دعوؤں اورنعروں کی سیاست
خیبرپختونخوا میں جہاں ایک طرف دہشت گردی کی آگ لگی ہوئی ہے وہیں سیاسی حدت بھی بڑھتی جارہی ہے۔ اتوار کو ہونے والے جلسے میں توقع کی جارہی تھی کہ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی سخت زبان استعمال کریں گے جیسا کہ انہوں نے ماضی میں ایک آدھ بار کیا،لیکن شاید انہیں محتاط رہنے کا کہاگیاتھا۔
ان کی جانب سے سخت لہجہ تو استعمال کیاگیا لیکن مجموعی طورپر ایسی کوئی بات نہیں کی گئی جس سے ماحول مزید پراگندہ ہو۔اس بات کا خدشہ بدرجہ اتم موجود ہے کہ معمولی سی غلطی بھی گورنر راج کاسبب بن سکتی ہے۔
پاکستان تحریک انصاف کے رہنماؤں کی جانب سے بھی جو ردعمل آیا وہ نپا تلا تھا بجز پی ٹی آئی کے سوشل میڈیا کے جو شاید ایک ہی ہلے میں بانی پی ٹی آئی کو رہا کروانا چاہتا ہے۔ یہ باہر بیٹھے کچھ لوگوں کی خواہش ہے جس کے پیچھے کچھ مالی مفادات بھی کارفرما ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو بیرون ملک بیٹھ کر پی ٹی آئی کی پالیسیوں پر بھی اثرانداز ہوتے ہیں۔ انہی سوشل میڈیا انفلوئنسرز کی وجہ سے علی امین گنڈاپور حکومت سے گئے، بانی پی ٹی آئی کی مشکلات بڑھیں اور پارٹی پر سخت وقت آیا۔ پی ٹی آئی ان کو اپناماننے کے حوالے سے خاموش ہے مگر ان سے برأت کااعلان بھی نہیں کرتی۔ اب ان سوشل میڈیا واریئرز کا رخ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی طرف ہوگیا ہے۔ پہلے کہاگیا کہ پشاور جلسے میں بانی پی ٹی آئی کی رہائی کیلئے لائحہ عمل دیاجائے گا۔ یہ بھی کہاگیا کہ سخت ردعمل دیاجائے گا،کچھ رہنماؤں کی جانب سے نازیبا الفاظ کا استعمال کیا گیا لیکن وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کے حوالے سے ان کی یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی۔ انہوں نے ایسے الفاظ بولنے سے گریز کیا جن کی وجہ سے ماضی قریب میں ان پر شدید تنقید ہوتی تھی جو کہ ایک مثبت پیش رفت ہے۔
پشاور کے جلسے کو کامیاب جلسہ کہاجاسکتا ہے، اگرچہ اس جلسے کیلئے ماضی کی طرح کوئی بڑی جگہ نہیں چنی گئی تھی لیکن جلسہ گاہ کو اچھے طریقے سے بھرا گیا اور لوگ جلسے کے اختتام تک موجود رہے۔اس جلسے کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے کوہاٹ میں اگلا جلسہ کرنے کا اعلان کیاگیا۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی نے صحافیوں سے اپنی پہلی ملاقات میں کہاتھا کہ وہ بانی پی ٹی آئی کا مقدمہ عوام کے پاس لے کر جائیں گے، انہوں نے اپنی حکومت کے ابتدائی ایام میں ضلع خیبر، چارسدہ اورکرک میں یکے بعد دیگرے تین جلسے کئے اور اس سلسلے کو اب آگے بڑھایاجارہا ہے۔ یوں لگ رہا ہے کہ پی ٹی آئی قیادت عوام اوراپنے درمیان عدم اعتماد کو ختم کرنے کی کوشش کررہی ہے۔ گزشتہ دو سال کے دوران علی امین گنڈاپور کی جانب سے بلند بانگ دعوے کئے گئے، عوام کو سنہرے خواب دکھائے گئے اور انہیں بتایاگیا کہ اسلام آباد پر چڑھائی کرکے بانی پی ٹی آئی کو نکال لیاجائے گا لیکن ہردفعہ قیادت خود غائب ہوتی رہی اور ووٹرز کو ڈنڈے کھانے پڑے،کیسز بھی بنے۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کی یہ پالیسی کہ عوام میں جایاجائے معتدل اور بظاہر اچھی سیاسی حکمت عملی دکھائی دے رہی ہے۔ پی ٹی آئی قیادت کو ایک بارپھر خود کو اپنے سپورٹرز سے جوڑنا ہوگا،ان کا اعتماد بحال کرنا ہوگا۔ تاہم انہیں ماضی قریب کی طرح دلفریب دعوؤں اور وعدوں سے گریز کرنا ہوگا۔یہ بات سمجھنی ہوگی کہ ریاستی اداروں کے خلاف بیانات دے کر اور سڑکیں بند کرنے سے عدالتی مقدمات ختم نہیں کئے جا سکتے۔ اس وقت پی ٹی آئی قیادت ایک ہی بات دہرا رہی ہے کہ وہ ہر آئینی اور قانونی راستہ اختیار کررہے ہیں۔ اگریہ پالیسی پہلے اپنا لی جاتی تو بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی کیلئے بھی اتنی مشکلات کھڑی نہ ہوتیں۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا نے این ایف سی اجلاس میں شرکت کرنے کا اچھا فیصلہ کیا۔وزیراعلیٰ سہیل آفریدی اور مشیرخزانہ مکمل تیاری کے ساتھ اجلاس میں شریک ہوئے، بجلی کے خالص منافع کے بقایاجات اورآبی رائلٹی سمیت دیگرمدات میں اربوں روپے وفاقی حکومت کے ذمہ واجب الادا ہیں۔
وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو ان بقایاجات کی وصولی کیلئے ہرفورم پر آواز اٹھانی چاہیے۔ یہ وہ پیسے ہیں جو عوام کی فلاح وبہبود اور دہشت گردی سے متاثرہ اس صوبے پر لگنے ہیں۔ لیکن کیا ہی اچھا ہوکہ اس سے قبل صوبے کو ملنے والے فنڈز کا بھی آڈٹ کیاجائے، بیوروکریسی کامحاسبہ کیاجائے اور اچھی طرح سے تطہیر کی جائے۔ جس بے دردی سے خیبرپختونخوا کے خزانے کو لوٹا گیا وہ افسوسناک ہے۔ وزرا، چاہے وہ موجودہ ہوں یا سابق، اسی طرح افسرشاہی کے وہ پرزے جو ہر حکومت میں فٹ ہوجاتے ہیں، کو بھی ٹٹولاجائے۔پی ٹی آئی کا سب سے بڑا نعرہ تھا کرپشن کاخاتمہ، کرپشن تو ختم نہ ہو سکی البتہ یہ نعرہ کہیں پیچھے رہ گیاجس کی وجہ سے کوہستان سکینڈل سامنے آیاجس میں اربوں روپے لوٹے گئے اور ہوشربا انکشافات سامنے آرہے ہیں۔ وزیراعلیٰ سہیل آفریدی کو گورننس کی طرف توجہ دینی ہوگی۔ اس وقت صوبے کے سرکاری ہسپتالوں کی جو حالت ہے وہ بیان سے باہر ہے۔ تعلیم کے محکمے کولیں، وہاں بھی اندھیر نگری مچی ہوئی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پی ٹی آئی نے بانی کے نام پر ووٹ لیا ہے، اس میں بھی دو رائے نہیں کہ ووٹ بانی پی ٹی آئی کی رہائی کے نام پردیاگیا، لیکن یہ بھی واضح رہے کہ صوبے کے عوام امن وامان کے ساتھ زندگی کی بنیادی سہولیات بھی مانگتے ہیں۔ گزشتہ برس اسلام آباد پر چڑھائی اور سیاسی لڑائی میں گزر گیا، یہ سال بھی تقریباً ایسے ہی گزرا۔ لیکن آنے والے برسوں میں صوبے میں پی ٹی آئی کی حکومت رہتی ہے تو اس کیلئے سخت امتحان ہوگا۔ عوام حکومت کی کارکردگی پوچھیں گے اور پی ٹی آئی کے امیدواروں کو بھی عوام کو دکھانے کیلئے کچھ بتانا ہوگا،محض سیاسی نعروں سے عوام بہلنے والے نہیں۔پی ٹی آئی کو اس صوبے میں حکومت بنانے کا اعزاز اس لئے حاصل ہوا کہ انہوں نے اس صوبے کے عوام کو صحت کارڈ جیسی سہولت دی۔ چاہئے تو یہ تھا کہ اس سہولت کو مزید بہتر بنایاجاتا لیکن اس میں مبینہ کرپشن کے نت نئے سوراخ بنائے گئے۔ صحت کے نظام کو مضبوط کرنا ہوگا اور اس میں شفافیت لانی ہوگی۔
اسی طرح بی آرٹی کو دیگراضلاع تک توسیع دینی ہوگی۔ علی امین گنڈاپور نے مزید تین اضلاع میں بی آرٹی بنانے کا اعلان کیاتھا۔ یہ سروس وہاں شروع کرنی ہوگی۔یہ تب ہی ممکن ہے جب پی ٹی آئی کی قیادت اور صوبائی حکومت دعوؤں اورنعروں سے باہر نکل کر عملی اقدامات اٹھائے۔دوسری طرف خیبرپختونخوا میں صوبہ ہزارہ کے قیام کیلئے منظورکی گئی قرارداد پر اے این پی نے اعتراضات اٹھا دیئے ہیں۔ اے این پی کا مؤقف ہے کہ ان کی غیر موجودگی میں یہ قرارداد منطورکی گئی۔ نئے صوبے بنانا وقت کی اہم ضرورت ہے مگر اس کیلئے پہلے اتفاقِ رائے لانا ہوگا۔