پنجاب کارڈ!

تحریر : عدیل وڑائچ


وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے سندھ حکومت پر تنقید کا سلسلہ رک نہیں پایا۔ مسلم لیگ (ن )اور پیپلز پارٹی کے بڑے اس معاملے میں بیچ بچاؤ کرانے کے لیے پس پردہ کوششیں کر رہے ہیں مگر تاحال کھل کر سامنے نہیں آئے۔ مریم نواز کا پیپلز پارٹی اور سندھ حکومت پر غصہ اترنے کا نام نہیں لے رہا۔

 اس سیاسی جنگ میں( ن) لیگ اور پیپلز پارٹی کی حکمت عملی بھی مختلف ہے۔ پیپلز پارٹی او ر اس کے قریبی حلقوں کی جانب سے تاثر دیا جارہاہے کہ مریم نواز کی جانب سے اٹھایا گیا یہ جارحانہ قدم پیپلز پارٹی کے خلاف نہیں بلکہ اُن کے چچا، وزیر اعظم پاکستان کے خلاف ہے کیونکہ پیپلز پارٹی کو ناراض کرنے کا مطلب (ن) لیگ کی وفاقی حکومت کے لیے مشکلات کھڑی کرنا ہے۔ مگر کیا واقعی ایسا ہے ؟ 

 صدر آصف علی زرداری نے بیرون ملک دورے سے واپس آتے ہی سب سے پہلے وزیر داخلہ محسن نقوی کو کراچی طلب کیا اور صورتحال پر جانکاری حاصل کرنے کے بعد وفاقی حکومت کے لیے پیغام بھجوایا۔ صدر آصف علی زرداری نے مریم نواز کی جانب سے سندھ حکومت سے متعلق بیان بازی پر تشویش کا اظہار کیااور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں کو جوابی بیانات کے معاملے میں محتاط رہنے کی ہدایت کی۔ آئندہ چند گھنٹوں میں وزیر داخلہ محسن نقوی صدر کا پیغام لے کر وزیر اعظم سے ملیں گے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے تحفظات سے آگاہ کریں گے۔ صدر مملکت نے وزیر داخلہ کو کہا کہ وہ وفاقی سطح پر ہم آہنگی بڑھانے اور سیاسی کشیدگی کم کرنے کیلئے فعال کردار ادا کریں۔ دونوں جماعتوں کے رہنماؤں کے درمیان ان ڈائریکٹ رابطے بحال ہو چکے ہیں، محسن نقوی دونوں جماعتوں کے درمیان پل کا کر دار ادا کر رہے ہیں۔وزیراعظم شہباز خود بھی کشیدگی میں کمی کے لیے متحرک ہیں۔ انہوں نے اعلیٰ سطحی وفد تشکیل دیا ہے جس میں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار، رانا ثنااللہ اور سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق شامل ہیں۔وفد کراچی روانہ ہو چکا ہے جہاں صدر مملکت آصف علی زرداری سے ملاقات کرے گا۔ اس بات کا بھی قوی امکان ہے کہ وزیر اعظم شہباز شریف ایک دو روز میں پیپلز پارٹی کی لیڈر شپ سے ملیں گے، مگر خود مسلم لیگ( ن) کی قیادت بھی اس معاملے کو چیلنج سمجھتی ہے کہ مریم نواز کو روکنا یا ان کی ایما پر کوئی کٹمنٹ کرنا آسان نہیں۔ وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر داخلہ محسن نقوی دونوں کے لیے اس معاملے پر مریم نواز کو قائل کرنا اتنا آسان ہوتا تو یہ معاملہ ابھی تک حل ہو چکا ہوتا۔ 

 پیپلز پارٹی نے مستقبل میں کبھی اقتدار میں آنا ہے تو پنجاب میں سیاسی اثر ورسوخ کے بغیر یہ ممکن دکھائی نہیں دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ پنجاب خصوصاً جنوبی پنجاب میں پیپلز پارٹی اپنی واپسی چاہتی ہے بلکہ موجودہ وفاقی حکومت کو سپورٹ کے بدلے اپنے حلقوں میں اختیارات بھی اس کا دیرینہ مطالبہ ہے۔ مگرپنجاب میں پیپلز پارٹی تو دور کی بات خود (ن) لیگ کے اپنی ایم این ایز اور ایم پی ایز کو اپنے حلقوں میں اختیارات کے مسائل کا سامنا ہے۔ پنجاب کے حلقوں میں بیوروکریسی ان اراکین قومی و صوبائی اسمبلی کی بجائے صرف وزیر اعلیٰ کی ٹیم کو رپورٹ کرتی ہے۔

پنجاب میں بیوروکریسی کے تقرر و تبادلوں کے معاملے پر پیپلز پارٹی اور پنجاب حکومت کے درمیاں ماضی قریب میں بھی اختلافات سامنے آئے جس کے باعث سیاسی درجہ حرارت چند ماہ قبل بھی اوپر جاتا دکھائی دیا۔ اب سیلاب کی صورتحال میں جب بلاول بھٹو زرداری نے جنوبی پنجاب کے علاقوں کے دورے کے دوران متاثرین کی مدد بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے ذریعے کرنے کا مشورہ دیا تو مریم نواز نے اس بات کو پنجاب کی پالیسیوں میں مداخلت قرار دیا اور اس کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان کشیدگی بڑھتی چلی گئی۔مریم نواز کا یہ غصہ ایک سیاسی کارڈ بھی ہے کیونکہ مسلم لیگ( ن) کے کچھ حلقوں کے خیال میں پیپلز پارٹی کی قیادت پر تنقید شاید مریم نواز کو مقبول بھی کر رہی ہے ۔یہی وجہ ہے کہ یہ معاملہ سیاسی لڑائی سے زیادہ پنجاب کارڈ کے طور پر بھی دیکھا جا رہاہے۔ 

دونوں جماعتوں کے درمیان اس کشیدگی میں اگر حکمت عملی دیکھی جائے تو پیپلز پارٹی دوسرے درجے کی قیادت سے مریم  نواز کو جواب دلوا رہی ہے، ساتھ ہی ساتھ کچھ ہم خیال لوگوں کے ذریعے بھی مریم نواز سے متعلق مبینہ خبریں اور بیانات سامنے آرہے ہیں۔ مسلم لیگ( ن) کی جانب سے مریم نواز خود فرنٹ فٹ پر ہیں جبکہ پیپلز پارٹی کی جانب سے شرجیل میمن  اور سینیٹر پلوشہ سمیت دیگر رہنما پریس کانفرنسیں کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ پیپلز پارٹی اس تاثر کو تقویت دے رہی ہے کہ مریم نواز وفاقی حکومت کو مشکل میں ڈال رہی ہیں۔ پاکستان پیپلز پارٹی نے مریم نواز سے معافی کا مطالبہ کیا جو انہوں نے مسترد کرتے ہوئے کہا کہ وہ پنجاب کے حقوق کی بات کرتی رہیں گی اور اس کے لیے وہ کسی سے معافی نہیں مانگیں گی۔ اپنے چچا کی حکومت کے لیے مسائل پیدا کرنے کے الزام کاجواب دیتے ہوئے وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ مخالفین کو تنقید کے لیے کچھ اور نہیں ملتا تو (ن) میں سے( ش) نکالتے ہیں، اب( ش) میں سے (میم) نکال رہے ہیں۔ ساتھ ہی انہوں نے وضاحت کی کہ ن م اور ش سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں یعنی ان میں کوئی اختلافات نہیں اور پالیسی ایک ہے۔ مریم نواز مسلسل پرفارمنس کا طعنہ دے رہی ہیں، چند روز قبل انہوں نے ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ جب ملک کے تمام صوبوں کو یکساں وسائل مل رہے ہیں تو پنجاب اور باقی صوبوں میں فرق کیوں ہے ؟ باقی صوبوں کو ملنے والا پیسہ کہا ں جاتا ہے؟ پیپلز پارٹی نے مریم نواز کے رویے کے خلاف پارلیمنٹ کے ایوانوں سے احتجاجی واک آؤٹ بھی کیا مگر تاحال کچھ بن نہیں پایا۔ 

ایسی صورتحال میں جب( ن) لیگ کی حکومت پیپلز پارٹی کے اراکین کے ووٹوں کی سپورٹ سے بنی ہے کیا پیپلز پارٹی حکومت سے نکلنے کا سوچ رہی ہے ؟ دونوں جماعتوں کے ذمہ داران یہ سمجھتے ہیں کہ ابھی ایسا کرنے کا وقت نہیں آیا ۔ پاکستان پیپلز پارٹی شہباز حکومت سے الگ ہو کر خود کو اور نظام کو مشکلات سے دوچار کرنے کی متحمل نہیں ہو سکتی ۔مگر حکومت کو پھر بھی پیپلز پارٹی کے نمبرز کی ضرورت ہے کیونکہ آنے والے کچھ عرصے میں ستائیسویں آئینی ترمیم کی تیاریاں ہو رہی ہیں اور پیپلز پارٹی کی مدد کے بغیر حکومت یہ ترمیم منظور نہیں کروا سکتی۔ حکومت کو اہم قانون سازیوں کے لیے پیپلز پارٹی کی سپورٹ کی ضرورت رہے گی۔ اسی وجہ سے قوی امکان ہے کہ آئندہ ہفتے میں دونوں پارٹیوں کے بڑے مل بیٹھیں اور معاملات کو خوش اسلوبی سے حل کرنے کے لیے براہ راست کردار ادا کریں۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔