(ن) لیگ پیپلزپارٹی میں تنائو محسن نقوی مشن کامیاب ہوگا؟

تحریر : سلمان غنی


سیلابی صورتحال کے نتیجہ میں پیپلزپارٹی اور حکومت پنجاب کے درمیان پیدا شدہ اختلافات کے خاتمہ کیلئے دونوں بڑی جماعتوں کی لیڈر شپ سرگرم ہے۔ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کے بیانات کو بنیاد بناتے ہوئے پیپلزپارٹی نے پارلیمنٹ کے اجلاسوں کا بائیکاٹ کیا اور مسلم لیگ (ن) کے وزرا پیپلزپارٹی کے ذمہ داران اور پارلیمانی لیڈر کو مناتے اور سمجھاتے نظر آئے لیکن پیپلزپارٹی اپنے مؤقف سے پیچھے ہٹنے کو تیار نہیں۔

 دوسری جانب وزیراعلیٰ مریم نوازمختلف تقاریب میں یہ کہتی نظر آ رہی ہیں کہ میں جو پنجاب کے مفاد میں سمجھتی ہوں وہ کرنا میرا فرض ہے اور اگر پنجاب کے مفادات کو میں یقینی نہیں بنا ئوں گی تو اور کون یہ کام کرے گا ؟وہ اپنے اس مؤقف بارے اتنی یکسو اور سنجیدہ ہیں کہ کوئی ان پر اثر انداز ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اس مؤقف پر کار بند ہیں اور خود مسلم لیگ (ن) کے حلقے مریم نواز کے اس مؤقف کو سراہتے نظر آ رہے ہیں۔ البتہ پیپلزپارٹی اس طرز عمل سے پریشان ہے اور وہ ان پر دبائو بڑھاتی نظر آ رہی ہے۔ ویسے دیکھا جائے تو پنجاب اور سندھ کے سیاسی حالات اور حکومتی پالیسیوں کا جائزہ لیا جائے تو پنجاب میں پیپلزپارٹی کی کوئی اتنی زیادہ اہمیت نہیں رہی کہ  حکومت اس کے دبائو میں آئے، اور نہ ہی سندھ میں مسلم لیگ( ن) کے پاس کچھ ہے کہ کہا جائے کہ یہاں پیپلزپارٹی پر انکا کوئی دبائو ہے، لہٰذا بیان بازی کے اس عمل سے دونوں صوبائی حکومتوں پر تو کوئی خاص اثرات دیکھنے میں نہیں آ رہے البتہ پیپلزپارٹی کا دبائو وفاق میں ضرور اثر انداز ہو رہا ہے۔ پیپلزپارٹی پارلیمنٹ میں اپنی اہمیت و حیثیت کا احساس دلاتے ہوئے مسلم لیگ (ن) پر دبائو ڈال رہی ہے،مگر کوئی بھی وزیراعلیٰ مریم نواز کو پسپائی اختیار کرنے یا پیپلزپارٹی سے معذرت کرنے پر مجبور کرنے کی پوزیشن میں نہیں۔ کیا یہ سلسلہ اسی طرح چلے گا؟ ماہرین تو یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اس صورتحال کا فریقین کو نقصان کم اور فائدہ زیادہ ہے۔

اس لئے کہ اس غیر اعلانیہ تنائو اور ٹکرائو کے باعث اپوزیشن خصوصاً پی ٹی آئی سیاسی اور خصوصاً میڈیا کے محاذ پر پیچھے چلی گئی ہے۔مگروفاق کی سطح پر ایسا کوئی ماحول نہیں کہ اس اختلافی صورتحال سے حکومت کو خطرہ لاحق ہو،  اس کی بڑی وجہ ایوان صدر میں آصف علی زرداری اور وزارت عظمیٰ کے منصب پر شہبازشریف کی موجودگی ہے۔ انہیں خوب معلوم ہے کہ کیسے چلنا ہے اور جب تک پیپلزپارٹی کی جانب سے صدر آصف علی زرداری اور مسلم لیگ( ن) کی جانب سے  بڑے فیصلوں کا اختیار وزیراعظم شہبازشریف کے پاس ہے، کوئی بڑا سیاسی اَپ سیٹ نہیں ہو سکتا ۔ فریقین بخوبی جانتے ہیں کہ ان کے درمیان اختلاف کا نتیجہ کیا ہوگا، لہٰذا سیاسی محاذ پر حکومت پنجاب اور پیپلزپارٹی کے درمیان اختلاف رائے سے سسٹم کو کوئی خطرہ نہیں البتہ یہ اہم سوال ہے کہ سیاسی جنگ کو حدود و قیود کا پابند رکھنے کیلئے صدر آصف زرداری نے وزیر داخلہ محسن نقوی کو جو مشن سوپنا ہے وہ اس حوالے سے اپنا کردار ادا کر پائیں گے؟ محسن نقوی کا انتخاب اس حوالے سے درست ہے کہ وہ تنائو میں کمی لانے کی پوزیشن میں ہیں اور ان کے دو طرفہ تعلقات ہیں، البتہ یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ پیپلزپارٹی کو مسلم لیگ (ن) اور پنجاب کی کارکردگی بارے تحفظات ہیں تو پھر کارکردگی کا مقابلہ کارکردگی سے ہونا چاہئے ۔

سیلاب متاثرین کیلئے حکومت پنجاب نے ریلیف پیکیج کو حتمی شکل دے کر کابینہ کے ذریعہ اس کا اعلان کر دیا ہے۔ سیلاب  میں جاں بحق ہونے والوں کیلئے دس لاکھ، مستقل معذوری پر پانچ لاکھ ، معمولی معذوری پر تین لاکھ کا اعلان کیا گیا جبکہ سیلاب کے نتیجہ میں گھروں کو پہنچنے والے نقصان پر پکے گھر گرنے پر دس لاکھ، جزوی متاثر ہونے والے گھر کو تین لاکھ اور کچا مکان گرنے پر پانچ لاکھ، جزوی طور گرنے پر ڈیڑھ لاکھ کی امداد کی منظوری دی گئی ہے۔ 25فیصد فصل کے نقصان پر بیس ہزار فی ایکڑ جبکہ پنجاب کے 2855موضوعات میں آبیانہ اور زرعی انکم ٹیکس کی معافی کا اصولی فیصلہ بھی کیا گیا ہے۔ سیلاب متاثرین میں رقوم کی تقسیم کا عمل 17اکتوبر سے شروع کیا جا رہا ہے ۔ حکومت پنجاب کی جانب سے سیلاب متاثرین کیلئے ریلیف پیکیج کو حکومت کا عوام دوست اقدام قرار دیا جا سکتا ہے۔ پیکیج کی تقسیم کے عمل کو شفاف بنایا جائے اور متاثرین کو ریلیف ضرور ملنا چاہئے۔ مذکورہ پیکیج کے ذریعہ زراعت کی مضبوطی اور زرعی پیداوار کی بحالی کا ایک موقع بھی مل رہا ہے کیونکہ ماضی میں گندم کی خریداری نہ کرکے حکومت کو دھچکا لگا تھا اور اب کسان کی فصلوں کو پہنچنے والے نقصان کے بعد ان کی پریشانی میں کئی گنا اضافہ ہوا ہے ۔ آج اگر یہ کہا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں کبھی قحط کی صورتحال پیدا نہیں ہوئی اور ملک فاقہ کشی کا شکار نہیں ہوا تو اس کی بڑی وجہ پاکستان کا ایک زرعی ملک ہونا ہے۔

پنجاب میں صفائی کو ممکن بنانے کیلئے’ ستھرا پنجاب‘ کے نام سے شروع کیا جانے والا پراجیکٹ اس حوالے سے اہم ہے کہ اس میں متعلقہ افسران، حکام اور کارکنوں کو ایک سسٹم کا پابند بنایا گیا ہے اور اس پروگرام کے نتائج بھی دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ خود وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز شریف مذکورہ پروگرام کومانیٹر کرتی ہیں۔ حالیہ ہفتہ میں اس ضمن میں ایک بڑی تقریب فورٹریس سٹیڈیم میں منعقد ہوئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں ستھرا پروگرام کے اہلکار اپنی مخصوص وردیوں میں موجود تھے۔ وزیراعلیٰ مریم نواز نے بھی ستھرا پنجاب کی مخصوص جیکٹ پہن رکھی تھی اور انہوں نے ستھرا پنجاب کی جیکٹ پہننے کو اپنے لئے کریڈٹ قرار دیا ۔ان کا کہنا تھا کہ ستھرا پنجاب کے ہیروز ہماری ٹیم کا حصہ ہیں اس لئے کہ انہوں نے ستھرا پنجاب کی تحریک کے نتیجہ میں پنجاب کو صاف ستھرا بنانے اور دکھانے میں اہم کردار ادا کیا  ہے۔ انہوں نے کہا کہ بیٹیاں اپنے گھروں کی صفائی کی ذمہ دار ہیں اور گھروں میں آکر یہ اپنے گھروں کو بناتی اور سجاتی ہیں۔ مریم نوازشریف اپنی حکومت اور اقدامات کو ماضی کے مقابلہ میں مختلف اور نتیجہ خیز بنانے میں سرگرم نظر آتی ہیں اور اس حوالے سے ان کا ستھرا پنجاب پروگرام اہم ہے۔ستھرا پنجاب کو ایک ایسا خواب قرار دیا جاتا ہے جس کو وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے حقیقت کا رنگ دیا ہے۔ یہ سلسلہ مستقل بنیادوں پر چلتا نظر آنا چاہئے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

دہشت گردی آئوٹ، دوستی ناٹ آئوٹ: کرکٹ جیت گئی

پاکستان نے سری لنکا کیخلاف سیریز جیت لی، سہ ملکی سیریز بھی راولپنڈی میں شروع ہوگی

سخاوت کا دریا

سید نا عبداللہ بن جعفررضی اللہ عنہ بڑے معزز اور سخی تھے۔ اللہ کی راہ میں ایسے شخص کی طرح خرچ کرتے جسے فقر و فاقے کا قطعاً خوف نہ ہو۔ یعنی اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے انہیں اس بات کی بالکل فکر نہیں ہوتی تھی کہ وہ خود تنگ دست ہو جائیں گے۔

بڑا نقصان

سلیم صاحب کے دو بیٹے حماد اور ارمان تھے۔ دونوں ہی بہت شرارتی تھے۔ گھر ہو یا اسکول، ان کی شرارتوں کے چرچے ہر جگہ مشہور تھے۔ ہر وقت شرارتیں ہی سوجھتے اور کرتے رہتے۔

خدایا ! ملے علم کی روشنی

خدایا! ملے علم کی روشنیمنور ہو اس سے مری زندگیچلوں نیک رستے پہ میں عمر بھر

کائنات کتنی بڑی ہے؟

ہمارے سورج کو ملکی وے کہکشاں کے گرد ایک چکر مکمل کرنے میں 25کروڑ سال لگتے ہیں۔ ملکی وے کہکشاں تقریباً 1لاکھ نوری سال چوڑی اور 1ہزار نوری سال موٹی ہے۔

ذرا مسکرائیے

ایک آدمی نوکری کی تلاش میں ایک شخص کے پاس پہنچا۔ اس شخص نے پوچھا: ’’کھانا پکانا جانتے ہو؟‘‘