امریکا میں کٹر عیسائی اور یہودیوں کا گٹھ جوڑ
اسپیشل فیچر
امریکہ میں ایک اندازہ کے مطابق اس وقت دو سو عیسائی تنظیمیں ہیں جو عیسائی صیہونیت کے عقیدہ کو فروغ دے رہی ہیں اور اس کی تبلیغ میں صروف ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ چار کروڑ ایسے عیسائی ہیں جو ان کٹر عیسائی صیہونی تنظیموں کے زیر اثر ہیں جن کے سرغنوں میں نمایاں جیری فیلویل اور پیٹ رابرٹسن ہیں جو اپنے جنسی سکینڈلوں کے باعث ویسے ہی کافی مشہور ہیں۔ عیسائی صیہونی تنظیموں کی چھاتہ جماعت یو ایس کرسچین کولیشن فار اسرائیل کہلاتی ہے جو سن اسی ے عشرے میں قائم ہوئی تھی۔ گو عیسائی صیہونی فرقہ کا صدر بش کے والد جارج بش، صدر کارٹر اور صدر ریگن پر بھی اثر تھا اور وہان کو بدستور اسرائیل کی بھر پور حمایت کے جال میں گھیرے رہے لیکن اب ایسا معلوم ہوتا ہے کہ صدر بش جو خود بھی کٹر عیسائی ہیں انہوں نے مکمل طور پر اپنا یرغمالی بنا لیا ہے اور نائب صدر ڈک چینی اور کونڈو لیزا رائس اس کام پر معمور رہیں کہ صدر بش اس جال سے نہ نکل سکیں۔ دوسرا گھیرا ان کے معاون یہودیوں کا ہے جن میں سابق نائب وزیر دفاع ولفووٹز، رچرڈ پرل اور ڈگلس فیتھ نمایاں ہیں۔ بہت سے لوگوں کو اس بات پر یقین نہیں آتا کہ امریکا اور یورپ میں عیسائی صیہونی تحریک، اسرائیل کے قیام کے لیے صیہونی تحریک سے بھی پرانی ہے۔ یہودی صیہونی تنظیم سن اٹھارہ سو ستانوے میں قائم ہوئی تھی لیکن عیسائی صیہونی تحریک کا آغاز دو سو سال قبل سولہویں صدی کے آخر میں ہو گیا تھا جس کا بنیادی عقیدہ یہ ہے کہ عہدہ نامہ عقیق کے مطابق حضرت عیسیٰ ؑ کا اس دنیا میں دوبارہ ظہور اسی وقت ہوگا جب فلسطین پر یہودیو ں کا قبضہ ہوگا اور یروشلم میں گنبد صخرہ پر جسے یہودی ٹیمپل مائونٹ کہتے ہیں کہ ان کے عقیدہ کے مطابق گنبد صخرہ کے نیچے حضرت سلیمان کا معبد دفن ہے، حضرت عیسیٰؑ اپنی عبادت گاہ تعمیر کریں گے اور یروشلم ابد تک یہودیوں کا دارالحکومت رہے گا۔ انیسویں صدی میں ایک امریکی سائیرس اسکوفیلڈ نے اسی عقیدہ کی بنیاد پر انجیل کی نئی توجیح پیش کی اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ تاریخ کے تمام واقعات کا محور دراصل اسرائیل کا ماضی، حال اور مستقبل ہے۔ سائیرس اسکویلڈ کی توجیح والی انجیل آج بھی امریکا میں کروڑوں عیسائیوں میں بے حد مقبول ہے۔ جن کا یہ عقیدہ ہے کہ فلسطین کی سرزمین اللہ تعالیٰ نے یہودیوں کو ودیعت کر رکھی ہے۔ سن انیس سو سترہ میں جب برطانیہ میں بالفور اعلانیہ منظر عام پر آیا جس میں فلسطین میں یہودیوں کی مملکت کا حق تسلیم کیا گیا تھا تو دراصل اس اعلانیہ کا بھی محرک یہی عیسائی صیہونی عقیدہ تھا کہ حضرت عیسیٰؑ کے دوبارہ ظہور کے لیے فلسطین میں یہودیوں کی مملکت کا قیام لازمی ہے۔ سن انیس سو سینتالیس میں جب فلسطین میں اسرائیل کی مملکت کے قیام کا اعلان ہوا تو اس وقت عیسائی صیہونیوں نے بغلیں بجائی تھیں کہ انجیل کی پیش گوئی صحیح ثابت ہوگئی اور پھر جب سن سڑسٹھ کی جنگ میں اسرائیل کو عربوں کے مقابلہ میں فتح ہوئی اور غرب اردن اور غزہ کے علاقہ پر اسرائیل کا قبضہ ہوا تب بھی ان عیسائی صیہونیوں نے جشن منائے کہ انجیل کی ایک اور پیش گوئی پوری ہوئی۔ اس فرقہ کے نزدیک اسرائیل کا ہر قدم ربانی اقدام ہے۔ اسرائیل کی سو فیصد حمایت عیسائی صیہونیوں کا بنیادی عقیدہ ہے کیونکہ ان کا یہ نظریہ ہے کہ اسرائیل کی خواہش اللہ تعالیٰ کی خواہش ہے اور اسرائیل کا ہر عمل اللہ کی مرضی کے مطابق ہوتا ہے چاہے وہ لبنان پر حملہ ہو جس میں ایک لاکھ افراد مارے گئے یا آریل شیروں کے ہاتھوں بیروت کے فلسطینی کیمپوں صبرا اور شطیلہ میں قتل عام ہو۔ چاہے غرب اردن میں جنین کے شہر پر وحشیانہ حملہ ہو یا غزہ میں بمباری اور گولہ باری جس میں ننھے بچے مارے گئے۔ یہ سب اللہ کے حکم سے ہوا ہے جو جائز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اسرائیل کے قیام کے بعد سے اب تک ان عسائی صیہونیوں نے ہر قدم پر اور ہر محاذ پر اسرائیل کی حمایت اور مدد کی ہے اور ہر امریکی حکومت پر اسرائیل نواز پالیسی برقرار رکھنے پر ناقابل فرار دبائو ڈالا ہے۔ یہ بات اہم اور معنی خیز ہے کہ امریکا میں گیارہ ستمبر دو ہزار ایک کے حملوں کے بعد عیسائی صیہونیوں کا اثر طوفان کی مانند اٹھا ہے اور اس نے پورے ملک میں اس شدت کی عیسائی انتہا پسندی کو فروغ دیا ہے کہ جس کی مثال امریکا کی تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔ عیسائی صیہونیوں کی امریکا اور اسرائیل میں کھلم کھلا کانفرنسیں ہوئی ہیں جن میں اسرائیل کی بھرپور حمایت کی گئی ہے اور حتیٰ کہ خود صدر بش کے پیش کردہ نئے امن منصوبہ کو جو نقشہ راہ کہلاتا ہے یکسر مسترد کرتے ہوئے ایک الگ فلسطینی مملکت کے قیام کی سخت مخالفت کی گئی ہے۔ اب تک امریکا میں روشن خیال عناصر نے عیسائی صیہونیوں کو زیادہ اہمیت نہیں دی تھی کیونکہ وہ انہیں ایسے جنونی شدت پسند سمجھتے تھے جن کو قوام کی قبولیت حاصل نہیں ہوگی لیکن گزشتہ دو برس میں اس فرقہ کا جس تیزی سے اثر بڑھا ہے خاص طور پر حکمران ٹولہ میں اور عام عیسائیوں میں یہ جس سرعت سے مقبول ہو رہا ہے وہ بلاشبہ تشویش اور خطرہ کا باعث ہے۔ یہ فرقہ امریکا اور اس کی ہم گیر قوت کو شر اور طاغوتی طاقتوں کے خلاف ایک نئے مذہب کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس خطرناک رجحان کے فروغ میں بااثر یہودی تنظیموں کا بھی ہاتھ ہے۔ بہت سے امریکیوں کے نزدیک انتہا پسند عیسائی صیہونیوں اور یہودی صیہونیوں کا گٹھ جوڑ عالمگیر دہشت گردی کے خطرہ سے بھی زیادہ خطرناک ہے کیونکہ ان عناصر کی جڑیں امریکی عوام میں ہیں اور ان کے وسائل بھی اتنے وسیع ہیں کہ ان کا مقابلہ آسان نہیں۔ (آصف جیلانی کی کتاب’’ ساغر شیشے لعل و گوہر‘‘ سے ماخوذ)