سیرت طیبہ میں اختلافات کا پائیدار حل
عدمِ برداشت ،عدم ِ رواداری وتحمل کی روش نے لاکھوں انسانو ں کو موت کی بھینٹ چڑھادیاہے’’اے اہل کتاب!آؤ ایک ایسی مشترکہ بات پر جمع ہو جائیں کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے، اور ہم اس کی ذات و صفات خاصہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے، اور اللہ کے علاوہ کوئی کسی اور کو رب نہ مانے‘‘(سورہ آل عمران )تو حید ہی ایسی رسی ہے جس کو تھامنے سے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں ،اس خدائی اصول کی تشریح ہر شخص اپنی طرف سے نہ کر ے ورنہ مختلف تشریحات کاملغوبہ نئی الجھن میں ڈال دے گا
اسلام جینے سے پہلے اور مرنے کے بعد کے حالات کی جہاں خبر دیتاہے، وہاں دنیا میں ہر عمر کے حساب سے زند گی گزارنے کے انسانی، فطری، اخلاقی، قومی و ملی قوانین بھی دیتا ہے۔ اسلام، اتحاد و اتفاق کاسب سے بڑا نا صرف علمبردار ہے بلکہ گزشتہ ادوار میں عملاً نافذالعمل مذہب بھی رہا ہے۔
اسلام پو ری روئے زمین پر علمی ،عملی،قومی اور ملی فسادات کوختم کرکے امن و آشتی،انصاف وعدل، راحت و چین کے ساتھ مکمل آزادی کا حق دیتاہے۔ یہ محض تجاویزپیش کرنے پر اکتفا نہیں کرتا بلکہ عملی زندگی میں اپنا کردار اداکرتاہے۔ سابقہ اقوام کے عروج وزوال کی محض داستانیں ہی نہیں سناتابلکہ ان سے سبق اور عبرت حاصل کرنے کیلئے دعوتِ فکر دیتا ہے۔انسان کارشتہ خالق سے جوڑے رکھنے کیلئے عقائد و نظریات اور عبادات کا حکم دیتا ہے۔
انسان کارشتہ بحیثیت امتی نبی کے ساتھ جوڑے رکھنے کیلئے ایمان بالنبی اور اطاعت نبوی کاحکم دیتاہے۔انسان کارشتہ انسان سے صحیح طور پر جوڑے رکھنے کیلئے اخلاقیات اور حسن سلوک کا حکم دیتا ہے۔ انسان کا رشتہ معاشرے سے جوڑے رکھنے کیلئے عمدہ معاشرت کا حکم دیتا ہے۔ انسان کارشتہ ضروریات زندگی سے جوڑے رکھنے کیلئے صاف شفاف معاملات کاحکم دیتا ہے۔
اگر مذکورہ بالاتمام فطری او ر انسانی اقدار کو اسلام کے احکام کے مطابق تسلیم کر کے عمل کیا جائے توکر ہِ ارض پر انسانوں کانہیں انسانیت کا راج ہو گا۔لیکن زمینی حقائق یہ بتلاتے ہیں کہ جب تک اسلامی دستور العمل عملاً نافذ رہا تب تک تو یہ دنیا امن کاگہوراہ تھی اور جب خداتعالیٰ کے آفاقی احکامات کے بجائے انسانوں کی تدبیر پر اصول ہائے جہاں بانی کی بنیاد رکھی گئی تو بد امنی، لاقانونیت، فتنے، معاصی، خود سری، خود غرضی اور دیگر شیطانی محرکات نے جنم لیا۔ نتیجہ آج انسان اتحاد کے بجائے اختلافات و افتراق کی دوزخ میں جل رہاہے۔
مذہبی، سیاسی، قومی، خاندانی اور نسلی اختلافات نے اس کی روح آزادی کو نہ صرف زخمی کیا بلکہ اس کے سارے نظام کو عالمی سطح پر مفلو ج اور بیکار کر دیا ہے۔ محض انسانی تدابیر کی کوکھ سے جن سانحات وحادثات نے جنم لیا پھر اسی کو بار بار آزمانے کی مسلسل روش نے انسان کو آج تک امن و آزادی اور سکون و راحت نصیب نہیں ہونے دی۔ ؎
نظامِ عالم پر متعدد انسانی تجربات کو آزمایا گیا، قیام ِامن کی تجاویز و آرا پر سنجیدگی سے کئی بار غور کیا گیا، نئے قوانین بھی وضع کیے گئے لیکن یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ بنیادی خامیوں کو دورکیے بغیر امن کے خواب کو شرمندہ ِتعبیر کرناخود ایک خواب بن گیا جبکہ اسلام سارے عالم میں قیامِ امن کا محض مدعی ہی نہیں بلکہ حقیقتاًنظام ِ امن نافذ بھی کر چکا ہے۔ جس کے فوائد و ثمرات اپنے پرائے، دوست دشمن، مسلم و کافر سبھی کے ہاں تسلیم شدہ ہیں۔انسانی تدابیر سے پیداہونے والے اس وقت جتنے بھی اختلافات ہیں بنیادی طور پر مندرجہ ذیل اختلافات میں منحصر ہیں۔ مذہبی، قومی، سیاسی، نسلی، علاقائی، خاندانی اختلافات ان سب کا حل ہمیں رسول اکرمﷺ کے اسوہِ حسنہ اور آپﷺ کی سیرت ِطیبہ میں ملتاہے۔
دور ِ حاضر میں باہمی اختلافات میں سے جو سب سے بڑا اختلاف ،افتر اق و انتشار بلکہ جنگ و جدال قتل و غارت اور منافر ت و دشمنی کا باعث ہے وہ یہی مذہبی اختلاف ہیں۔ایک مذہب کے لو گ دوسرے مذاہب کے پیروکاروں کیلئے تنگ دل بلکہ سخت دل ہیں۔ مذہب کے نام پر کئی خاندانو ں کے خاندان کئی نسلوں کی نسلیں کئی قومو ں کی قومیں کئی ملکوں کے ملک صفحہ ہستی سے مٹ گئے۔
عدمِ برداشت ،عدم ِ رواداری وتحمل کی روش نے لاکھوں انسانوں کو موت کی بھینٹ چٹرھا دیا ہے۔ اس وقت بھی بین الاقوامی سطح پر باہمی مصالحت،اتحاد واتفاق قائم کرنے کیلئے مختلف منصوبوں پرعمل درآمد کرانے کیلئے کئی ممالک، ادارے ، جماعتیں اور تنظیمیں اپنا کردار دکھانے میں سر توڑ محنت کر رہی ہیں۔ مذاکرات، ڈائیلاگ ، مصالحت اور عسکری قوت کے زور پر الغرض تمام اسباب کو بارہا بروئے کار لایا بھی گیا لیکن حالات جوں کے توں ہیں۔
دنیامیں بسنے والی مختلف اقوام کے مزاجی اختلافا ت اسی گتھی کو مزید الجھا رہے ہیں عقلی طور پر جتنی صو رتیں بظاہر ممکن نظر آرہی ہیں حقیقت میں اختلافات کو ختم کرنے کیلئے ناممکن ہیں۔ مثلاً کسی فرد کے بارے میں یہ تصور کر لیا جائے کہ فلاں شخصیت پر تمام اقوام اور افراد متفق ہو جائیں اور اسی ایک کی بات مان کر اختلافات کو ختم کر لیا جائے۔ایسے شخص کیلئے دو بنیادی خوبیوں کاہو نا بہت ضروری ہے۔(1) اس کاعلم وسیع تر ہو اور وہ تمام اقوام کے فطری جذبات اور ضروریات اور اغراض سے واقف ہو۔ (2)لوگوں کے معاملات کی اصلاح بھی کرسکتاہو۔
یہ صورت عقلاً تو ممکن ہو سکتی ہے لیکن فی الواقع بہر طور ناممکن ہے کیونکہ انسانوں کے مزاج میں تفاوت ہے۔ یہ تفاوت ان کو ایک مرکزی نقطے پر متحد نہیں ہونے دیتا۔دوسری صورت یہ بھی عقلی طور پر ممکن ہے کہ کسی ادارے کو تمام اقوام متفقہ طور پر حاکمیت سو نپ دیں پھر اس ادارے کے ہر حکم کو قبو ل بھی کریں لیکن فی الواقع اس میں بھی عمل کرنا،ناممکن ہے۔ کیونکہ ادارے میں جس قوم کے افرادکی تعداد زیادہ ہو گی وہی قو م اس ادارے سے اپنے مفادا ت سمیٹے گی، باقی اقوام پھر محرومی اور ناانصافی کا شکار ہوکر رہ جائیں گی۔
اس حوالے سے اسلام کی تعلیمات سیرت ِطیبہ کی روشنی میں یہ ہیں کہ کسی شخص یا ادارہ، جماعت یا تنظیم کی حاکمیت، تسلیم کرنے کے بحائے ان کے خالق ِ حقیقی کی حاکمیت کو تسلیم کیاجائے۔ جس کے ہر فیصلے پرمن وعن عمل کیاجائے۔ نوع انسانیت کاخالق وہی ہے، وہی ان کی تمام ضروریات کوبخوبی سن سکتاہے،جان سکتاہے اور ان کو حل بھی کر سکتا ہے۔ اس میں ظلم وجو ر کاشائبہ بھی نہیں اورمفاد پرستی کا تصور بھی نہیں۔ چونکہ وہ تمام مخلوقات کا خالق ہے، اس لیے عقل کا مقتضاء بھی یہی ہے کہ صرف اسی ہی کو حاکم تسلیم کیا جائے۔
اسی ممکنہ و مشتر کہ پلیٹ فارم پر اللہ کے آخر ی نبیﷺ نے اہل کتاب کوخطاب کیا: ’’اے اہل کتاب!آؤ ایک ایسی مشترکہ بات پر جمع ہو جائیں کہ ہم اللہ کے علاوہ کسی اور کو معبود نہیں مانیں گے اور ہم اس کی ذات و صفات خاصہ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے اور اللہ کے علاوہ کوئی کسی اور کو رب نہ مانے۔ اگر وہ اس عہد و پیمان سے پھر گئے تو تم کہہ دو کہ گواہ رہو ہم تو ماننے والے ہیں۔(سورہ آل عمران )
اعلان فرمایا:اللہ کی رسی(قرآن ، توحید )کو مضبوطی سے تھامو اور باہم افتراق و انتشار کا شکار نہ بنو۔(سورہ آل عمرا ن)
تو حید ہی ایسی رسی ہے جس کو تھامنے سے اختلافات ختم ہو سکتے ہیں لیکن اس مقام پر مندرجہ ذیل تفصیل کو بطور خاص ملحوظ رکھا جائے ورنہ اختلافات کے خاتمہ کاتصور ماند پڑ جائے گا۔
اس خدائی اصول کی تشریح ہر شخص اپنی طرف سے نہ کر ے ورنہ مختلف تشریحات کاملغوبہ نئی الجھن میں ڈال دے گا۔ بلکہ اس کی تشریح وہ معتبر کہلائے گی جو اس دل سے زبان کے راستے ظاہر ہو جس دل پر یہ اصول نازل کیا گیا اور جس کی زبان مبارک کو یہ اعزازسو نپا گیا ہے کہ قرآن آپﷺ پر نازل ہو گا اور اس کی تشریح آپ ﷺلوگوں کو سمجھائیں چنانچہ ’’وانزلنا الیک الذکر لتبین للناس‘‘ اس لیے قرآن کاوہ مطلب مراد لیا جائے جومطلب اللہ کے برحق نبی کریم ﷺنے ارشاد فرمایا ہے اور نبی ﷺ کے فرمان کا وہ مطلب مراد لیا جائے جو صحابہ کرام ؓ نے بیان کیا۔
اسلام کے معتدل مذہب ہونے کی ایک وزنی دلیل یہ بھی ہے کہ اس میں سابقہ تمام سچے مذہبی پیشواؤں پر ایمان لانااور ان کی عزت و توقیر لازمی ہے۔ اس کے برخلاف آج کے یہودی حضرت موسیٰ علیہ السلام کو ماننے کے مدعی تو ہیں لیکن حضرت موسیٰ علیہ السلام کے بعد حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور بالخصوص خاتم الانبیاء محمد رسول اللہﷺکی نبوت و رسالت کا انکار کرتے ہیں۔
اسی طرح عیسائی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو نہ صرف نبی اور رسول بلکہ خدااور خدا کے بیٹے ماننے کے مدعی ہیں لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے پہلے کے انبیاء و رسل مثلاً حضرت موسیٰ علیہ السلام وغیرہ اور بالخصوص حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بعد خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفیﷺ کی رسالت کو یکسر نہیں مانتے۔جبکہ اسلام لا نفرق بین احد منہم کہ تمام سچے انبیاء و رسل پر ایمان لانے میں تفریق نہیں کرتا ہاں ان کے فرق مراتب کو ضرور ملحوظ رکھتا ہے۔ فضلنا بعضہم علی بعض۔ ایمان لانے کا مطلب واضح ہے کہ وہ اپنے وقت میں اللہ کے برحق سچے نبی اور رسول تھے۔آپ ﷺ کی بعثت کے ساتھ ہی اب ان کی شریعت کو خداوند کریم نے منسوخ فرما دیا ہے۔ اب تا قیامت شریعت محمدیہ اللہ کے ہاں معتبر اور پسندیدہ و مقبول ہے۔