محبو بِ خدا ﷺ
بندوں پر اگرچہ پروردگار کی نعمتیں بے پناہ ہیں، اس کی نوازشیں بے پایاں اور اس کی عطائیں بے انتہاء ہیں جن کا تقاضا ہے کہ شکر ادا کیا جائے جو ان میں اضافے کا باعث بنے اور اس عزیز و حمید ذات کی تعریف کی جائے تاکہ اس کی رضا مندی حاصل ہو۔ تاہم ان میں سے سب سے بڑی نعمت کہ جس جیسی کوئی اور نعمت نہیں، وہ اللہ کی یہ نوازش ہے کہ اس نے بشیر و نذیر، سراج منیر، رحمۃ للعالمین اور نبی کریم ﷺکو مبعوث کیا۔
دنیا میں شقاوت اور آخرت میں اللہ کے غضب، جہنم کے دردناک عذاب کا موجب بننے والی ہلاکت اور گمراہی سے بچانا اتنی بڑی نعمت ہے کہ جس ہستی کے ذریعہ یہ نعمت حاصل ہوئی، ان کے حقوق ملحوظ رکھنا اور ان کو پورا کرنا واجب ہے۔ یہ اس نبی کریم ﷺکے حقوق ہیں جس نے اپنی اور اپنے ساتھ بھیجی گئی ہدایت و نجات کی مثال بیان کرتے ہوئے فرمایا: ’’میری مثال اور مجھے اللہ کی طرف سے ملنے والی نبوت کی مثال اس آدمی کی طرح ہے جو کسی قوم کے پاس آئے اور کہے ، اے میری قوم! میں نے اپنی آنکھوں سے لشکر دیکھا ہے اور میں تمہیں کھلے عام ڈرا رہا ہوں اور چوکنا کر رہا ہوں، اس لئے سنبھل جائو اور بچائو کا سامان کرو۔ پھر اس کی قوم میں سے ایک گروہ اس کی بات مان کر راتوں رات چل دے اور نجات پا جائے جبکہ دوسرا گروہ اسے جھٹلادے اور اپنی جگہ ٹھہرا رہے ۔چنانچہ لشکر آئے اور اسے ہلاک کر کے بیخ و بن سے اکھاڑ دے ۔ چنانچہ یہی مثال ہے اس آدمی کی جو میری فرمانبرداری کرے اور میری نبوت کے مطابق چلے اور اس آدمی کی جو میری نافرمانی کرے اور اس حق کی تکذیب کرے جو میں لے کر آیا ہوں۔(بخاری ومسلم)
حضرت ابو ہریرہؓسے روایت ہے کہ اللہ کے رسول ﷺنے ارشاد فرمایا : اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد ﷺ کی جان ہے، اس امت کا کوئی بھی شخص خواہ یہودی ہو نصرانی ، میرے بارے میں سن لیتا ہے پھر مرجاتا ہے اور میری لائی ہوئی تعلیمات پر ایمان نہیں لاتا تو وہ جہنمی ہے ۔ (صحیح مسلم ،مسند احمد )
ہر عقلمند اور صاحب ایمان جانتا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے نبی کریم ﷺکے ذریعہ ہمیں جن خیرات و برکات سے نوازا ہے وہ شمار سے باہر ہیں، وہ خیرات صرف دنیا ہی تک محدود نہیں ہیں بلکہ آخرت میں بھی آپ ﷺ کی شفاعت و غیرہ کی شکل میں ظاہر ہوں گی۔ اس پر غور کرلینے کے بعد ہر صاحب بصیرت اس بات کا اعتراف کرلے گا کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کے بعد سب سے زیادہ اور سب سے بڑا حق اس کے نبی کریم ﷺ کا ہے ۔
نبی کریم ﷺ کے حقوق میں سب سے پہلا اور اہم ترین حق یہ ہے کہ آپ ﷺکی اطاعت کی جائے کیونکہ یہ آپﷺ پر ایمان اور آپ ﷺ کی تصدیق کا لازمی تقاضا ہے ۔ اللہ تعالیٰ نے آپ ﷺ کی اطاعت کا حکم دیتے ہوئے یوں ارشاد فرمایا کہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور حکم سننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو۔(الانفال)
اللہ نے یہ بھی فرمایا کہ جو کوئی آپﷺ کی فرمانبرداری کرے گا، وہی اللہ کا فرمانبردار ہے اور جو آپ ﷺ کی نافرمانی کرے وہ درحقیقت اللہ کا نافرمان ہے ۔ آپﷺ تو اسی بات کا حکم دیتے ہیں جس کا اللہ حکم دے اور اسی بات سے منع کرتے ہیں جس سے اللہ منع کرے۔ ’’جس نے رسول کی اطاعت کی اس نے دراصل اللہ کی اطاعت کی اور جو منہ موڑ گیا، تو بہرحال ہم نے تمہیں ان لوگوں پر پاسبان بنا کر تو نہیں بھیجا (النساء)،اور فرمایا’’جو کچھ رسولؐ تمھیں دے وہ لے لو اور جس چیز سے وہ تم کو روک دے اس سے رک جائو اللہ سے ڈرو، اللہ سخت سزا دینے والا ہے۔ (الحشر)
اس فرمانبرداری سے اللہ تعالیٰ جو فوائد اور ثمرات عطا کرتا ہے وہ بیان سے باہر ہیں اور شمار میں نہیں آسکتے ۔
پہلا فائدہ: ان میں سے ایک یہ ہے کہ یہی فرمانبرداری صراط مستقیم پر گامزن کرتی اور دنیا و آخرت کی سعادتوں سے ہمکنار کرتی ہے ۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے : ’’اللہ کے مطیع بنو اور رسول ﷺکے تابع فرمان بن کر رہو لیکن اگر تم منہ پھیرتے ہو تو خوب سمجھ لو کہ رسول ﷺپر جس فرض کا بار رکھا گیا ہے اُس کا ذمہ دار وہ ہے اور تم پر جس فرض کا بار ڈالا گیا ہے اُس کے ذمہ دار تم ہو اُس کی اطاعت کرو گے تو خود ہی ہدایت پائو گے ورنہ رسول کی ذمہ داری اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ صاف صاف حکم پہنچا دے ۔(النور: 45)
دوسرافائدہ:اسی طرح اس کے فوائد میں سے ایک یہ بھی ہے کہ آپﷺ کی فرمانبرداری سے آدمی پر اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔ ’’اللہ اور رسول کا حکم مان لو، توقع ہے کہ تم پر رحم کیا جائے گا۔(آل عمران)
تیسرافائدہ: اسی طرح آپ ﷺ کی فرمانبرداری کے بدلے میں اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ جنت کا داخلہ نصیب کرتا ہے جن پر انعام کیا گیا ہے جن میں سب سے پہلے انبیاء ہیں پھر دوسرے درجے پر وہ صِدِّیق ہیں جو صدق میں اور اللہ کے دین، اس کی کتابوں اور اس کے رسولوں کی تصدیق میں درجۂ انتہا پر فائز ہیں اور انبیاء کے پیروکاروں میں سے افضل ترین لوگ ہیں، اس کے بعد شہداء کا درجہ ہے اور پھر وہ مومن جن کا ظاہر اور باطن پاک ہے ۔’’جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے گا وہ ان لوگوں کے ساتھ ہوگا جن پر اللہ نے انعام فرمایا ہے یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اورصالحین،کیسے اچھے ہیں یہ رفیق جو کسی کو میسر آئیں۔(النساء)
یہی وجہ ہے کہ جہنم کی آگ میں جب کفار کے چہرے جھلسیں گے اور انہیں عذاب دیا جا رہا ہو گا تو وہ اس حسرت کا اظہار کریں گے کہ کاش! انہوں نے اللہ اور اس کے پیغمبرﷺ کی فرمانبرداری کی ہوتی۔ اللہ تعالیٰ نے اس کے متعلق یوں خبر دی ہے کہ: ’’جس روز ان کے چہرے آگ پر الٹ پلٹ کیے جائیں گے اس وقت وہ کہیں گے کہ کاش! ہم نے اللہ اور رسولﷺ کی اطاعت کی ہوتی(الاحزاب)۔ چنانچہ وہ آپﷺ کی فرمانبرداری کی تمنا کریں گے لیکن ایسے وقت میں کہ جب اس تمنا کا کوئی فائدہ نہ ہو گا اور وقت بیت چکا ہو گا۔
آپ ﷺ کی اطاعت کی حقیقت
آپ ﷺکی اطاعت کی حقیقت یہ ہے کہ آپ ﷺ کی رہنمائی میں چلا جائے ، آپﷺ کی پیروی کی جائے ، آپ ﷺ کے طریقے کو اپنایا جائے ، آپ ﷺکی سنت پر عمل کیا جائے اور اسے لوگوں کے خیالات اور خوش فہمیوں پر مقدم رکھا جائے ۔ تمام امور کا فیصلہ آپ ﷺسے کروایا جائے اور آپ ﷺکے فیصلے پر پوری رضا مندی اپنائی جائے ۔ جیسا کہ اللہ کا فرمان ہے ،’’پس ایمان لائو اللہ پر اور اس کے بھیجے ہوئے نبی اُمی پر جو اللہ اور اس کے ارشادات کو مانتا ہے ، اور پیروی اختیار کرو اُس کی، امید ہے کہ تم راہ راست پا لو گے ‘‘(الاعراف)۔
ایمان کی درستگی کیلئے شرط
اللہ تعالیٰ نے ایمان کی درستگی کیلئے شرط مقرر کی ہے کہ آپ ﷺ کے حضور سر تسلیم خم کیا جائے ، آپ ﷺکے فیصلے کو خوش دلی اور رضا مندی سے مانا جائے ۔ آپ ﷺکے فیصلے پر کوئی حرفِ اعتراض نہ اٹھایاجائے اور نہ ہی اس میں کسی شک یا تردد کا اظہار کیا جائے ۔ ارشاد ربانی ہے ’’اے محمدؐ! تمہارے رب کی قسم! یہ کبھی مومن نہیں ہوسکتے جب تک کہ اپنے باہمی اختلافات میں تم کو فیصلہ کرنے والا نہ مان لیں، پھر جو کچھ تم فیصلہ کرو اس پر اپنے دلوں میں بھی کوئی تنگی نہ محسوس کریں، بلکہ سر بسر تسلیم کر لیں۔(النساء)