اختر شیرانی رومان جن کی شخصیت کے محرکات کا جیتا جا گتا عکس 77ویں برسی
کچھ تو تنہائی کی راتوں کا سہارا ہوتا تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا حقیقت میں رومانیت زندگی کی ایک خاص طرح کی کیفیت کا نام ہے جس میں عقلیت سے زیادہ جذباتیت کے عناصر غالب ہوتے ہیں اور اختر شیرانی اس کیفیت کو بہترین انداز میں بیان کرتے تھے
اختر شیرانی ادب کی ان گنی چنی شخصیات میں سے ہیں جن کے ارد گرد بے شمار جھوٹی سچی، من گھڑت، فرضی اور خیالی باتوں کا ہجوم اکٹھا ہو گیا ہے۔ لوگوں نے ذاتی علم اور تجربے کے بغیر محض سنی سنائی باتوں سے خیالات اور تصورات کا ایسا طلسم باندھا کہ اس محبوب اور مقبول شاعر کی ذات میں جادو کی تاثیر پیدا ہو گئی ہے۔ جادو کی یہ تاثیر ان کے کلام میں بھی موجود ہے کہ اس سے سرد دلوں میں حرارت پیدا ہوتی ہے اور دل کی حرارت التہاب بن کر پوری ہستی پرچھا جاتی ہے۔اختر نقادوں کی زبان میں شاعرِ رومان ہیں اور اس رومان نے ان کے معاصر شاعروں پر بھی جادو چلایا ہے اور آنے والی نسلوں کے دلوں میں بھی جگہ بنائی ہے۔جب اختر شیرانی کا ذکر چھڑتا ہے تو بات گھوم پھر کر سلمیٰ کی گھنی زلفوں اور شبنمی عارضوں پر جا کر ٹھہرتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ زندگی کا سارا سکون اپنی زلفوں کے سائے میں اور زندگی کی تمام تر خوشی انہی عارضوں کی ہم نشینی میں ہے۔بقول سید وقار عظیم اختر شیرانی اور ان کی سلمیٰ نے بیسویں صدی کے شاعر کو عشق اور حسن کا ایک معیار دیا ہے۔ لیکن نہ اختر کا کوئی متعلقہ عشق کے اس مقام تک پہنچتا ہے جو شاعرِ رومان نے اپنے لئے وضع کیا تھا اور نہ ہی کسی کی سلمیٰ کو حسن کی دنیا میں محبوبی کا وہ رتبہ حاصل ہوتا ہے جو اختر نے سلمیٰ کو دیا تھا۔ اختر کی رومانی شاعری اور ان سے متاثر ہو کر اس نغمے کو الاپنے والوں کی رومانی شاعری کا سب سے بڑا فرق یہی ہے اور یہ فرق شخصیتوں اور مزاجوں کے فرق نے پیدا کیا ہے۔
سلمیٰ کی حقیقت کیا ہے؟اس ضمن میں عرب کے زمانہ جاہلیت میں ہونے والے بڑے بڑے سالانہ میلوں کو یاد کرنا ہوگا۔ ان میلوں میں اکثر عالیشان مشاعرے بھی منعقد ہوتے تھے جن میں اُس عہد کے مشہور شعرا اپنے اپنے کلام اعلیٰ سے سامعین کو نوازتے تھے۔ ان میں سے سالِ رواں کا جو بہترین کلام ہوتا تھا۔ سونے کے پانی سے لکھو اکر آویزاں کر دیا جاتا تھا۔ اُس زمانے میں عام رواج تھا کہ شاعر کلام میں اپنی محبوبہ کو حقیقی نام استعمال کرنے کی بجائے اسے فرضی نام سے مخاطب کرتا تھا؛ چنانچہ چند ایک فرضی نام مثلاً عذرا،عنیزہ اور سلمیٰ وغیرہ بہت مقبول ہو گئے تھے اور تقریباً ہر شاعر اپنی محبوبہ کا صحیح نام استعمال کرنے کی بجائے ان فرضی ناموں کا ہی سہارا لیتا تھا، لہٰذا اختر شیرانی کے ہاں بھی سلمیٰ کا نام عربی شاعری سے مستعار لیا گیا ہے ورنہ حقیقت میں سلمیٰ نام کی کوئی ایسی لڑکی نہ تھی جس سے اختر والہانہ عشق کرتے تھے اور رات دن اسی کے گیت گاتے رہتے تھے۔سلمیٰ کا نام اختر کی شاعری میں اس کثرت سے استعمال ہوا ہے کہ وہ خود ایک زندہ حقیقت بن گئی، جس سے انحراف دشوار ہو گیا ہے کیونکہ اختر شیرانی نے اس نام کے ساتھ ایسے واقعات، حالات، جذبات و احساسات اور خیالات پیش کئے ہیں جو عشق مجازی میں ناگزیر ہیں اور تقریباً ہر عاشق کو مادی عشق میں پیش آتے ہیں۔
رومان اور رومانیت دوسروں کیلئے ایک رسمی اور رواجی چیز ہے۔ اختر کیلئے یہ ان کے دل کی دھڑکن اور اس دھڑکن کی آواز ہے۔ یہ رومان ان کی شخصیت کے محرکات کا جیتا جا گتا عکس ہے۔ اس رومان میں اختر کی شخصیت کی بھرپور توانائی ہے۔ اس رومان کی پرورش سچی محبت کے صحتمند سائے میں ہوئی ہے اس لئے یہاں فرار نہیں سپردگی ہے، افسردگی نہیں نشاط و طرب ہے۔ مایوسی نہیں امید کا ولولہ ہے ۔یہ رومان، جذب صادق اور شوقِ فراواں کا دوسرا نام ہے۔اختر نے اپنی رومانی شاعری کے ذریعے زندگی کی کڑی دھوپ میں چھائوں تلاش کرنے کی دعوت بھی دی ہے اور اس کی جانفزا نوید بھی سنائی ہے۔ اس محبت میں خلوص ہے۔ سچائی ہے، دیانت ہے اس لئے اس کے لہجے میں نہ پردہ داری ہے نہ جھجک۔حسن کا احساس اختر کے دل کا سب سے قوی اور یقیناً سب سے غالب احساس ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری حسن محبوب کا آئینہ بھی ہے اور حسن فطرت کا بھی، اور اس آئینے میں حسن کی دونوں کیفیتیں پوری آب و تاب سے اپنا جلوہ دکھاتی ہیں۔ افسوس ہے کہ زمانے نے بہت جلد اختر کو بھلا دیا ۔ اس معنی میں کہ اس کی شاعری نے رومان کے تصور کو ایک صحت مند اور پاکیزہ تصور بنا دیا۔دیکھا جائے تواختر شیرانی کی شاعری کی روح و رواں اور بنیادی خصوصیت ان کی موسیقیت و غنائیت ہے اور یہ غنائیت صرف انہی سے مخصوص ہے اور انہی کا حصہ ہے۔ اس غنائیت و موسیقیت سے ان کی شاعری کو الگ کرکے دیکھنا گوشت کو ناخن سے الگ کرنے کے مترادف ہے۔ وہ کسی بہت بڑے موسیقار کی طرح ہیں اور موسیقی کے جملہ نشیب و فراز سے پوری طرح آگاہ ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شاعری میں موسیقی کا شدید طوفان امڈتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ اس طوفان میں اس قدر جوش اور روانی ہے کہ قاری کو بھی اپنے ساتھ بہا کر لے جاتا ہے اور اس کے دل اور روح کے دامن کو مسرتوں کے پھولوں سے بھر دیتا ہے اور قاری لطف اندوز ہوئے بغیر نہیں رہ سکتا۔ یہ موسیقیت کی فضا اختر کی تمام شاعری پر چھائی ہوئی نظر آتی ہے۔ اس لئے ان کی شاعری میں حسن ، دلکشی اور جاذبیت جیسے عناصر اجاگر ہو گئے ہیں کیونکہ وہ ایک اچھے موسیقار کی طرح موسیقی کے ہر سرتال سے پوری طرح واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ شاعری میں موسیقی پیدا کرنے کیلئے کن کن ذرائع کو کس کس طرح بروئے کار لایا جا سکتا ہے ۔
اردو ادب سے ذرا بھی دلچسپی رکھنے والا ہر شخص نہایت آسانی سے کہہ سکتا ہے کہ اختر شیرانی رومانی شاعر تھے یا اختر شیرانی کی شاعری رومانیت سے بھرپور ہے، مگر یہ بتانا ذرا مشکل ہے کہ رومانی شاعری ہوتی کیا ہے؟ یا رومانیت کن عناصر ترکیبی سے معرض وجود میں آتی ہے؟ رومانیت حسن و عشق یا محبت و الفت کی نشاط انگیز میٹھی میٹھی جادو بیانی، سحر طرازی اور خارجیت کی مصوری کو بھی ہم رومانیت کا نام نہیں دے سکتے اور نہ ہی الفاظ تراشی اور غنائی شاعری کو رومانیت کہا جا سکتا ہے۔ حقیقت میں رومانیت زندگی کی ایک خاص طرح کی کیفیت کا نام ہے جس میں عقلیت سے زیادہ جذباتیت کے عناصر غالب ہوتے ہیں اور اختر شیرانی اس کیفیت کو بہترین انداز میں بیان کرتے تھے۔
اختر شیرانی جہاں بہت بڑے موسیقار ہیں وہاں بہت بڑے مصور بھی ہیں۔ وہ مصوری اور بت تراشی کے فن سے اسی طرح واقف ہیں جس طرح موسیقی کے فن میں مہارت رکھتے ہیں کیونکہ وہ اپنے موقلم سے ایسی بے مثال تصویریں بناتے ہیں جو نہ صرف اپنے حسن و جمال میں یکتائے روزگار ہوتے ہیں بلکہ جذبات و احساسات کی دولت سے بھی مالا مال ہوتے ہیں۔ ان کی تصویریںانسانی صفات سے کلی طور پر متصف ہوتے ہیں اور ان میں زندگی کی لہریں عام انسان کی طرح رقص کناں ہوتی ہیں۔ گویا اختر شیرانی ایسی لاجواب تصویریں بناتے ہیں جو عام انسانوں کی طرح بولتی چالتی، ہنستی گاتی اور مسکراتی دکھائی دیتی ہیں۔ ان کی اکثر تصویریں نمایاں اور واضح ہوتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ ہمیشہ تصویر بڑے کینوس پر بناتے ہیں اور تصویر بناتے وقت معمولی جزئیات کو بھی نظرانداز نہیں کرتے بلکہ یہی معمولی جزئیات اکثر ان کی تصویر اور اس کے پس منظر کو نمایاں کرنے میں معاون ثابت ہوتی ہیں۔ پھر ان تصویروں میں جذبات و احساسات کا رنگ بھر کے ان کے خدوخال اور نقوش اس طرح اجاگر اور گہرے کر دیتے ہیں کہ وہ دل کی اتھاہ گہرائیوں میں اتر جاتے ہیں اور لوح دل پر ان کے نقوش اس قدر مرتسم ہو جاتے ہیں کہ وقت اور زمانہ انہیں کبھی بھی محو کرنے میں کامیاب نہیں ہو سکتا، کیونکہ وہ وقت اور زمانہ کی دسترس سے باہر ہوتے ہیں۔
دوسری جانب اختر شیرانی بہت بڑے فطرت پرست بھی ہیں اور اس فطرت پرستی میں ان کا خلوص، محبت اور شوق شامل ہے۔ وہ فطرت سے والہانہ لگائو رکھتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کے نزدیک فطرت کسی جامد یا ساکن کیفیت کا نام نہیں بلکہ فطرت، جمال و زیبائی اور حسن ورعنائی کے دلچسپ امتزاج کا نام ہے جس میں ہمہ وقت زندگی کی لہریں موجزن رہتی ہیں۔ اسی لئے فطرت کے اندر کشش و جاذبیت کی سی بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور اسی کشش و جاذبیت کی بنا پر اختر کو فطرت سے والہانہ لگائو اور عشق ہے۔ گھنگھور گھٹائیں نیلی فام سیاہ بادل، ساون کا مہینہ، برکھارت، صبا کے نم آلودہ جھونکے، عطر میں ڈوبی ہوئی ہوائیں، خاموش فضائیں، پرندوں کی میٹھی صدائیں، چڑیوں کی چہک، کلیوں اور پھولوں کی مہک، افق پر شفق کے پھول، سر سبز و شاداب چمن، باغوں میں بہاریں، جگمگاتے ہوئے ستارے، چمکتا ہوا چاند، بہتا ہوا پانی، لب نہر پھولوں کا جھومنا، کوہستاروں پر بجلیوں کا کوندنا، جھرنوں کا گرنا چشموں کا گیت گانا، شاخوں کا خوشی سے جھومنا، غرضیکہ اختر کو فطرت کی ہر شے سے بے پناہ محبت ہے۔ پیار ہے، والہانہ لگائو ہے اور یہ فطرت نگاری یا فطرت پرستی ان کی شاعری میں اس قدر اہمیت رکھتی ہے کہ ان کی شاعری کو اس سے الگ کرکے دیکھنا ہی ناممکن ہے۔ فطرت کا یہ جمالیاتی ذوق قدم قدم پر ان کا دامن دل کھینچتا ہے اور ان کی نگاہیں از خود اس کی طرف اٹھ جاتی ہیں اور بعض مرتبہ تو وہ فطرت کی نیرنگیوں میں اس قدر محو ہو جاتے ہیں کہ انہیں اپنے گرد و پیش کا قطعاً احساس نہیں رہتا۔
اختر شیرانی کا اصل نام محمد داؤد خان تھا۔ 4 مئی 1905 کو ٹونک (راجپوتانہ) میں پیدا ہوئے۔ تمام عمر لاہور میں گزری۔ والد پروفیسر محمود شیرانی اورینٹل کالج لاہور میں فارسی کے استاد تھے۔’’ ہمایوں‘‘ اور’’ سہیلی‘‘ کی ادارت کے بعد رسالہ ’’ انقلاب‘‘ پھر ’’خیالستان‘‘ نکالا اور پھر’’ رومان‘‘ جاری کیا۔’’ شاہکار‘‘ کی ادارت بھی کی۔ان کا انتقال 9 ستمبر 1948ء کو لاہور میں ہوا اور قبرستان میانی صاحب میں آسودہ خاک ہیں۔
غزل
تازہ بتازہ، نو بہ نو، جلوہ بہ جلوہ چھائے جا
پھولوں میں مسکرائے جا، تاروں میں جگمگائے جا
فتنۂ غم جگائے جا، حشرِ ستم اٹھائے جا
نیچی نظر کئے ہوئے بام پہ مسکرائے جا
میں ہوں وہ مست جس کو ہے کیف کی ندرتوں کا ذوق
شام و سحر کے جام میں شمس و قمر پلائے جا
طور خراب ہو نہ ہو، دید کی تاب ہو نہ ہو
کوئی جواب ہو نہ ہو، برقِ نظر گرائے جا
تیرے اور اس کے درمیاں تیری خودی حجاب ہے
اپنا نشان کھوئے جا اس کا مقام پائے جا
جام بہ جام، خم بہ خم، غنچہ بہ غنچہ، گُل بہ گُل
نکہت و رنگ لائے جا، نور و طرب پلائے جا
اختر شیرانی کا منتخب کلام
کچھ تو تنہائی کی راتوں کا سہارا ہوتا
تم نہ ہوتے نہ سہی ذکر تمہارا ہوتا
ترکِ دنیا کا یہ دعویٰ ہے فضول اے زاہد
بارِ ہستی تو ذرا سر سے اتارا ہوتا
وہ اگر آ نہ سکے موت ہی آئی ہوتی
ہجر میں کوئی تو غمخوار ہمارا ہوتا
زندگی کتنی مسرت سے گزرتی یا رب
عیش کی طرح اگر غم بھی گوارا ہوتا
عظمتِ گریہ کو کوتاہ نظر کیا سمجھیں
اشک اگر اشک نہ ہوتا تو ستارا ہوتا
لبِ زاہد پہ ہے افسانہ حور ِجنت
کاش اس وقت مرا انجمن آرا ہوتا
غمِ الفت جو نہ ملتا غمِ ہستی ملتا
کسی صورت تو زمانے میں گزارا ہوتا
کس کو فرصت تھی زمانے کے ستم سہنے کی
گر نہ اس شوخ کی آنکھوں کا اشارا ہوتا
کوئی ہمدرد زمانے میں نہ پایا اختر
دل کو حسرت ہی رہی کوئی ہمارا ہوتا
٭٭٭٭٭
غم عزیزوں کا حسینوں کی جدائی دیکھی!
دیکھیں، دکھلائے ابھی گردشِ دوراں کیا کیا
اب وہ باتیں نہ وہ راتیں نہ ملاقاتیں ہیں
محفلیں، خواب کی صورت ہوئیں ویراں کیا کیا
گیسو بکھرے ہیں مرے دوش پہ کیسے کیسے
میری آنکھوں میں ہیں آباد شبستاں کیا کیا