کالا باغ ڈیم سیاست زدہ کیوں بنا؟
مریم نواز سیلاب سے متاثرہ علاقوں میں متحرک
ملک میں سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور اس پر شدید تشویش پائی جا تی ہے،مگر اس دوران خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ علی امین گنڈا پور نے کالا باغ ڈیم کا ذکر کر کے ملک میں ایک نئی بحث کو جنم دیا ہے۔ ان کی اپنی جماعت پی ٹی آئی کی جانب سے تو اس تجویز کی مخالفت کی جارہی ہے تاہم مسلم لیگ(ن) کے ذمہ داران ان کے اس بیان کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں۔ وزیر دفاع خواجہ آصف نے وزیراعلیٰ خیبر پختونخواکے بیان کوصائب قرار دیتے ہوئے کہا کہ سیلابی صورتحال نے بڑے بحران سے دوچار کر رکھا ہے، ہمارے پاس پانی ذخیرہ کرنے کی گنجائش نہیں، ہر سال ہمارا انتہائی قیمتی پانی ضائع ہو جاتا ہے، لہٰذا سیاسی بنیاد پر اس بیان کی مخالفت نہیں ہونی چاہئے۔ حکومت پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری نے بھی کالا باغ ڈیم کی تجویز کا خیر مقدم کیا اور کہا کہ اس پر اتفاق رائے ہونا چاہئے۔تاہم پی ٹی آئی کے مرکزی رہنما اسد قیصر نے وزیراعلیٰ کے اس بیان کو اُن کی ذاتی رائے قرار دیا اور کہا کہ پی ٹی آئی بحیثیت جماعت اس کی حمایت نہیں کرتی۔ ان کا کہنا تھا کہ چھوٹے ڈیم بننے چاہئیں تاکہ سیلابی صورتحال سے نمٹا جا سکے۔ پیپلزپارٹی، اے این پی اور جے یو آئی کی جانب سے بھی کالا باغ ڈیم پر تحفظات کا اظہات کیا گیا۔ مطلب یہ کہ کالا باغ ڈیم پر سیاسی جماعتوں میں تقسیم واضح ہے لیکن یہ ایک بڑی حقیقت ہے کہ حالیہ سیلاب اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی نے ایک بات تو واضح کر دی کہ اب بڑے، چھوٹے ڈیمز ناگزیر ہیں اور اس حوالے سے کسی تنازع میں پڑے بغیر آگے بڑھنا چاہئے۔ اس لئے کہ ہر سال تقریباً 30ملین ایکڑ فٹ پانی سمندر کی نذر ہو جاتا ہے جس کی مالیت کا تخمینہ 30ارب ڈالرز لگایا جاتاہے۔ ایک جانب پانی کی قلت کے باعث ہماری زراعت کو شدید نقصان پہنچ رہا ہے تو دوسری جانب سیلاب ہمارا بہت کچھ بہا لے جاتے ہیں، بڑے پیمانے پر مالی و جانی نقصان ہوتا ہے، لاکھوں ایکڑ اراضی زیر آب آجاتی تو پھر ڈیمز پر بحث کے آغاز کو خوش آئند قرار دینا چاہیے۔ قابل غور بات یہ ہے کہ اس بحث کا آغاز خیبر پختونخوا سے ہوا ہے اور وزیراعلیٰ اس کی ضرورت کا احساس دلاتے نظر آتے ہیں۔ اگر کالا باغ ڈیم پر پیش رفت نہ بھی ہو تو بھی ڈیمز پر بات آگے چلنی چاہئے۔ جہاں تک کالا باغ ڈیم کا سوال ہے توآبی ماہرین کا اس پر اتفاق ہے اور اسے قابلِ عمل اورملک کے بہترین مفاد میں قرار دیا گیا ہے۔ یہی وجہ تھی کہ جنرل ضیا الحق، نوازشریف، بے نظیر بھٹو اور جنرل مشرف کے ادوار میں اس پر عمل درآمد کا اعلان ہوا مگر بوجوہ پیش رفت نہ ہو سکی۔ اب ایک طرف جہاں کالا باغ ڈیم کی تعمیر کا سوال اُٹھ رہا ہے تو دوسری جانب یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اگر کالا باغ ڈیم پر نہیں تو دوسرے ڈیمز پر پیش رفت ہونی چاہئے۔ گزشتہ ہفتے وزیراعظم شہبازشریف بھی سیلابی صورتحال پر بریفنگ میں ڈیمز کی ضرورت و اہمیت کا احساس دلاتے نظر آئے۔ موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اگر اس حوالے سے کوئی پیش رفت نہ ہوئی تو موسموں کے ہاتھوں تباہی ہمارا مقدر رہے گی۔ اگر کالا باغ ڈیم کے نام سے کس کو چڑ ہے تو اس ڈیم کا نام تبدیل کرکے کچھ اور رکھا جا سکتا ہے۔ ماہرین کے مطابق اس ڈیم کے اگر فائدے معلوم ہوں تو اس کی مخالفت کرنے والے ندامت کا اظہار کرتے نظر آئیں۔ وزیراعلیٰ خیبر پختونخوا نے کالا باغ ڈیم کی اہمیت کا احساس دلا کر اپنا نام سیاسی تاریخ میں محفوظ کر لیا ہے۔
پنجاب اس وقت زبردست سیلاب اور اس کے نتیجہ میں ہونے والی تباہی کی زد میں ہے۔ صوبہ بھر میں سینکڑوں دیہات زیر آب ہیں، لاکھوں متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے حکومت بارشوں کے نتیجہ میں سیلاب کے خطرات سے پہلے سے ہی الرٹ تھی۔ وزیراعلیٰ مریم نواز خود اس محاذ پر متحرک نظر آتی ہیں۔ متاثرہ علاقوں کے دوروں کے دوران وہ ریلیف کمپنیوں میں جا کر خواتین، بچوں، بزرگوں کی ضروریات کا جائزہ لیتی نظر آ رہی ہیں، متاثرین کی محفوظ مقامات پر منتقلی اور ان کی خوراک و ادویات کا بندوبست بھی ہو رہا ہے۔ اسی جدوجہد میں اے سی پتوکی فرقان احمد خان اللہ کو پیارے ہو گئے۔ وہ دن رات سیلابی علاقہ میں سرگرم تھے اور فلڈ ریلیف آپریشن میں ہیڈ بلوکی کے مقام پر تعینات تھے۔ ان کے ساتھیوں کا کہنا ہے کہ انتہائی محنتی اور دلچسپی سے کام کرنے والے افسر تھے۔ حکومت پنجاب نے فرقان احمد خان کو اعلیٰ سول ایوارڈ اور ان کے ورثا کیلئے ایک کروڑ کی گرانٹ کا اعلان کیا ہے۔
پنجاب حکومت کی ریلیف سرگرمیوں کا جائزہ لیا جائے تو اس حوالے سے متاثرہ اضلاع میں ریلیف کیمپس کا قیام ایک اہم پیش رفت ہے جہاں خوراک، ادویات اور پینے کے صاف پانی کی فراہمی یقینی بنائی جا رہی ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب اور ان کی کابینہ کے اراکین مختلف علاقوں میں سرگرم نظر آ رہے ہیں۔ پہلے مرحلہ میں حکومت کا ہدف متاثرین کو سیلاب سے بچانا، محفوظ جگہوں پر پہنچانا اور ان کیلئے خوراک کا بندوبست ہے لیکن اگلا مرحلہ زیادہ کڑا نظر آ رہا ہے کیونکہ ان کی بحالی کیلئے حکومت کو اور زیادہ تگ و دو کرنا ہوگی۔ سب سے تشویشناک بات جو نظر آ رہی ہے وہ سیلاب اور اس کی تباہ کاریوں کے بعد مہنگائی کا سیلاب ہے۔ منافع خور افراد نے اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بڑھانا شروع کر دی ہیں، خاص طور پر گندم، آٹا، چینی، چاول، دالوں کی قیمتوں میں اضافہ حکومت اور انتظامی مشینری کیلئے چیلنج بنتا نظر آ رہا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر پائے گی۔بلاشبہ حکومت نے اپنے طور پر ممکنہ اقدامات کئے ہیں لیکن یہ بحران صرف حکومت حل نہیں کر سکتی، مخیرحضرات اور سماجی تنظیموں کو بھی آگے آنے اور اپنا کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ سیاسی جماعتوں اور ان کی قیادت کیلئے بھی لمحہ فکریہ ہے۔ سوشل میڈیا پر بعض عناصر حکومت کو ٹارگٹ کرتے نظر آ رہے ہیں لیکن اپنی سیاست کو عوام کے ساتھ منسلک کرنے والی جماعتیں خود سیلاب زدہ علاقوں میں مسائل زدہ عوام کی مشکلات میں ان کی مدد کرتی نظر نہیں آ رہیں۔سیلابی علاقوں میں بعض تنظیموں کی جانب سے امدادی سرگرمیوں پر پابندی کی شکایت پر حکومت پنجاب کی ترجمان عظمیٰ بخاری کا کہنا ہے کہ متاثر علاقوں میں ریلیف سرگرمیوں خصوصاً کھانے کی تقسیم پر حکومت نے کوئی پابندی نہیں لگائی البتہ متاثرین کو کھانے کی سپلائی سے پہلے ضلعی انتظامیہ اور فوڈ اتھارٹی کو کھانا چیک کروایا جائے۔ متاثرہ علاقوں کے حالات اس امر کے متقاضی ہیں کہ حکومت دیگر تنظیموں کی حوصلہ افزائی کرے تاکہ کسی قسم کی قلت پیدا نہ ہو۔ یہ سیاست کا نہیں ذمہ داری کے احساس اور اپنائیت کا معاملہ ہے۔