خود پسندی ، خوشامد و تکبر کی ممانعت
جس کے دل میں ذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا(صحیح مسلم) ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بچو کیونکہ یہ توذبح کرنے کے مترادف ہے(سنن ابن ماجہ)
اسلام میں خودپسندی کو ناپسندیدگی کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ اس کی جہاں ممانعت وارد ہوئی ہے، وہیں کسی کے سامنے اس کی تعریف کرنے سے بھی منع کیا گیا ہے کہ کہیں شیطان اس بندے کو مغرور، متکبر نہ بنادے۔ اسلام ایک انسان کی ہر معاملے میں بہترین رہنمائی کرنے والا دین ہے۔ اسلام نہیں چاہتا کہ ایک انسان اپنی حدود کو پار کرے کہ جس کی وجہ سے اس کی زندگی میں خرابی آئے۔ اسلام نے ہر معاملے میں بہترین رہنمائے اصول دیئے ہیں، اگر ان اصولوں کو فراموش کرکے ان کے خلاف اقدام کئے جائیں تو معاشرے میں بگاڑپیدا ہو جاتا ہے۔
انہی اصولوں میں سے ایک اصول ہے کسی انسان کے سامنے اس کی تعریفوں کے پل باندھنا بندے کو ہلاکت کے قریب پہنچا دیتا ہے۔ انسان کے اندر تکبر کا بیج بو دیتا ہے اور جس انسان میں تکبر آگیا تو سمجھ لو کہ اس کی آخرت تباہ ہو گئی۔ ابلیس،شیطان بھی اسی تکبر کی وجہ سے برباد ہوا تھا۔ تکبر اللہ کو ناپسند ہے۔ اس لئے اسلام نے اس تکبر کو ایک انسان کے اندر آنے کے راستے بند کرنے کی طرف توجہ دلائی ہے۔ لوگوں! ہم نے تم سب کو ایک (ہی) مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور اس لئے کہ تم آپس میں ایک دوسرے کو پہچانو کنبے اور قبیلے بنا دیئے ہیں، اللہ کے نزدیک تم سب میں باعزت وہ ہے جو سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے، یقین مانو کہ اللہ دانا اور باخبر ہے(سورۃ الحجرات:13)۔
دوسری جگہ ارشاد ربانی ہے: ’’تمہارے پاس جتنی بھی نعمتیں ہیں سب اسی کی دی ہوئی ہیں، اب بھی جب تمہیں کوئی مصیبت پیش آجائے تو اسی کی طرف نالہ و فریاد کرتے ہو‘‘(النحل:53)۔
’’آپ کہہ دیجئے، اے اللہ! اے تمام جہان کے مالک! تو جسے چاہے بادشاہی دے اور جس سے چاہے سلطنت چھین لے اور تو جسے چاہے عزت دے اورجسے چاہے ذلت دے، تیرے ہی ہاتھ میں سب بھلائیاں ہیں، بے شک تو ہر چیز پر قادر ہے۔(آل عمران:26)۔
اس حوالے سے چند احدیث یہاں پیش کی جا رہی ہیں۔نبی کریم ﷺ نے ایک شخص کو دوسرے کی تعریف کرتے ہوئے سنا جو کہ اس کی مدح سرائی میں مبالغہ کررہا تھا۔آپﷺ نے فرمایا: تم نے اس کو ہلاک کردیا، تم نے اس کی کمر توڑ دی(صحیح مسلم:3001)۔
سیدنا حارثہ بن وھب ؓبیان کرتے ہیں کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: ’’کیا میں تمہیں جنت والوں کی خبر نہ دوں۔ہرکمزور و تواضع کرنے والا اگر وہ(اللہ کا نام لے کر) قسم کھالے تو اللہ اس کی قسم کوپورا کردے، کیا میں تمہیں دوزخ والوں کی خبر نہ دوں، ہر تندخو، اکڑ کر چلنے والامتکبر ہے‘‘(بخاری:4918)
سیدنا عبداللہ بن مسعودؓسے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:جس کے دل میںذرہ برابر بھی تکبر ہوگا وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا(صحیح مسلم:147)۔
حضرت معاویہؓ بیان فرماتے ہیں کہ میں نے رسول اللہﷺ کو یہ ارشاد فرماتے سنا ’’ ایک دوسرے کی خوشامد اور بے جا تعریف سے بچو کیونکہ یہ توذبح کرنے کے مترادف ہے۔(سنن ابن ماجہ)۔
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا دوسرا شخص جس نے علم حاصل کیا اور اسے لوگوں کو سکھایا اور قرآن کریم پڑھا اسے لایا جائے گا اور اسے اللہ کی نعمتیں دکھائی جائیں گی وہ انہیں پہچان لے گا تو اللہ فرمائے گا تو نے ان نعمتوں کے ہوتے ہوئے کیا عمل کیا، وہ کہے گا میں نے علم حاصل کیا پھر اسے دوسرں کو سکھایا اور تیری رضا کیلئے قرآن مجید پڑھا، اللہ فرمائے گا تو نے جھوٹ کہا تو نے علم اس لئے حاصل کیا کہ تجھے عالم کہا جائے اور قرآن اس لئے پڑھا کہ تجھے قاری کہا جائے، سو یہ کہا جا چکا پھر حکم دیا جائے گا کہ اسے منہ کے بل گھسیٹ کر جہنم میں ڈال دیا جائے گا(صحیح مسلم)۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ مجھ سے نبی کریم ﷺ کا یہ فرمان بیان کیا گیا لیکن میں نے اسے خود نہیں سنا کہ تم میں ایک قوم ایسی آئے گی جو عبادت کرے گی اور دینداری پر ہوگی، حتیٰ کہ لوگ ان کی کثرت عبادت پر تعجب کیا کریں گے اور وہ خودپسندی میں مبتلا ہوں گے، وہ لوگ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر کمان سے نکل جاتا ہے۔(مسند احمد)
حضرت ابو معمر ؓبیان کرتے ہیں کہ ایک شخص امراء میں سے کسی کی خوشامد کرنے لگا تو حضرت مقداد ؓ اس پر مٹی ڈالنے لگے اور فرمایا ہمیں نبی کریم ﷺنے یہی حکم دیا ہے کہ ہم خوشامد کرنے والوں کے چہروں پر مٹی ڈال دیں (صحیح مسلم)۔
نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کوئی آدمی پوشاک پہن کر خود پسندی میں اپنی زلفوں کو سنوارتا ہوا چلا جا رہا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اسے زمین میں دھنسا دیا، اب وہ قیامت تک زمین میں دھنستا ہی جائے گا(صحیح بخاری)۔
حضرت انس بن مالک ؓ سے مروی ہے کہ نبی کریمﷺنے ارشا د فرمایا ’’اگر تم گناہوں کے مرتکب نہ بھی ہو ئے تب بھی مجھے اس سے بڑھ کر تم پر جس چیز کا خوف ہے وہ خود پسندی اور خود بینی ہے (بہیقی)۔
حضرت ابو بکرصدیق ؓسے مروی ہے کہ نبی کریمﷺ کے سامنے ایک آدمی دوسرے کی خوشامد کر رہا تھا۔حضور نبی کریم ﷺ نے فرمایا تم ہلاک ہو جائو، تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی، تم نے اپنے ساتھی کی گردن کاٹ دی۔آپﷺ نے بار بار یہی فرمایا: اس کے بعد نبی کریمﷺ نے ارشاد فرمایا کسی کو اپنے بھائی کی تعریف کرنی ہی پڑے تو اسے کہنا چاہیے کہ میرے خیال میں فلاں آدمی ایسا ہے اور اللہ اس کا حساب لینے والا ہے، اور میں اللہ تعالیٰ کے مقابلے میں کسی کو بے عیب نہیں کہہ سکتا۔اگر اس کے متعلق کچھ جانتا ہو تو کہے کہ میرے خیال میں وہ ایسا ایسا ہے۔ (متفق علیہ)
حضرت سیدنا صدیق اکبر ؓ تکبر اور خود پسندی سے بہت زیادہ ڈرتے تھے جب لوگ آپؓ کی تعریف کرتے تو آپؓ دعا مانگتے اے اللہ جو کچھ یہ میرے بارے میں کہتے ہیں مجھے اس سے بہتر بنا دے جو کچھ یہ نہیں جانتے میرا وہ عمل بخش دے (تنبیہ المغترین)۔
انسان تب ہی خود پسندی سے بچ سکتا ہے جب ذہن میں یہ رکھے کہ جو کچھ نعمتوں،صلاحیتوں وغیرہ کی شکل میں میرے پاس ہیں سب کچھ اللہ تعالیٰ کی عطا ہے، اورخودپسندی سے بچنے کیلئے تواضع عاجزی و انکساری اختیار کرنی چاہئے۔خالق کائنات سے دعا ہے کہ ہمیں غروروخود پسندی کے مرض سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین