۔ حضور اکرم ﷺ سے فریاد اور استمداد میں ان کی نعتیں سوزوگداز اور کیف و اثر میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ۔ مطلع ملاحظہ ہوں۔

جز ترےﷺ کس سے کرے مسکیں یہ امت، الغیاث

الغیاث، اے شافعِ روزِ قیامت الغیاث

…………

فلک ہے برسرِ بیداد یا رسول اللہؐ

بچایئے مجھے، فریاد یا رسول اللہؐ

ان کے علاوہ کم و بیش تمام نعتوں میں کسی نہ کسی انداز میں التجا کا مضمون ملتا ہے۔ یہ شعر دیکھئے:

چاہیے مجھے یہ عنایت شہ دیںٖؐ تھوڑی سی

دیجئے قبر کو یثرب میں زمیں تھوڑی سی

آرزو ہے کہ محبت میں تمہاری کٹ جائے

عمر باقی ہے جو اے خسروِ دیں تھوڑی سی

شیفتگی و محبت کے جذبات کا والہانہ اظہار امیر مینائی کی نعت کا ایک اور منفرد موضوع ہے ان کی اکثر نعتیں اسی کیف و مستی میں ڈوبی ہوئی ہیں۔ ان کی درج ذیل نعت دیکھئے جس کی ردیف ہی میں ’’صدقے‘‘ کے التزام نے شیفتگی کی فضا پیدا کر دی ہے۔

مال آپؐ پر تصدق، جاں آپؐ پر سے صدقے

آنکھوں سے سر ہے قرباں، آنکھیں ہیں سر سے صدقے

یہ پوری نعت اسی جذبے میں ڈوبی ہوئی ہے۔

ان کے علاوہ اور بہت سی نعتیں ہیں جن میں ارمان و آرزو کا سوز، محویت و فدویت کے جذبات، دیار رسول ﷺ سے دوری کا شدید احساس ، روضۂ رسولﷺ پر حاضری کے والہانہ شوق کا اظہار ملتا ہے۔ عقیدت و محبت کی شیفتگی اور جاں نثاری اور جاں سپاری کا جذبہ ان نعتوں کی جان ہے۔ بعض نعتیں تو مسلسل انہی کیفیات کی آئینہ دار ہیں۔ خصوصاً وہ نعتیں جن کے بیش تر شعر مدینہ کے فراق میں ہیں۔ نمونہ درج ذیل ہے:

اللہ اللہ مدینہ جو قریب آتا ہے

خود بخود سر پے تسلیم جھکا جاتا ہے

میں کہوں روضۂ پُرنور رہا کتنی دور

ساتھ والے کہیں اب آتا ہے، اب آتا ہے

ان کے علاوہ بہت سی نعتیں جن کے ردیف وقافیہ میں لفظ مدینہ کا التزام ہے، بطور خاص امیر مینائی کی محبت رسول  اکرمﷺ کا مظہر ہیں۔ مدینہ کا تصور ہی دراصل امیر کے جذباتِ حب رسول ﷺ کے لئے ایک انگیخت اور تحریک ہے۔ یہ لفظ امیر کے کلام کا ایک ایسا بلیغ استعارہ ہے جس کے حوالے سے امیر مینائی نے محبت رسول ﷺ کی تمام کیفیات و جذبات کو مؤثر ترجمانی کی ہے۔عقیدت کی فراوانی کے ساتھ جذب و کیف کا تاثر امیر کے انہی شعروں میں زیادہ ہے جن میں مدینہ یا اس کے متعلقات( روضۂ رسولؐ ) کا ذکر ہے۔ بحیثیت مجموعی امیر مینائی نے نعت گوئی کی تاریخ میں قابل ذکر اضافہ کیا۔ وہ اردو نعت کے شعر ائے ما قبل(کافی، لطف اور تمنا مراد آبادی وغیرہ) اور شعراے مابعد خصوصاً محسن کاکوروی اور مولانا احمد رضا خاں بریلوی وغیرہ کے درمیان ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ا نہوں نے نعت کے فن کو تشکیلی مراحل سے نکال کر تکمیلی منازل کی طرف گامزن کیا۔نعت گوئی کو اصناف شعر میں آج جو اہمیت و حیثیت حاصل ہے، وہ (محسن سے قبل) امیر مینائی ہی کے ذوق نعت کا نتیجہ ہے۔ خصوصاً غزل کی ہیئت میں انہوں نے نہ صرف نعت کی روایت کو آگے بڑھایا بلکہ نعت خوانوں کے حلقوں اور عوام الناس میں نعت کی ترویج و تشہیر میں بھی ان کا خاص عمل دخل ہے۔

 ان کی نعتیں ہر عہد کے میلاد خوانوں اور مجالسِ میلادﷺ میں مقبول و مشہور رہی ہیں۔ انہیں نہ صرف ذوق و شوق سے پڑھا جاتا رہا ہے بلکہ بہت سے نعت گو شاعروں نے ان زمینوں میں نعتیں بھی کہیں ہیں۔ 

اب کہاں چین خبر دی مرے جی نے مجھ کو

کہ مدینے میں بلایا ہے نبیؐ نے مجھ کو

ان کی نعتوں کی فضا اخلاص اور شیفتگی سے لبریز ہے اور یہی امیر مینائی کی نعت گوئی کا جوہر ہے۔

چند مشہور نعتیہ اشعار

ہند سے مجھ کو مدینہ میں بلا لیں سرکارﷺ

پھر میں یہ عرض کروں گا کہ تمنا کیا ہے

…………

یاد جب مجھ کو مدینے کی فضا آتی ہے

سانس لیتا ہوں تو جنت کی ہوا آتی ہے

…………

مدینے جائوں، دوبارہ پھر آئوں، پھر جائوں

تمام عمر اسی میں تمام ہو جائے

…………

کشتی مری تباہ ہے، پار اے خدا لگے

ایسی ہوا چلے کہ مدینے کو جا لگے

…………

تن سے نکلے گی مرے جس دم امیر

روح جائے گی مدینے کی طرف

امیر مینائی کی نعتیں

جب مدینے کا مسافر کوئی پا جاتا ہوں

حسرت آتی ہے یہ پہنچا، میں رہا جاتا ہوں

دو قدم بھی نہیں چلنے کی ہے مجھ میں طاقت

شوق کھینچے لئے جاتا ہے میں کیا جاتا ہوں

قافلے والے چلے جاتے ہیں آگے آگے

مدد اے شوق کہ میں پیچھے رہا جاتا ہوں

کاروانِ رہِ یثرب میں ہوں آوازِ درا

سب میں شامل ہوں مگر سب سے جدا جاتا ہوں

………………

خلق کے سرور شافعِ محشر صلی اللہ علیہ وسلم

مرسلِ داور، خاص پیمبر صلی اللہ علیہ وسلم

نورِ مجسم، نیرِ اعظم، سرورِ عالم، مونسِ آدم

نوح کے ہمدم، خضر کے رہبر صلی اللہ علیہ وسلم

فخرِ جہاں ، عرشِ مکاں ہیں، شاہِ شہاں ہیں، سیف زباں ہیں

سب پہ عیاں ہیں آپؐ کے جوہر صلی اللہ علیہ وسلم

بحرِ سخاوت، کانِ مروت، آیۂ رحمت، شافعِ امت

مالکِ جنت، قاسمِ کوثر صلی اللہ علیہ وسلم

قبلۂ عالم، کعبۂ اعظم، سب سے مقدم راز کے محرم

جانِ مجسم، روحِ مصور، صلی اللہ علیہ وسلم

دولتِ دنیا خاک برابر ہاتھ کے خالی، دل کے تونگر

مالکِ کشور، تخت نہ افسر صلی اللہ علیہ وسلم

رہبرِ عیسیٰ ہادیِ موسیٰ، تارکِ دنیا، مالکِ عقبیٰ

ہاتھ کا تکیہ، خاک کا بستر صلی اللہ علیہ وسلم

سرو خراماں، چہرہ گلستاں، جبہ تاباں، مہرِ درخشاں

سنبلِ پیچاں، زلفِ معنبر صلی اللہ علیہ وسلم

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔