مُحاوروں کی دُنیا

تحریر : نعیم انصر ہاشمی(جھنگ )


مسٹر واہ واہ کوئی مصنف یا ادیب تو نہیں لیکن اِدھر اُدھر کی خبریں خوب رکھتے ہیں۔ ایک دن کہیں سے چند محاورے پڑھ کر اپنے مخصوص انداز سے چلتے ہوئے ہمیشہ کی طرح اپنے دونوں ہاتھ سر سے بلند کئے ہوئے میرے پاس آن دھمکے اور لگے محاورات کی ’’ دانش بگھارنے‘‘۔

 مسٹر واہ واہ کہنے لگے آپ ہمیشہ اپنی قابلیت کا ’’رعب جھاڑتے رہتے ہیں‘‘ آج میں آپ کی ’’بیل منڈھے نہیں چڑھنے‘‘ دوں گا۔ آپ کے سامنے ایسے محاورات استعمال کروں گا کہ ’’ ششدرہ جائیں گے‘‘۔جواباً میں نے بھی کہا ’’ہاتھ کنگن کو آر سی کیا‘‘۔ مسٹر واہ واہ فوراً گویا ہوئے بلکہ دھمکی آمیز لہجہ میں بولے ’’ جو گرجتے ہیں وہ برستے نہیں‘‘۔ہم نے اپنا دفاع کرتے ہوئے کہا ’’ ہماری بلی اور ہمیں میائوں‘‘ ۔فرمانے لگے محترم ’’اِن تلوں میں تیل نہیں‘‘ ۔ہم نے سوچا کہ مقابلہ بڑا سخت رہے گا اور آج ’’ گھمسان کا رَن پڑے گا‘‘۔ 

مسٹر واہ واہ نے بھی بڑھ کر حملہ کیا ’’ ہم نے بھی چوڑیاں نہیں پہن رکھیں‘‘ یقین نہ آئے تو ’’ دو دو ہاتھ کرکے دیکھ لیں‘‘۔ اب تو مسٹر واہ واہ ایک جملہ میں دو دو محاورے استعمال کرنا شروع ہو گئے۔ تھوڑی دیر کیلئے ہم بھی ’’ ڈگمگا گئے‘‘ بہر حال مسٹر واہ واہ کے سامنے ’’ بھرم رکھنا‘‘ مقصود تھا۔ مسٹر واہ واہ نے مزید ’’ لقمہ دیتے‘‘ ہوئے کہا ’’ اب کیوں کھسیانی بلی کی طرح کھمبا نوچنے لگے‘‘ ۔ہم بھی جھٹ بولے ’’میاں چھری تلے دم تو لے لو‘‘،ابھی ’’ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی‘‘ ہو جاتا ہے۔ مسٹرواہ واہ بھی اپنے ’’ ترکش میں جتنے تیر‘‘ تھے آزمانے لگے آپ کو بھی ’’تگنی کا ناچ نہ نچوایا‘‘ تو ’’ میرا نام بدل دینا‘‘۔ ہم نے بھی جواباً کہا ’’ وہ دن گئے جب خلیل میاں فاختہ اڑایا کرتے تھے‘‘۔

 مسٹر واہ واہ شاید بھر پور تیاری سے تھے بولے ’’ بھیگی بلی‘‘ کیون بن گئے‘‘۔ ہم نے کہا اتنی آسانی سے تمہاری ’’ دال نہیں گلنے دیں گے‘‘۔ مسٹر اہ واہ گویا ہوئیٖ! ہاں جی’’ اوکھلی میں سر دیا ہے تو موصلوں سے کیا ڈر‘‘۔ اب ہم کافی تھکان محسوس کرنے لگے۔ اُدھر مسٹر واہ واہ کے ’’ہوش ٹھکانے آ چکے تھے‘‘ اس لئے ہم  دونوں نے ’’ امن کے جھنڈے‘‘ لہرا دیئے!۔

ساتھیو! آپ نے اوپر چند محاورے پڑھے۔ اپنے استاد صاحبان سے اس بارے میں گفتگو کیجئے اور ان محاورات کو سمجھیے،یہ محاورے اردو زبان کی جان ہیں۔ اردو پڑھیں اردو جانیں کیوں کہ اردو ہماری قومی زبان اور ہمارے وطن کی پہچان ہے۔ اپنے گھروں میں اردو بولتے ہیں لہٰذا اردو زبان اور محاوروں کے بارے میں والدین اور اپنے سکول کے استاد کرام سے پوچھیں۔ ہم پاکستانی ہیں اور اردو پاکستان کی قومی زبان ہے لہٰذا اردو بولنے لکھنے میں شرمندگی محسوس نہ کریں تاہم انگریزی زبان سمیت دیگر علاقائی زبانیں بھی ایک حقیقت ہیں، انہیں بھی جانئے لیکن قومی زبان اردو کو فروغ دیں۔ اردو پاکستان کی پہچان ہے۔

 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں

پاکستان کرکٹ:کامیابیوں کاسفر

نومبر کا مہینہ پاکستان کرکٹ کیلئے غیر معمولی اور یادگار رہا

35ویں نیشنل گیمز:میلہ کراچی میں سج گیا

13 دسمبر تک جاری رہنے والی گیمزمیں مردوں کے 32اور خواتین کے 29 کھیلوں میں مقابلے ہوں گے

کنجوس کا گھڑا

کسی گاؤں میں ایک بڑی حویلی تھی جس میں شیخو نامی ایک بوڑھا آدمی رہتا تھا۔ شیخو بہت ہی کنجوس تھا۔ اس کی کنجوسی کے قصے پورے گاؤں میں مشہور تھے۔ وہ ایک ایک پائی بچا کر رکھتا تھا اور خرچ کرتے ہوئے اس کی جان نکلتی تھی۔ اس کے کپڑے پھٹے پرانے ہوتے تھے، کھانا وہ بہت کم اور سستا کھاتا تھا۔

خادمِ خاص (تیسری قسط )

حضرت انس رضی اللہ عنہ بہترین تیر انداز تھے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ ان کا تیر راہ سے بھٹکا ہو، وہ ہمیشہ نشانے پر لگتا تھا۔ انہوں نے ستائیس جنگوں میں حصہ لیا۔ تُستَر کی جنگ میں آپ ؓ ہی نے ہر مزان کو پکڑ کر حضرت عمرؓ کی خدمت میں پیش کیا تھا اور ہر مزان نے اس موقع پر اسلام قبول کر لیا تھا۔

فوقی نے اک چوزہ پالا

فوقی نے اک چوزہ پالا چوں چوں چوں چوں کرنے والا اس کی خاطر ڈربہ بنایا

’’میں نہیں جانتا‘‘

ایک صاحب نے اپنے بیٹے کا ٹیسٹ لینا چاہا۔ فارسی کی کتاب الٹ پلٹ کرتے ہوئے وہ بیٹے سے بولے ’’بتاؤ ’’نمید انم‘‘ کے معنی کیا ہوتے ہیں؟‘‘۔