جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ
معروف شاعر تنویر نقوی نے ہدایتکار محبوب خان کو ششدر کر دیا******تنویر نقوی کا شمار برصغیر کے اہم ترین گیت نگاروں میں ہوتا ہے۔ وہ قیام پاکستان سے پہلے ہی گیت نگاری کے میدان میں اپنا سکہ جما چکے تھے۔ کچھ لوگ ابھی تک یہ سمجھتے ہیں کہ وہ صرف فلمی نغمہ نگار رہے تھے حالانکہ وہ غزل اور نظم کے بھی بہت عمدہ شاعر تھے۔ انہوں نے صرف اردو فلموں کیلئے ہی گیت نہیں لکھے بلکہ پنجابی فلموں کیلئے بھی شاندار نغمات لکھے۔ اس کے علاوہ ان کے نعتیہ کلام کی جتنی بھی تعریف کی جائے، کم ہے۔یہ بھی کہاجاتا ہے کہ برصغیر کی مشہور ترین فلم ’’مغل اعظم‘‘ کے تمام گیت تنویر نقوی لکھ رہے تھے لیکن شکیل بدایونی نے ہدایتکار کے آصف کو مجبور کیا کہ وہ ان سے نغمات لکھوائیں اس میں کوئی شک نہیں کہ شکیل بدایونی نے بھی اعلیٰ درجے کے گیت تخلیق کیے اور ’’مغل اعظم‘‘ کی عدیم النظیر کامیابی میں اپنا حصہ ڈالا۔ ’’مغل اعظم ‘‘کیلئے لکھے گئے کچھ گیت بعد میں تنویر نقوی نے مدھوبالا اورپردیپ کمار کی فلم ’’شیریں فرہاد‘‘ میں شامل کروا دیئے جن میں یہ مقبول ترین گیت بھی شامل تھا ’’گزرا ہوا زمانہ آتا نہیں دوبارہ، حافظ خدا تمہارا‘‘۔معروف شاعر اور ادیب اعزاز احمد آذر نے ہمیں تنویر نقوی کے بارے میں ایک حیرت انگیز واقعہ سنایا۔ اعزاز احمد آذر،تنویر نقوی کے بہت قریبی دوست تھے اور تنویر نقوی کی کتاب زیست کا ہر ورق انہوں نے پڑھ رکھا تھا۔ قیام پاکستان سے پہلے ہدایتکار محبوب خان کی فلم ’’انمول گھڑی‘‘ نے بہت شہرت حاصل کی۔ یہ فلم غالباً 1946ء میں ریلیز ہوئی اور اس کے نغمات نے پورے ہندوستان میں تہلکہ مچا دیا۔ نور جہاں کو اس فلم نے بلندیوں پر پہنچا دیا۔ اس فلم میں ان کے ساتھ سریندر اور ثریا بھی تھیں۔ اس فلم میں ان کا گایا ہوا یہ گیت ’’آواز دے کہاں ہے‘‘ اب تک اپنی انفرادیت برقرار رکھے ہوئے ہے۔ تنویر نقوی اس فلم کے گیت نگار تھے۔ اعزاز احمد آذر بتاتے ہیں کہ جب تنویر نقوی نے ’’آواز دے کہاں ہے‘‘ لکھا تو فلم کے ہدایتکار محبوب خان کو یقین نہ آیا۔ ان کا موقف تھا کہ یہ لڑکا (تنویر نقوی) اتنا زبردست گیت تخلیق نہیں کرسکتا۔ اس پر موسیقار نوشاد نے انہیںبتایا کہ یہ گیت اس نوجوان نے ہی لکھا ہے۔ محبوب خان یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں تھے کہ بیس بائیس سال کا یہ نوجوان ایسا نغمہ تخلیق کرسکتا ہے۔ آخر محبوب خان نے نوشاد سے کہا کہ اس لڑکے کو بلائیں اور وہ یہاں ہماری موجودگی میں الگ کمرے میں اس فلم کا ایک اور گیت لکھے۔ اس پر تنویر نقوی کو بلوالیا گیا۔ انہیں محبوب خان اور نوشاد نے مطلوبہ گانے کی سیچویشن سمجھائی۔ محبوب خان نے اس کے بعد تنویر نقوی کو ایک الگ کمرے میں بٹھا دیا۔ آدھ گھنٹے کے بعد ہی تنویر نقوی وہ گیت تخلیق کرنے میں کامیاب ہوگئے جو ان کے عظیم ترین نغمات میں شمار ہوتا ہے۔ یہ گیت تھا ’’جواں ہے محبت حسیں ہے زمانہ‘‘ اس گیت کو بھی نور جہاں نے گایا اور کیا خوب گایا۔محبوب خان نے جب یہ گیت تنویر نقوی کی زبانی سنا تو وہ حیرت کے سمندر میں غرق ہوگئے۔ انہیں یقین ہوگیا کہ یہ نوجوان شاعر حیرت انگیز صلاحیتوں کا مالک ہے اور یہ سب اللہ کی رحمت کا اعجاز تھا کہ ایک نوجوان شاعر نے یہ کمال کر دکھایا۔اس حقیقت سے کون انکار کر سکتا ہے کہ ذہانت کسی کی میراث نہیں۔ یہ سب قدرت کی طرف سے ودیعت ہوتی ہے اور ذہانت کو کوئی چرا سکتا ہے نہ چھین سکتا ہے۔ خداداد صلاحیتوںکے مالک لوگ کم عمری میں ہی یہ بتا دیتے ہیں کہ وہ آگے چل کر کیسے کیسے معرکے سرانجام دیں گے۔ ایسے نہیں کہا جاتا کہ ہونہار بروا کے چکنے چکنے پات۔تنویر نقوی جن کا اصلی نام خورشید تھا۔ برصغیر کی تقسیم کے بعد پاکستان آ گئے اور یہاں ایسے ایسے گیت تخلیق کیے جنہیں عظیم ترین گیتوں میں شمار کیا گیا۔’’انمول گھڑی‘‘ کے بعد ان کے دل نے خوشی کا خزانہ لٹایا لیکن پھر اپنے شاہکار نغمات کا بھی خزانہ لٹاتے رہے۔ان کے پنجابی گیتوں کی تعریف تو ان شعراء نے بھی کی جو کسی دوسرے کی تعریف کرنے میں ہمیشہ بخل سے کام لیتے تھے۔ ان میں باکمال نغمہ نگار احمد راہی بھی شامل تھے۔ جب فلم ’’ات خدا دا ویر‘‘ کیلئے تنویر نقوی نے یہ گیت لکھا ’’جدوں ہولی جئی لیناں میرا ناں‘‘ تو احمد راہی نے تنویر نقوی پر داد تحسین کے ڈونگرے برسا دیئے۔ تنویر نقوی اس لحاظ سے خوش بخت تھے کہ ان کے بہت زیادہ گیت نور جہاں نے گائے۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ تنویر نقوی نور جہاں کے بہنوئی تھے۔ محبوب خان بھی داد کے مستحق ہیں جنہوں نے جوہری بن کر بروقت تنویر نقوی جیسے ہیرے کو تلاش کیا۔ تنویر نقوی کو ان کے ایک بے مثال گیت کے توسط سے ہی خراج عقیدت پیش کیا جا سکتا ہے۔مہکی فضائیں، مہکے نظارے سارے کے سارے……تیرے لئے۔