قائداعظمؒ کے آخری 50 دن

تحریر : ہکٹر بولیتھو


اکثر یہ کہا جاتا ہے کہ آدمی اپنی زندگی جس انداز میں گزارتا ہے،اس کی موت بھی اسی انداز میں ہوتی ہے۔ یہ بات محمد علی جناحؒ کے بارے میں بالکل درست ثابت ہوئی۔

 اگرچہ ان کا نحیف و نزار جسم جس کا وزن محض ستر پاؤنڈ رہ گیا تھا،  ابھی تک حرارتِ حیات سے معمور دکھائی دیتا تھا اور آنکھوں میں چمک باقی تھی لیکن جو لوگ اُن کے قریب تھے وہ جانتے تھے کہ اب ان کی موت کا فیصلہ جسمانی قوت نہیں بلکہ ان کی مضبوط قوتِ ارادی کر رہی ہے۔محترمہ فاطمہ جناحؒ نے یاد کرتے ہوئے کہا: اپنی وفات سے کئی برس قبل اُن کے معالجین اور قائداعظمؒ کے درمیان ایک مسلسل کشمکش جاری رہتی تھی۔ ڈاکٹر انہیں تاکید کرتے تھے کہ زیادہ دیر آرام کریں اور کم وقت کام کریں مگر وہ اس کے برعکس کرتے، حالانکہ بخوبی جانتے تھے کہ وہ کتنا بڑا خطرہ مول لے رہے ہیں۔ جب بھی فاطمہ جناحؒ اپنے بھائی سے کہتیں کہ آپ کو ڈاکٹر سے ملنا چاہیے تو وہ جواب دیتے: نہیں، میرے پاس کرنے کو بہت کچھ ہے۔ میں اپنا وقت ضائع نہیں کر سکتا۔

سٹیٹ بینک کے افتتاح کے23 دن بعد جب وہ زیارت کے بنگلے میں مقیم تھے تو قائد کو ایک ڈاکٹر کی مستقل دیکھ بھال قبول کرنی پڑی، اگرچہ بڑی ضد کے بعد۔ یہ ذمہ داری لیفٹیننٹ کرنل الٰہی بخش کو دی گئی جو لندن کے گائز ہسپتال سے فارغ التحصیل اور لیسٹرشائر کی جانب سے کرکٹ کھیل چکے تھے۔ڈاکٹر الٰہی بخش نے پہلی مرتبہ 24 جولائی کی صبح آٹھ بجے قائد کو دیکھا۔ انہیں انتہائی کمزور اور دبلا پتلا پایا، چہرہ زرد تھامگر جناحؒ نے کہا: مجھے کچھ نہیں ہوا۔ مجھے صرف معدے کی تکلیف اور تھکن ہے جو زیادہ کام اور پریشانی کی وجہ سے ہے۔ چالیس برس تک میں نے دن کے چودہ گھنٹے کام کیا اور بیماری کا نام تک نہ جانا۔وہ ایک وکیل کی مانند دلائل دے رہے تھے،  مریض کی سی مایوسی ان کے لہجے میں نہ تھی۔انہوں نے کہا: چند برسوں سے مجھے سال میں بخار اور کھانسی کے دورے پڑتے ہیں۔ بمبئی کے ڈاکٹرز ان حملوں کو برانکائٹس کہتے رہے۔ پچھلے ایک دو برس میں یہ حملے بڑھ گئے ہیں اور اب زیادہ تکلیف دہ ہیں۔ڈاکٹر الٰہی بخش خاموشی سے سنتے رہے۔ انہوں نے دیکھا کہ جناحؒ کا ہر جملے کے بعد سانس پھولنے لگتا ہے اور بار بار ہونٹ تر کرتے ہیں۔ قائداعظمؒ نے مزید کہا:تقریباً تین ہفتے پہلے مجھے زکام ہوا اور بخار و کھانسی شروع ہوئی۔ کوئٹہ کے سول سرجن نے پنسلین کی گولیاں دیں جو میں اب تک کھا رہا ہوں۔ زکام بہتر ہے، بخار بھی کم ہوا ہے لیکن میں خود کو بہت کمزور محسوس کرتا ہوں۔ میرا نہیں خیال کہ مجھے کوئی بڑی بیماری ہے، میں جلد ٹھیک ہو جاؤں گا۔مگر ڈاکٹر الٰہی بخش اس خوش فہمی سے متفق نہ تھے۔ دوسرے ماہرین کو بلایا گیا اور ٹیسٹ کروائے گئے۔ سب نے اس بات کی تصدیق کی کہ دراصل قائد پھیپھڑوں کی جان لیوا بیماری میں مبتلا ہیں اور یہ حقیقت وہ خود بھی جانتے تھے۔جب ڈاکٹر نے انہیں یہ سنگین خبر سنائی تو اپنی ڈائری میں لکھا:میں نے غور سے ان کا ردعمل دیکھا۔ وہ بالکل پرسکون رہے اور کہا ’’کیا آپ نے یہ بات محترمہ جناحؒ کو بتائی ہے؟‘‘جب میں نے کہا ’جی ہاں،‘ تو انہوں نے کہا ’نہیں، آپ کو یہ نہیں بتانا چاہیے تھا۔ آخر وہ ایک عورت ہیں۔ خیر، جو ہونا تھا ہو گیا اب مجھے سب کچھ صاف صاف بتائیں۔ علاج میں کتنا وقت لگے گا؟ مجھے سب کچھ جاننا ہے اور آپ کو سچائی چھپانی نہیں چاہیے۔ڈاکٹر نے سچائی بتائی لیکن قائد اپنی بات پر قائم رہے۔ پہلے پہل انہوں نے نرس رکھنے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ان کی دیکھ بھال صرف ان کی بہن کریں گی۔ آخرکار ایک خاتون کمپاؤنڈر کو بلایا گیا تاکہ ابتدائی کاموں میں مدد کرے۔ جب اس نے ان کا درجہ حرارت نوٹ کیا اور قائد نے پوچھا تو اس نے ڈاکٹر کی اجازت کے بغیر بتانے سے انکار کر دیا۔ یہ ’’آئینی طریقہ کار‘‘ دیکھ کر جناحؒ مسکرائے اور لطف اندوز ہوئے۔پھر ڈاکٹر اور قائد کے درمیان پاجامے پر بحث ہوئی۔ ڈاکٹر نے کہا: سر، آپ کے ریشمی پاجامے بہت باریک ہیں، اس سے زکام کا خطرہ ہے۔جناحؒ نے جواب دیا: میرے پاس تو صرف ریشمی پاجامے ہیں، البتہ میں کھدر کے پاجامے بنوانے کا سوچ رہا ہوں۔ڈاکٹر نے کہا: کھدر کافی نہیں ہوگا۔ آپ کواُونی پاجامے پہننے چاہئیں۔ میں نے آپ کی اجازت کے بغیر کراچی سے تیس گز کپڑا منگوا لیا ہے۔قائد نے جواب دیا : ’’دیکھو ڈاکٹر، ہمیشہ میرا مشورہ یاد رکھنا۔ جب بھی پیسہ خرچ کرو، سوچو کہ آیا یہ واقعی ضروری ہے یا نہیں‘‘۔ڈاکٹر نے کہا: سر، میں ہر فیصلہ کئی بار سوچ کر ہی کرتا ہوں۔ اور آپ کے معاملے میں اُونی پاجامے بالکل ناگزیر ہیں۔قائد مسکرائے اور کہا: اچھا، مان لیتا ہوں۔زیارت کا یہ بنگلہ، جو اونچے پتھریلے پہاڑوں میں واقع تھا، دارالحکومت سے دور تھا۔ وہاں وزیراعظم اور حکومت لمحہ بہ لمحہ قائد کی خیریت کی خبر کے منتظر تھے۔ ڈاکٹر الٰہی بخش کی سنگین خبر کے تین دن بعد وزیراعظم لیاقت علی خان زیارت پہنچے اور گورنر جنرل سے آدھے گھنٹے کی ملاقات کی۔بعد ازاں انہوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے تشخیص پوچھی۔ ڈاکٹر نے جواب دینے سے انکار کیا کیونکہ وہ سمجھتے تھے کہ انہیں محترمہ جناحؒ نے بلایا ہے، ریاست نے نہیں۔ اس لیے انہوں نے کہا: میں نے ابھی کوئی حتمی تشخیص نہیں کی۔لیاقت علی خان نے پھر پوچھا: آپ کو کیا شبہ ہے؟ ڈاکٹر نے کہا: میرے ذہن میں دس بیماریاں ہیں، لیکن مجھے یقین حاصل کرنا ہوگا۔

کابینہ کے سیکرٹری محمد علی لیاقت علی خان کے ساتھ تھے۔ انہوں نے کہا:آپ پر فرض ہے کہ وزیرِاعظم کو صاف صاف بتائیں کہ قائداعظمؒ کی بیماری کیا ہے۔ ہمیں حکومت میں ہر ممکن نتیجے کے لیے تیار رہنا چاہیے۔ڈاکٹر الٰہی بخش نے اس سے اتفاق تو کیا لیکن ساتھ ہی یہ بھی کہا کہ وہ اپنے مریض کی اجازت کے بغیر کچھ ظاہر نہیں کریں گے۔اگلی صبح قائد نے ڈاکٹر سے پوچھا: وزیراعظم نے تم سے میرے بارے میں کیا پوچھا تھا؟ڈاکٹر نے جواب دیا کہ انہوں نے کچھ نہیں بتایا۔ اس پر قائداعظمؒ نے کہا: ریاست کا سربراہ ہونے کے ناتے میں خود قوم کو اپنی بیماری کی نوعیت اور سنگینی سے آگاہ کروں گا، جب مجھے مناسب وقت لگے گا۔29 جولائی کو ایکس رے سے معلوم ہوا کہ ان کے پھیپھڑوں کو ہونے والا نقصان پہلے خیال سے کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ اسی روز کوئٹہ سول ہسپتال کی نرسنگ سپرنٹنڈنٹ فلس ڈنہم ان کی تیمارداری کے لیے پہنچیں۔ 9 اگست کو ڈاکٹروں نے فیصلہ کیا کہ قائد کو زیارت کی بلندیوں سے کوئٹہ منتقل کیا جائے۔ 12 اگست کی رات لیفٹیننٹ احمد نے تمام انتظامات کیے۔ جب قائد کو بتایا گیا کہ سب تیار ہے تو انہوں نے کہا:لیکن میں تب تک نہیں جاؤں گا جب تک لباس نہ پہن لوں۔ میں پاجاموں میں سفر نہیں کروں گا۔ایک نیا کوٹ لایا گیا جو انہوں نے کراچی میں سلوایا تھا مگر کبھی پہنا نہ تھا۔ پھر ان کے پمپ شوز لائے گئے، پھر ان کی موناکل (آنکھ کا شیشہ) جس کی سلک کی ڈوری سرمئی تھی ۔    ایک نیا اور برف کی طرح سفید رومال نکالا گیا اور ان کے ہاتھ میں دیا گیا۔16 اگست کو ڈاکٹر الٰہی بخش نے انہیں خوشخبری دی کہ پھیپھڑوں کی حالت میں 40 فیصد بہتری آئی ہے۔ قائد نے فوراً پوچھا:کتنے دن میں یہ سو فیصد ہوگی؟دو دن بعد وہ دوبارہ سرکاری کاغذات پر کام کرنے لگے، روزانہ ایک گھنٹے کے لیے۔ جب محمد علی(کابینہ سیکرٹری ) دوبارہ کراچی سے پہنچے تو انہیں لگا کہ قائد پہلے سے زیادہ چاق و چوبند اور بالکل اپنی پرانی شخصیت جیسے ہیں۔چند دن بعد قائداعظمؒ اپنے کمرے میں کچھ دیر کے لیے ٹہلنے لگے۔ انہوں نے سپگیٹی، آڑو اور انگور کھائے اور کراچی واپس جانے کی خواہش کا ذکر کیا۔انہوں نے کہا:مجھے بیساکھیوں پر وہاں نہ لے جانا۔ میں اس وقت جانا چاہتا ہوں جب میں چل سکوں۔ مجھے گاڑی سے کمرے تک سٹریچر پر اٹھا کر لے جانا بالکل پسند نہیں۔

یہ ان کی دلیری کی آخری جھلک تھی۔ 29 اگست کو انہوں نے ڈاکٹر الٰہی بخش سے کہا:جب تم پہلی بار زیارت آئے تھے تو مجھے جینے کی خواہش تھی لیکن اب کوئی فرق نہیں پڑتا کہ میں جیتا ہوں یا مر جاتا ہوں۔ڈاکٹر الٰہی بخش نے بعد میں اپنی ڈائری میں لکھا:میں نے دیکھا کہ ان کی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں اُن کی افسردگی کو سمجھ نہ سکا۔ انہوں نے وضاحت کی کہ وہ اپنا کام مکمل کر چکے ہیں مگر یہ بات مجھے مبہم اور گول مول لگی۔ کیا پانچ ہفتے پہلے ان کا کام ادھورا تھا؟ کیا درمیان میں کچھ ایسا ہوا جس نے انہیں یہ احساسِ تکمیل دیا؟ مجھے لگا کہ کچھ ایسا ضرور ہوا ہے جس نے ان کے جینے کے ارادے کو متزلزل کر دیا۔5 ستمبر کی شام کو قائد کو نمونیا ہو گیا۔ تین دن تک بخار بڑھتا رہا اور وہ بے چینی میں کبھی کبھی ایسے جملے دہراتے رہے جو اُن کے ذہن میں تھے۔ ان کے لبوں سے آخری الفاظ کشمیر کے بارے میں نکلے۔ اچانک انہوں نے بلند آواز میں غصے سے کہا:کشمیر کمیشن کی آج میرے ساتھ ملاقات تھی۔ وہ کیوں نہیں آئے؟ کہاں ہیں وہ؟10 ستمبر کو ڈاکٹر الٰہی بخش کو محترمہ فاطمہ جناحؒ کو یہ بتانا پڑا کہ اب ان کے بھائی کے زندہ رہنے کی امید چند دن سے زیادہ نہیں۔ اگلی صبح تین ہوائی جہاز قریب اتارے گئے جن میں قائد کا خوبصورت وائی کنگ بھی شامل تھا۔ انہیں اس پر سٹریچر کے ذریعے لایا گیا۔ برطانوی پائلٹ اور عملہ قطار میں کھڑے ہو کر انہیں سلامی دے رہا تھا۔ جناحؒ نے آہستگی سے ہاتھ اٹھا کر جواب دیا۔ چند منٹ بعد جہاز کوئٹہ کے سخت پہاڑوں کے اوپر سات ہزار فٹ کی بلندی پر پرواز کر رہا تھا۔

11 ستمبر کی دوپہر 4 بج کر 15 منٹ پر جہاز ماڑی پور (کراچی) اُترا، جہاں ایک سال پہلے ہزاروں پاکستانیوں نے ان کا تاریخی استقبال کیا تھا۔ اب مگر محض چند لوگ استقبال کے لیے موجود تھے۔ یہ آمد بالکل خفیہ رکھی گئی تھی حتیٰ کہ وزیراعظم کو بھی کوئٹہ سے فون کر کے کہا گیا کہ وہ ایئرپورٹ نہ آئیں۔جہاز کے قریب کرنل جیفری نولز کھڑے تھے۔ انہوں نے دیکھا کہ جب سٹریچر کو سورج کی تیز روشنی کی طرف موڑا گیا تو قائد کا ہاتھ ہلکا سا اوپر اٹھا تاکہ آنکھوں کو دھوپ سے بچا سکیں۔سٹریچر کو ایک فوجی ایمبولینس میں رکھا گیا۔ فاطمہ جناحؒ اور سسٹر ڈنہم اندر بیٹھ گئیں اور قافلہ کراچی کی طرف روانہ ہوا۔ شہر کے باہر ایک مہاجر بستی کے قریب سے گزرتے وقت ایمبولینس خراب ہو گئی۔ ایک گھنٹے سے زائد ڈرائیور انجن کے ساتھ کوششیں کرتا رہا لیکن کامیاب نہ ہوا، بالآخر کراچی سے دوسری ایمبولینس منگوانی پڑی۔سسٹر ڈنہم نے اُس ہولناک لمحے کو یاد کرتے ہوئے کہا:ہم اب بھی مہاجر کیمپ اور کیچڑ کے قریب تھے اور سینکڑوں مکھیاں ہمیں ستا رہی تھیں۔ میں نے ایک گتے کا ٹکڑا لیا اور جناحؒ صاحب کے چہرے پر ہوا دینے لگی تاکہ مکھیوں کو ہٹاؤں۔ کچھ لمحے میں ان کے ساتھ اکیلی رہ گئی تو انہوں نے ایسا اشارہ کیا جو میں کبھی نہیں بھلا سکتی۔ انہوں نے اپنی بانہوں میں سے ایک چادر سے نکالی اور میرے بازو پر رکھ دی۔ وہ کچھ بولے نہیں مگر ان کی آنکھوں میں اتنی گہری شکر گزاری تھی کہ وہ میرے کام کا سب سے بڑا صلہ تھا۔ اُس لمحے ان کی روح آنکھوں میں جھلک رہی تھی۔سفر کا آخری مرحلہ شروع ہوا۔ ایمبولینس پر کوئی پرچم نہیں تھا، اس لیے یہ قافلہ شہر میں سے گزرتا ہوا لوگوں کی نظروں سے اوجھل رہا، جو شام کی ٹھنڈی ہوا میں باہر نکلے ہوئے تھے۔ شام چھ بج کر دس منٹ پر ایمبولینس گورنر ہاؤس پہنچی۔ قائد کو اوپر ان کے کمرے میں پہنچایا گیا۔ ڈاکٹروں اور سسٹر ڈنہم نے دل کو طاقت دینے والی دوا پلانے کی کوشش کی لیکن وہ اتنے کمزور ہو چکے تھے کہ دوا ہونٹوں سے بہہ گئی۔سات بجے چرچ کی گھنٹیاں بجنے لگیں۔ چند منٹ بعد مؤذن مسجدوں کی میناروں پر چڑھے اور اذان دینے لگے:

اللہ اکبر اللہ اکبر

ڈاکٹروں نے بستر کا سرا اونچا کیا تاکہ خون دل تک پہنچے۔ پھر انہوں نے دوا رگ میں لگانی چاہی لیکن رگیں بیٹھ چکی تھیں۔ رات 9 بج کر 50 منٹ پر ڈاکٹر الٰہی بخش نے قریب ہو کر کہا:سر، ہم نے آپ کو طاقت کا انجکشن دیا ہے۔ ان شاء اللہ اس کا اثر ہوگا۔قائداعظمؒ نے آہستہ سا سر ہلایا اور زندگی کا آخری جملہ کہا:نہیں، میں زندہ نہیں رہوں گا۔تیس منٹ بعد وہ دنیا سے رخصت ہو گئے۔رات گئے خبر قرب و جوار سے شہر کے اطراف تک پہنچ گئی۔ ہجوم گورنر ہاؤس کی اونچی سیاہ دیواروں کے گرد جمع ہو گیا۔ شام کی ہوا تھم چکی تھی اور رات بے حد بھاری اور حبس زدہ تھی۔ سفید کپڑوں کو سیاہ اندھیرے میں پھیلا دیا گیا۔ جو لوگ دیوار کے قریب تھے وہ دعائیں پڑھتے جا رہے تھے۔انہی میں ایک شخص آہستہ آہستہ بڑھ رہا تھا جس کے ہاتھ میں کفن اور ایک چھوٹی شیشی تھی۔ کفن آبِ زمزم میں بھیگا ہوا تھا اور شیشی میں روضہ رسول ﷺ پر چھڑکے گئے عطر میں سے کچھ بچا ہوا عطر تھا۔ قائداعظمؒ کو اسی کفن میں لپیٹا گیا، عطر چھڑکا گیا اور پھر انہیں شہر کے قلب میں دفن کیا گیا … اس مٹی میں جس سے وہ بچپن میں سر اٹھا کر وقار سے کھڑے ہوئے تھے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

مطیع اعظم (پہلی قسط )

حج کا موقع تھا، مکہ میں ہر طرف حجاج کرام نظر آ رہے تھے۔ مکہ کی فضائیں ’’لبیک اللھم لبیک‘‘ کی صدائوں سے گونج رہی تھیں۔ اللہ کی وحدانیت کا کلمہ پڑھنے والے، اہم ترین دینی فریضہ ادا کرنے کیلئے بیت اللہ کا طواف کر رہے تھے۔ یہ اموی خلافت کا دور تھا۔ عبدالمالک بن مروان مسلمانوں کے خلیفہ تھے۔

پناہ گاہ

مون گڑیا! سردی بہت بڑھ گئی ہے، ہمیں ایک بار نشیبستان جا کر دیکھنا چاہیے کہ وہاں کا کیا حال ہے۔ مونا لومڑی نے مون گڑیا سے کہا، جو نیلی اونی شال اوڑھے، یخ بستہ موسم میں ہونے والی ہلکی بارش سے لطف اندوز ہو رہی تھی۔ اچھا کیا جو تم نے مجھے یاد دلا دیا، میرا انتظار کرو، میں خالہ جان کو بتا کر ابھی آتی ہوں۔

بچوں کا انسائیکلوپیڈیا

خط استوا(Equator) کے قریب گرمی کیوں ہوتی ہے؟ خط استوا پر اور اس کے قرب و جوار میں واقع ممالک میں گرمی زیاد ہ اس لئے ہو تی ہے کہ سورج سال کے ہر دن سروںکے عین اوپر چمکتا ہے۔خط استوا سے دو رشمال یا جنوب میں واقع ممالک میں موسم بدلتے رہتے ہیں۔گرمی کے بعد سردی کا موسم آتا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ زمین سورج کے گرد ایک جھکے ہوئے محور پر گردش کرتی ہے۔اس طرح بعض علاقے سال کا کچھ حصہ سورج کے قریب اور بعض سورج سے دور رہ کر گزارتے ہیں۔

صحت مند کیسے رہیں؟

٭…روزانہ کم از کم دو بار ہاتھ منہ دھویئے، ناک اور کان بھی صاف کیجئے۔ ٭…روزانہ کم از کم دوبار دانت صاف کیجئے۔

ذرا مسکرائیے

امی (منے سے) :بیٹا دیوار پر نہ چڑھو گر پڑے تو پانی بھی نہ مانگ سکو گے۔ منا: امی! میں پانی پی کر چڑھوں گا۔ ٭٭٭

دلچسپ حقائق

٭… مچھلی کی آنکھیں ہمیشہ کھلی رہتی ہیں کیونکہ اس کے پپوٹے نہیں ہوتے۔ ٭… اُلو وہ واحد پرندہ ہے جو اپنی اوپری پلکیں جھپکتا ہے۔ باقی سارے پرندے اپنی نچلی پلکیں جھپکاتے ہیں۔٭… کیا آپ جانتے ہیں کہ قادوس نامی پرندہ اڑتے اڑتے بھی سو جاتا ہے یا سو سکتا ہے۔