مینار پاکستان

مینار پاکستان

اسپیشل فیچر

تحریر :


مینارِ قار داد پاکستان کی مجلسِ تعمیر کی نشست تھی، میز کے اردگرد تمام اراکین جمع تھے، میں آج ان میں پہلی بار شامل ہوا تھا۔ کاروائی کی پہلی شقِ غور کے لیے پیش ہوئی، میرا ذہن اس وقت برنارڈ شا کے اس مقولے پر غور کرنے میں مصروف تھا کہ وہ مقام جہاں خواہشِ قلبی اور فرضِ منصبی کی حدیںمل جائیں اسے خوش بختی کہتے ہیں۔ میں بلحاظ عہدہ اس مجلس کی صدارت کر رہا ہوں مگر عہدے کو ایک عہدِ وفا کا لحاظ بھی تو لازم ہے۔ میرے عہدے کا تعلق تعمیر سے ہے، میرے عہد کا تعلق تحریک سے تھا۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے سنگ و خشت کے بجائے جہانِ نو کی تعمیر اور افکارِ نو کی تعبیر سمجھا۔ میں نے اس مینار کو با الفاظِ اقبال جلوہ گہِ جبرئیل جانا اورسوچا۔باکہ گویم سرایں معنی کہ نورِ روئے دوستبادماغِ من گل و باچشمِ موسیٰ آتشستعرفیمینار کی تعمیر کے ابتدائی دنوں میں جب میرا اس کی تعمیر سے کوئی سرکاری تعلق نہ تھا میں محض تعلق خاطر کے واسطہ سے وہاں جا پہنچا۔ بنیادیں بھری جا چکی تھیں، باغ میں ہر طرف ملبہ پھیلا ہوا تھا، مینار بلندی کی طرف مائل تھا، روکاربا نسوں کی باڑ میں یوں چھپی ہوئی تھی کہ عمارت تو نظر نہ آئی مگر اردو شاعری میں چلمن کا مقام مجھ پر واضح ہو گیا۔ نزدیک جانا چاہا تو چوکیدار نے سختی سے روک دیا۔ یہ تو اس چوکیدار کا ہمسر نکلا جسے مولوی عبدالحق نے وائسرائے کو ٹوک دینے پر آثار قدیمہ سے نکال کر چند ہم عصروںمیں شامل کر لیا تھا۔ اب کہاں روز روز عبدالحق پیدا ہوں گے اور کسے فرصت ہو گی کہ عصرِ نو کے ملبے میں عزتِ نفس کی تلاش کرے اور ایسے چھوٹے چھوٹے واقعات پر مضمون لکھا کرے۔ میں نے چوکیدار سے پوچھا یہ کیا بن رہا ہے؟ کہنے لگا یادگار بن رہی ہے۔ آج جب کاروائی کے لئے پہلا مسئلہ پیش ہوا تو میں نے کہا اسے ملتوی کیجیے تا کہ ایک اور ضروری بات پر بحث ہو سکے۔ میز پر لغات کا ڈھیر لگ گیا۔ سب متفق ہوئے کہ یادگار وہ نشانِ خیر ہے جو مرنے کے بعد باقی رہے۔ جب یادگار کا عام تصور موت اور فنا کے تصور سے جُدا نہ پایا تو منصوبے سے یادگار کا لفظ خارج کر دیا۔ میز صاف کی گئی، لغات کی جگہ مینارِ قرار دادِ پاکستان کے نقشے پھیلائے گئے۔ جو تھوڑی بہت جگہ بچ گئی اس میں چائے کی پیالیاں سجائی گئیں۔ چائے شروع ہوئی تو بات بہت دُور جا نکلی۔کہتے ہیں جب اہرامِ مصر کا معمار موقع پر پہنچا تو اس نے صحرا کی وسعت دیکھ کر فیصلہ کیا کہ عمارت بلند ہونی چاہیئے۔ پھر اس نے بھر بھری اور نرم ریت کو محسوس کیا اور سوچا کہ اس عمارت کو سنگلاخ بھی ہونا چاہیئے۔ جب دھوپ میں ریت کے ذرے چمکنے لگے تو اسے خیال آیا کہ اس کی عمارت شعاعوں کو منعکس کرنے کے بجائے اگر جذب کر لے تو کیا اچھا تقابل ہو گا۔ ہوا چلی تو اسے ٹیلوں کے نصف دائرے بنتے بگڑتے نظر آئے اور اس نے اپنی عمارت کو نوک اور زاویے عطا کر دئیے۔ اتنے فیصلے کرنے کے بعد بھی اسے طمانیت حاصل نہ ہوئی تو اس نے طے کیا کہ زندگی تو ایک قلیل اور مختصر وقفہ ہے وہ کیوں نہ موت کو ایک جلیل اور پائیدار مکان بنا دے۔ اب جو یہ مکان بنا تو لوگوں نے دیکھا کہ عجائبِ عالم کی فہرست میں اضافہ ہو گیا ہے۔اہرام کے معمار کو اگر اقبال پارک میں لاکھڑا کرتے تو اسے نہ جانے کیا کچھ نظر آتا اور وہ اس عمارت کو نہ معلوم کیا شکل دیتا۔ اس کی غیر حاضری میں ہمیں یہ طے کرنے میں بڑی مشکل پیش آئی کہ قرار دادِ پاکستان کو علامت اور عمارت کے طور پر کیا صورت دی جائے۔ باغ، جھیل، فوارے، مسجد، کتب خانہ، عجائب گھر، ہال ہسپتال دروازہ، درس گا یا مینار۔ فہرست کچھ اسی قسم کی بنی تھی اور بحث وتمحیص کے بعد کامیابی کا سہرہ سرِ مینار سجایا گیا۔ موقع و محل کی نسبت ہو یا صورت و ساخت کی نسبت ماہرین کا متفق ہونا ممکن نہیں۔ اقبال پارک کے مشرق اور شمال میں وسعت اور ہریالی،مغرب میں ایک محلہ، کچھ جھگیاں اور گندہ نالہ، جنوب میں قلعہ، گوردوارہ اور مسجد عالمگیری واقع ہے۔ سطحِ زمین سے دیکھا جائے تو تین سفید بیضوی نوک دار گنبد اور چار بلند سُرخ پہلو دار مینار اس قطعے پر حاوی ہیں۔ ذرا بلندی سے دیکھیں تو اندرونِ شہر، دریائے راوی اور جہانگیر کے مقبرے کے چار مینار بھی اس منظر کا حصہ بن جاتے ہیں۔ آٹھ میناروں کے ہوتے ہوئے نویں مینار کا اضافہ کسی نے حسن جانا اور کسی نے بد ذوقی۔ اس بات کو البتہ سبھی تسلیم کرتے ہیں کہ عمارت اپنی نسبت کی حیثیت سے منفرد ہے۔ دنیا میں کہیں کسی قرار داد کو منظور کرنے کی یاد اس طرح نہیں منائی گئی کہ جلسہ گاہ میں ایک مینار تعمیر کر دیا جائے۔تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مینار کی ابتدائی صورت دفاعی ضرورت کے تحت وجود میں آئی، پھر اس کی علامتی حیثیت قائم ہوئی، اس کے بعد یہ دین کا ستون بنا اور آخرکار نشانِ خیر کے طور پر بنایا جانے لگا۔ مینارِ قرار داد ان ساری حیثیتوں پر محیط ہے۔ یہ نظریاتی دفاع کی ضرورت، تحریکِ آزادی کی علامت، دین کی سرفرازی کا گواہ اور ہماری تاریخ کا ایک نشانِ خیر ہے۔ دفاعی میناریوں تو میسو پوٹیمیا کی اختراع بتائے جاتے ہیں۔ مگر ان کو سب سے زیادہ استعمال کرنے والے اہلِ روم اور بازنطینی تھے۔ ان کے یہاں شہر کی فصیل سے لے کر ہر بڑی حویلی میں جا بجا مینار بنے ہوئے تھے۔ ان دنوں دنیا کی آبادی مختصر اور جغرافیے کا علم کم تر تھا، فنِ حرب کا درجہ بھی پست تھا، حملہ آور گنے چُنے اور ان کے ہتھیار دیکھے بھالے تھے لہٰذا دفاع کے لئے یہ کوتاہ قامت مینار ہی بہت کافی تھے۔ علم اور آبادی دونوں میں اضافہ ہوتا گیا۔ فنِ حرب کا درجہ بھی بلند ہوتا چلا گیا، جنگوں کی تعداد اور شدت میں بھی اضافہ ہو گیا۔ جگہ جگہ مضبوط سے مضبوط اور بلند سے بلند تر مینار بننے لگے۔ آبنائے باسفورس، جنوبی فرانس اور وسط چین کی مشہور فصیلیں اور مینار اسی دور کی یادگار ہیں۔ دیوارِ چین میں جو اب ہاتھی کے دانت کی طرح صرف دکھانے کے کام آتی ہے جابجا دفاعی مینار اور بُرج بنے ہوئے ہیں۔ چین گئے تو دیوار دیکھنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ دیوار بھی دیکھی اور اہلِ دیوار بھی۔ معلوم ہوا کہ جو کام پہلے دیواروں سے لیا جاتا تھا وہ اب دیوانوں سے لیتے ہیں۔ جہاں لوگ شانہ بشانہ صف بصف ایک دوسرے سے پیوست ہو جائیں تو وہی سدِ سکندری ہے اور وہی سدِ یاجوج۔ ایک دن ہم دیوار کی طرف روانہ ہوئے، سڑک میدان سے گزر کر پہاڑی سلسلے میں داخل ہو چکی تھی۔ دور سے ایسا معلوم ہوا کہ جہاں پہاڑ اور افق ملتے ہیں وہاں کسی نے سیاہ پنسل سے ایک مدھم سی کلیر لگا دی ہے۔ کچھ اور آگے گئے تو دور تک سلسلہ کوہ سنجافی نظر آیا۔ نزدیک پہنچے تو یہ مدھم سی لکیر حیرت کدۂ ہنر بن گئی اور جسے ہم نے سنجاف سمجھا تھا وہ ایک سنگلاخ حقیقت نکلی۔ دیوار عمودوار ایک پہاڑ پر چڑھتی تھی اور چوٹی پر ایک دفاعی مینار بنا ہوا تھا۔ میں نے جیب سے پچاس یوآن کا نوٹ نکالا اور ساتھیوں سے کہا کہ یہ انعام مینار پر سب سے پہلے پہنچنے والے کو ملے گا۔ سبھی بھاگ پڑے اور میں نے جانا کہ یہ نوجوان بھی پسماندہ ملکوں کی طرح زرِ مبادلہ کی دوڑ میں شریک ہو گئے ہیں۔ذرا سی دیر میں بھاگنے والوں کا دم پھول گیا اور وہ ایک ایک کر کے فرش پر بیٹھ گئے۔ مینار اب بھی اتنا ہی دور نظر آتا تھا اور اگر اس میں یہ خوبی نہ ہوتی تو اب تک دیوارِ چین میں کئی بار نقب لگ چکی ہوتی۔ یہ کام جو بڑے بڑے ملک نہ کر سکے اُردو شاعری نے کر دکھایا شعر ہے۔میرے شیون سے فقط قصر فریدوں نہ گرِاسدِا سکندرِ اورنگ نشین بیٹھ گئیاب صرف حضرتِ ناظم کو جن کا یہ شعر ہے کیوں قصور وار ٹھہرائیے، قصور ہے تو خود ہمارے مزاج کا۔ دیوار چین تو نہیں البتہ دیوار چمن تو حضرتِ غالب نے بھی ڈھا دی تھی، کہتے ہیں۔برشگالِ گر یہ عاشق ہی دیکھا چاہیےکھل گئی مانند گل، سوجا سے دیوارِ چمندفاعی مینار پر چڑھنے کی جو حسرت دل کی دل میں رہ گئی تھی اسے میں نے مغربی پاکستان کے قبائلی علاقے میں جا کر پورا کیا۔ میں نے ایک سردار کے یہاں کھانا کھایا اور مہمان کا حقِ آسائش استعمال کرتے ہوئے مٹی کے اس مینار پر جا چڑھا جو حویلی ک یایک کونے میں بنا ہوا تھا۔ باہر سے تو اس کی لپائی کی ہوئی تھی مگر اندر سے مینار تاریک اور خستہ تھا۔ خاک ریز سے جو روشنی کی کرن اندر آتی تھی وہی ہمارا زینہ تھا۔ مینار کی شہ نشین میں ایک ٹوٹی کرسی اور چند کارتوس پڑے ہوئے تھے۔ پاس ہی ایک ٹرانسسٹر بج رہا تھا۔ میں نے کبھی ٹاٹ میں مخمل کا پیوند تو نہیں دیکھا مگر میسوپوٹیمیا کے دفاعی میناروں کی طرز کے ہزار ہا سال پرانے مٹی کے میناروں میں بیسویں صدی کا گاتا بجاتا پیوند لگا ہوا ضرور دیکھا ہے۔(آوازِ دوست از مختار مسعود)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
سول ایوی ایشن کا عالمی دن :فضاؤں سے مستقبل کی سمت کا تعین

سول ایوی ایشن کا عالمی دن :فضاؤں سے مستقبل کی سمت کا تعین

دنیا جس تیزی سے ترقی کی سمت بڑھ رہی ہے، دنیا کا نقشہ ماضی کے مقابلے میں آج کہیں زیادہ چھوٹا محسوس ہوتا ہے۔ چند دہائیاں قبل جو فاصلہ ہفتوں اور مہینوں میں طے ہوتا تھا، وہ اب صرف چند گھنٹوں کا سفر ہے۔ اس سفر میں ہوابازی کا کردار پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور فیصلہ کن ہو چکا ہے۔ بین الاقوامی تجارت سے لے کر سیاحت، سفری سہولتوں سے لے کر ہنگامی امداد تک، ہر میدان میں سول ایوی ایشن جدید دور کی شہ رگ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہر سال 7 دسمبر کو منایا جانے والا سول ایوی ایشن کا عالمی دن اسی حقیقت کی یاد دہانی ہے کہ محفوظ، منظم اور پائیدار فضائی نظام نہ صرف عالمی معیشت کا اہم ستون ہے بلکہ اقوام کے درمیان رابطوں، تعاون اور سمجھ بوجھ کو فروغ دینے کا ایک طاقتور ذریعہ بھی ہے۔ اس دن کا مقصد شہری ہوا بازی کی عالمی ترقی میں اہمیت کو اجاگر کرنا اور مستقبل میں اسے مزید محفوظ، ماحول دوست اور جدید بنانے کے عزم کو تازہ کرنا ہے۔سول ایوی ایشن کا عالمی دن ''انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن‘‘ (ICAO) کے قیام کی یاد میں منایا جاتا ہے، جس کا مقصد بین الاقوامی فضائی سفروں کو محفوظ، منظم اور ہم آہنگ قواعد و ضوابط کے تحت چلانا ہے۔ شہری ہوابازی کے عالمی دن کی بنیاد 1994ء میں اس وقت ڈالی گئی جب ''انٹرنیشنل سول ایوی ایشن آرگنائزیشن‘‘ کی 50 ویں سالگرہ منائی جا رہی تھی۔ اس کے بعد سے اس دن کو خصوصیت کے ساتھ ہر سال 7 دسمبر کو منایا جاتا ہے۔ اس کی سرگرمیاں 1996ء میں اس وقت شروع کی گئیں جب اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے کینیڈا کے تعاون سے 7 دسمبر کی تاریخ کو اس کی یادگار کے طور پر تسلیم و منظور کیا۔ اقوام متحدہ نے اس دن کو عالمی سطح پر تسلیم کرکے دنیا کو یہ پیغام دیا کہ ہوابازی صرف ایک سفری ضرورت نہیں بلکہ عالمی امن، معیشت اور ترقی کا مرکزی ستون ہے۔سول ایوی ایشن آج عالمی معاشی سرگرمیوں میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتی ہے۔بین الاقوامی تجارت کا 40 فیصد سے زائد حصہ فضائی راستوں سے ہوتا ہے۔ لاکھوں افراد روزانہ فضائی سفر کرتے ہیں، جس سے سیاحت کے دروازے کھلتے اور ثقافتوں کے درمیان فاصلہ کم ہوتا ہے۔خطرناک ہنگامی حالات،قدرتی آفات، طبّی ایمرجنسی یا انسانی بحران میں ہوابازی ہی سب سے فوری اور موثر سہولت مہیا کرتی ہے۔ پاکستان میں سول ایوی ایشن کا کردارپاکستان میں سول ایوی ایشن اتھارٹی (CAA) نہ صرف ہوائی اڈوں کے انتظام و انصرام کی ذمہ دار ہے بلکہ ملک کی فضائی حدود، سیکیورٹی اقدامات، پائلٹس کی تربیت اور ایئر لائنز کے معیار کی نگرانی بھی کرتی ہے۔ماحولیات اور مستقبل کی ایوی ایشنعالمی سطح پر ہوابازی کو ماحول دوست بنانے کی کوششیں جاری ہیں، جیسے کہ !٭...سستے اور ماحول دوست بائیو فیول٭...کاربن اخراج میں کمی کے پروگرام٭...الیکٹرک اور ہائبرڈ ایئرکرافٹ پر تحقیقیہ سب وہ اقدامات ہیں جو آئندہ برسوں میں دنیا کو زیادہ صاف، محفوظ اور پائیدار ہوابازی کی طرف لے جائیں گے۔محفوظ فضائی سفر،عالمی ضرورتسول ایوی ایشن کی اہم ترین ذمہ داری مسافروں کی حفاظت ہے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جدیدریڈار سسٹمز، ایئر ٹریفک مینجمنٹ، پائلٹس کی عالمی معیار کے مطابق تربیت اور بین الاقوامی قوانین پر سختی سے عمل کرتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہوابازی دنیا کے محفوظ ترین سفری ذرائع میں شمار ہوتی ہے۔بعض ایئر لائنز کا سیفٹی ریکارڈ بہت اچھا ہوتا ہے۔ گو کہ ناگہانی حادثہ تو کبھی بھی کسی کو بھی پیش آسکتا ہے، تاہم کچھ ایئر لائنز اپنی جانب سے مسافروں کو محفوظ سفر فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتیں۔ فضائی سفر کیلئے ہمیشہ ایسی ہی ایئر لائن کا انتخاب کیا جائے جن کا سیفٹی ریکارڈ اچھا ہو۔اس کے برعکس ایسی ایئر لائنز جن کے طیاروں میں اکثر خرابی کی اطلاعات سامنے آتی ہوں، کوشش کی جائے کہ ان میں سفر سے گریز کریں۔کیا طیارے میں کوئی محفوظ سیٹ ہے؟یہ سوال اکثر مسافروں کی طرف سے کیا جاتا ہے۔لندن کی گرین وچ یونیورسٹی نے 2011ء میں ایک ''پانچ قطاروں کے اصول‘‘ کا نظریہ پیش کیاتھا۔اس نظریے کے مطابق اگر آپ ایمرجنسی ایگزٹ کے نزدیک 5 قطاروں میں موجود کسی سیٹ پر بیٹھے ہیں تو کسی حادثے کی صورت میں آپ کے بچنے کا امکان زیادہ ہو سکتا ہے۔تاہم امریکی ایوی ایشن کے ماہرین نے اس کو یکسر مسترد کردیا۔امریکا کے وفاقی ہوا بازی کے ادارے سے تعلق رکھنے والے ان ماہرین کا کہنا ہے کہ جہاز میں کوئی بھی سیٹ محفوظ نہیں کہی جاسکتی۔کسی حادثے کی صورت میں تمام مسافروں اور عملے کو یکساں خطرات لاحق ہوتے ہیں۔ان کا کہنا ہے کہ بچنے کا انحصار اس بات پر ہے کہ جہاز کو کس قسم کا حادثہ پیش آیا ہے۔ مثال کے طور پر اگر ایمرجنسی ایگزٹ کے قریب آگ بھڑک اٹھی ہے تو ظاہر ہے اس سے سب سے زیادہ خطرے میں وہی افراد ہوں گے جو اس ایگزٹ کے نزدیک بیٹھے ہیں۔ماہرین کا کہنا ہے کہ حادثے کی صورت میں جہاز کا ہر حصہ مختلف انداز سے متاثر ہوتا ہے لہٰذا یہ کہنا بالکل ناممکن ہے کہ جہاز کی کوئی سیٹ بالکل محفوظ ہے۔سول ایوی ایشن کا عالمی دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ فضائی سفر محض سہولت نہیں بلکہ ایک ایسا نظام ہے جو دنیا کو جوڑے رکھتا ہے۔ یہ عالمی معیشت کو تقویت دیتا ہے، ثقافتی فاصلے کم کرتا ہے، ہنگامی حالات میں انسانیت کی خدمت کرتا ہے ۔آج ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر کے ممالک ہوابازی کے شعبے کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالیں، سیکیورٹی اور تربیت کے معیارات کو مزید بہتر بنائیں اور ماحول دوست نظام کی جانب قدم بڑھائیں تاکہ آنے والی نسلیں بھی محفوظ فضائی دنیا سے فائدہ اٹھا سکیں۔ 

مل کر بُن لیا شاہکار!اون سے دنیا کا سب سے بڑا نقشہ تیار

مل کر بُن لیا شاہکار!اون سے دنیا کا سب سے بڑا نقشہ تیار

آئرلینڈ کی ہنر مند خواتین نے اپنی غیر معمولی مہارت، صبر اور تخلیقی صلاحیت کا ثبوت دیتے ہوئے اُون کے دھاگوں سے ایسا حیرت انگیز شاہکار تخلیق کیا ہے جسے دنیا کا سب سے بڑا بُنا ہوا ماڈل قرار دیا جا رہا ہے۔ نقشے کی شکل میں تیار کیا گیا یہ وسیع و عریض فن پارہ نہ صرف آئرش ثقافت کی خوبصورتی اور ہنرمندی کا مظہر ہے بلکہ اس بات کی روشن مثال بھی ہے کہ جب روایتی فنون کو جذبے اور لگن کے ساتھ اپنایا جائے تو وہ عالمی سطح پر بھی اپنی پہچان بنا لیتے ہیں۔ خواتین کی ایک ٹیم نے مہینوں کی محنت کے بعد اُون کے نرم دھاگوں کو رنگوں، تہوں اور بناوٹوں میں یوں سمویا کہ گویا آئرلینڈ کا نقشہ زندگی کی نئی روشنی پا کر سامنے آگیا ہو۔ یہ منفرد تخلیق اب سیّاحوں، فنونِ لطیفہ کے شائقین اور عالمی میڈیا کی توجہ کا مرکز بنی ہوئی ہے۔آئرلینڈ کی خواتین کے ایک گروپ نے اُون کی مدد سے اپنے ملک کا نقشہ تخلیق کیا ہے۔ دنیا کے سب سے بڑے بُنے ہوئے ماڈل میں گھروں اور درختوں سے لے کر ایک لائٹ ہاؤس تک سب کچھ شامل ہے، حتیٰ کہ ایک شرارتی کتا بھی نظر آتا ہے۔ شاندار اُونی ماڈل ستمبر میں نمائش کیلئے رکھا گیا جو 15.92 مربع میٹر (171.36 مربع فٹ) پر مشتمل ہے۔ سمجھنے کیلئے یوں کہیے کہ یہ رقبہ تقریباً ایک کار پارکنگ سپیس کے برابر ہے۔گروپ کا مشن ہے کہ ''لوک آرٹ کی روایات اور جدید تکنیکوں میں جڑی ہوئی شمولیّت پر مبنی اور دلکش ہنری سرگرمیوں کے ذریعے تخلیقی صلاحیت اور خود اظہار کو فروغ دیا جائے۔خواتین کے اس گروہ نے 2018ء میں اس منصوبے کا آغاز کیا، جب انہیں ایک پاپ اَپ ٹورسٹ میپ سے تحریک ملی جس میں آئرلینڈ کے مشہور مقامات دکھائے گئے تھے۔نقشہ تیار کرنے کیلئے انہوں نے تقریباً 200 اُون کے گولے استعمال کیے،جن میں سے کم از کم 80 فیصد انہیں عطیہ کیے گئے۔مزید برآں 1,500 میٹر سے زیادہ ٹِن فائل (خطّہ زمین کی ساخت بنانے کیلئے)، 5ہزار سے زائد ڈریسنگ پِنیں، تقریباً 10 انسولیٹنگ بورڈز، 50 میٹر سے زیادہ تار، 100 سے زائد گلو اسٹکس اور ''تھوڑی سی ہنسی خوشی‘‘ بھی شامل رہی، جس نے اس نقشے کو تخلیق دینے میں اہم کردار ادا کیا۔اس تخلیق میں مشہور ٹائی ٹینک جہاز کا ایک ننھا ماڈل بھی شامل ہے، جو اس تاریخی حقیقت کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ ٹائی ٹینک بیلفاسٹ میں تیار کیا گیا تھا۔ آئرلینڈ کے ایک چھوٹے سے A4 سائز کے نقشے سے آغاز کرتے ہوئے، ان خواتین نے سب سے پہلے یہ خاکہ بنانا شروع کیا کہ وہ کیا کرنے جا رہی ہیں۔ انہوں نے منصوبے کو مکمل طور پر تصور کرنے میں مدد کیلئے اس تصویر کو بڑا کرایا، اور پھر بُنائی کا کام شروع کیا۔اور یہ سب کچھ انہوں نے کسی بھی تیار شدہ پیٹرن کے بغیر کیا، بس اپنی ذاتی تخیل کی پیروی کرتے ہوئے۔گروپ کی رکن لِز بٹلر کے مطابق: ''کریئیٹو کرافٹرز (Creative crafters) کی بنیاد ہوم فرسٹ نِٹنگ گروپ سے ہوئی، جسے میری بلیک نے قائم کیا تھا، اور وہ آج بھی اس گروپ کی رکن ہیں‘‘۔ لِز بٹلر نے مزید کہا کہ میری پسندیدہ بات یہ سب کچھ ہے، یہ سفر، تجربہ اور خاص طور پر کہانی۔ کارنیو، کاؤنٹی وِکلَو کے اس چھوٹے سے قصبے میں خواتین کا ایک گروپ ہر ہفتے کارنیو کمیونٹی کیئر میں ملتا تھا تاکہ سب سے بڑا بُنا ہوا ماڈل تیار کیا جا سکے۔ میرا یقین ہے کہ میں تمام خواتین کی جانب سے یہ کہہ سکتی ہوں کہ یہ منصوبہ بہت مزے دار تھا۔کورونا وائرس کی وبا اور اس کے بعد کے لاک ڈاؤنز نے کئی رکاوٹیں اور دل شکستہ کرنے والے لمحے پیدا کیے۔ گروپ ایک ساتھ جمع نہیں ہو سکا، جس کی وجہ سے انہیں 2020ء میں اپنا منصوبہ مؤخر کرنا پڑا۔ لِز نے کہا: ہم 2022ء میں واپس آئے، لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ ہمارے دو ارکان بیماری کی وجہ سے انتقال کر گئے، ہم ہمیشہ انہیں یاد رکھیں گے۔لِز بٹلر نے کہا: ہم جان گئے کہ اب ہمیں یہ منصوبہ صرف اپنے لیے نہیں بلکہ ان کے اعزاز میں بھی مکمل کرنا ہے۔ ہم دوبارہ کام میں لگ گئے اور اسے مکمل کیا، جو اب ہمارا مشن بن چکا تھا۔ ہم نے اپنی نمائش جولائی 2024 میں لانچ کی۔ یہ کامیاب رہی، اور آج بھی ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔ ہم نے دنیا کا ریکارڈ توڑنے یا اپنی اور اپنے پیارے نقشے کی توجہ حاصل کرنے کیلئے یہ کام نہیں کیا تھا۔ یہ ایک چیلنج تھا، تاہم ہم سب اس تعاون اور توجہ کے بہت شکر گزار ہیں اور اسے دل سے سراہتے ہیں۔لِز نے بتایا کہ گروپ کو ماڈل کے کچھ بڑے حصے بنانے میں بھی مشکلات پیش آئیں۔ہمیں بہت تخلیقی ہونا پڑا۔ انہوں نے کہا کہ الجسٹر میں واقع جائنٹس کاز وے کیلئے یہ شکل ہم نے 12 سمارٹیز کے ڈبوں سے بنائی یہ اس کی ہیکساگونل (چھ کونی) ساخت کیلئے بالکل موزوں تھی اور اگر میں کہوں تو یہ واقعی ایک ذہانت بھرا حل تھا۔ 

آج تم یاد بے حساب آئے!جنید جمشید ایک ہمہ جہت شخصیت(1969-2016ء)

آج تم یاد بے حساب آئے!جنید جمشید ایک ہمہ جہت شخصیت(1969-2016ء)

٭...جنید جمشید 3 ستمبر 1969ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔٭...لاہور کی یو ای ٹی سے مکینیکل انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کرنے کے بعد کچھ عرصہ پاک فضائیہ میں سول کنٹریکٹر کی حیثیت سے کام کیا ۔٭... موسیقی کوکرئیر بنانے کیلئے انہوں نے ملازمت سے استعفیٰ دے دیااور ملی نغمہ ''دل دل پاکستان‘‘گا کر عالمی شہرت حاصل کی۔ ان کے گروپ ''وائٹل سائنز‘‘ کو بھی اسی ملی نغمے سے پہچان ملی۔٭...2002ء میں اپنی چوتھی اور آخری پاپ البم کے بعد اسلامی تعلیمات کی جانب ان کا رجحان بڑھنے لگا اور ماضی کے پاپ اسٹار ایک نعت خواں کے طور پر ابھرے۔٭...2004ء میں جنید جمشید نے گلوکاری چھوڑنے اور اپنی زندگی تبلیغی کاموں کیلئے وقف کرنے کا اعلان کیا۔٭...انہوں نے نعت خوانی شروع کی تو اس میں بھی نام کمایا۔وہ اکثر ٹی وی چینلوں پر نعت، حمد اور مناجات پیش کرتے تھے۔ان کے بہت سے کلام دنیا بھر میں مقبول ہوئے۔٭...اپنا کلاتھنگ برانڈ متعارف کرا کربزنس کے میدان میں قدم رکھا تو یہاں بھی کامیابیوں نے ان کے قدم چومے ۔٭...وہ ماہ رمضان کی خصوصی نشریات اور پروگراموں میں بطور میزبان کے طور بھی نمایاں رہے۔٭...وہ فلاحی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتے رہے، کراچی میں کچرا اٹھانے کی مہم کی بھی قیادت کی۔٭...2007ء میں جنید جمشید کو ان کی خدمات کے اعتراف میں حکومت کی طرف سے ''تمغہ امتیاز‘‘ سے نوازا گیا۔٭...داڑھی رکھ کر اسلام کی تبلیغ شروع کرنے کے باعث عوام نے انہیں مبلغِ اسلام کہنا اور سمجھنا بھی شروع کردیا تھا۔٭... مبلغِ اسلام جنید جمشید 7 دسمبر 2016ء کو پی آئی اے کی فلائٹ نمبر 661 کے ایک حادثے میں وفات پا گئے۔مقبول نغمات ٭... جاں جاں پاکستان(ملی نغمہ)٭...ایسے ہم جیئے(ملی نغمہ)٭...سانولی سلونی سی محبوبہ(رومانوی گیت)٭...وہ کون تھی(لائٹ ٹریک)٭...تمہارا اور میرا نام(رومانوی گیت) مقبول نعتیں ٭...میرا دل بدل دے٭...محمد کا روضہ قریب آ رہا ہے٭...دنیا کے اے مسافر منزل تیری قبر ہے٭...الٰہی تیر چوکھٹ پر٭... میں تو امتی ہوں 

آج کا دن

آج کا دن

پرل ہاربر پر حملہپرل ہاربر پر حملہ امپیریل جاپانی نیوی ایئر سروس کی طرف سے 7 دسمبر 1941ء کو ہوائی کے علاقے ہونولولو میں پرل ہاربر بیس پر کیا گیا۔یہ جاپان کی جانب سے امریکہ پر کیا جانے والا حیران کن حملہ تھا کیونکہ اس وقت امریکہ پوری طرح سے عالمی جنگ میں حصہ بھی نہیں لے رہا تھا اور ایک غیر جانبدار ملک تھا۔یہی حملہ امریکہ کا دوسری عالمی جنگ میں شامل ہونے کی وجہ بنااور حملے کے دوسرے ہی دن امریکہ بھرپور انداز میں جنگ میں شامل ہو گیا۔ اس حملے میں180 سے زیادہ امریکی طیارے تباہ ہوئے،2ہزار 403 امریکی مارے گئے اورایک ہزار 178 دیگر زخمی ہوئے۔لانگ آئی لینڈ ریل شوٹنگلانگ آئی لینڈ ریل شوٹنگ کا واقعہ7 دسمبر 1993ء کو پیش آیا۔جیسے ہی ٹرین میریلن ایونیوسٹیشن پہنچی ٹرین میں سوار مسافر فرگوسن سے دوسرے مسافروں پر نیم خودکار پستول سے فائرنگ شروع کر دی۔شوٹنگ سے 6 مسافریں ہلاک جبکہ19شدید زخمی ہوئے۔ اس سے قبل کے فرگیوسن مزید قتل عام کرتا،ٹرین میں موجود مسافروں نے اسے پکڑ لیا۔ اسے فروریچھ افراد کو قتل اور 19کو شدید زخمی کرنے پر سزا سنائی گئی۔ بلیو ماربلبلیو ماربل زمین کی ایک تصویر ہے جو 7 دسمبر 1972ء کو چاند پر جاتے ہوئے اپالو17خلائی جہاز کے عملے کی جانب سے سیارے کی سطح سے تقریباً 29ہزار کلومیٹر کے فاصلے سے لی گئی تھی۔ یہ بنیادی طور پر بحیرہ روم سے لے کر انٹارکٹیکا تک زمین کو دکھاتی ہے۔ یہ پہلا موقع تھا جب اپالو کی رفتار نے جنوبی قطب کی تصویر کشی ممکن بنائی۔

انسانی ذہن کو نشانہ بنانے والی ٹیکنالوجی’’برین ویپنز‘‘

انسانی ذہن کو نشانہ بنانے والی ٹیکنالوجی’’برین ویپنز‘‘

جدید سائنس کا سیاہ رخ، سائنسدانوں کا خوفناک انتباہ جاری''دماغ پر کنٹرول‘‘ کرنے والے ہتھیار بظاہر کسی سائنس فکشن فلم کا خیال محسوس ہوتے ہیں، لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اب یہ حقیقت کا روپ اختیار کرتے جا رہے ہیں۔ سائنس دانوں نے ذہن کو بدل دینے والے ''برین ویپنز‘‘ کے بارے میں ایک خوفناک انتباہ جاری کیا ہے، جو انسان کے ادراک، یادداشت اور یہاں تک کہ رویہ کو بھی نشانہ بنا سکتے ہیں۔ نئی شائع شدہ کتاب ''Preventing Weaponization of CNS-acting Chemicals: A Holistic Arms Control Analysis Check Access‘‘ میں بریڈفورڈ یونیورسٹی کے ڈاکٹر مائیکل کراؤلی اور پروفیسر میلکم ڈینڈو کا کہنا ہے کہ حالیہ سائنسی پیش رفت کو ایک ''وارننگ‘‘ سمجھا جانا چاہیے۔ وہ علم جو ہمیں اعصابی امراض کا علاج کرنے میں مدد دیتا ہے، اس کا غلط استعمال سوچ میں خلل ڈالنے، جبری اطاعت پیدا کرنے یا مستقبل میں لوگوں کو انجانے ایجنٹوں میں تبدیل کرنے کیلئے بھی کیا جا سکتا ہے۔امریکہ، چین، روس اور برطانیہ سمیت کئی ممالک 1950ء کی دہائی سے مرکزی اعصابی نظام (CNS) کو نشانہ بنانے والے ہتھیاروں پر تحقیق کر رہے ہیں۔ اب ڈاکٹر کراؤلی اور پروفیسر ڈینڈو کا کہنا ہے کہ جدید نیورو سائنس اتنی ترقی کر چکی ہے کہ انتہائی خوفناک ذہنی ہتھیار حقیقت بن سکتے ہیں۔ پروفیسر ڈینڈو کے مطابق ''ہم ایک ایسے دور میں داخل ہو رہے ہیں جہاں دماغ خود جنگ کا میدان بن سکتا ہے۔مرکزی اعصابی نظام میں مداخلت کے آلات خواہ وہ بے ہوشی پیدا کرنا ہوں، ذہنی انتشار یا جبراً اطاعت، زیادہ درست، زیادہ قابلِ حصول اور ریاستوں کیلئے زیادہ پرکشش ہوتے جا رہے ہیں‘‘۔1950ء اور 1960ء کی دہائیوں میں دنیا کی بیشتر بڑی طاقتیں اپنے ذہن کنٹرول کرنے والے ہتھیار تیار کرنے کی بھرپور کوششیں کر رہی تھیں۔ ان کا مقصد ایسے آلات بنانا تھا جو بڑی تعداد میں لوگوں کو بے ہوشی، وہم، الجھن یا نیند کے ذریعے غیر فعال کر سکیں۔ سب سے زیادہ مشہور امریکی فوج نے ''BZ‘‘ مرکب تیار کیا، جو شدید حیرت، وہم، اور ذہنی خلل پیدا کرتا ہے۔ اسی دوران، چینی فوج نے ایک ''نارکوسس گن‘‘ تیار کی، جو سیرنج کے ذریعے غیر فعال کرنے والے کیمیکلز چھوڑنے کیلئے ڈیزائن کی گئی تھی۔ تاہم، ڈاکٹر کراؤلی اور پروفیسر ڈینڈو بتاتے ہیں کہ مرکزی اعصابی نظام کو نشانہ بنانے والے ہتھیار کا واحد استعمال لڑائی میں روسی سیکیورٹی فورسز نے 2002ء کے ماسکو تھیٹر محاصرہ میں کیا۔ جب مسلح چیچن جنگجوؤں نے 900 شہریوں کو یرغمال بنایا، سیکیورٹی فورسز نے انہیں غیر فعال کرنے کیلئے فینٹانائل سے ماخوذ ''انکیپسیٹیٹنگ کیمیکل ایجنٹ‘‘ استعمال کیا۔ اگرچہ اس کیمیائی ہتھیار نے محاصرہ تو ختم کرا دیا، مگر گیس نے 900 میں سے 120 یرغمالیوں کو ہلاک کر دیا اور متعدد دیگر افراد طویل المدتی طبی مسائل یا قبل از وقت موت سے دوچار ہوئے۔ اس کے بعد سے ایسے ہتھیاروں کی ذہن کو مسخ کرنے والی صلاحیتیں صرف دشمن کو بے ہوش کرنے یا وہم پیدا کرنے تک محدود نہیں رہیں۔ وہی سائنسی تحقیق جو اعصابی امراض کے علاج میں مدد دے رہی ہے، انہی دماغی افعال کو نشانہ بنانے والے ہتھیار بنانے کیلئے بھی استعمال ہو سکتی ہے۔ پروفیسر ڈینڈو کہتے ہیں: ''یہی وہ دوہری نوعیت کا مسئلہ ہے جس کا ہمیں سامنا ہے‘‘۔ مثال کے طور پر، سائنس دان دماغ کے ''سر وائیول سرکٹس‘‘ (survival Circuits) کا مطالعہ کر رہے ہیں، یعنی وہ عصبی راستے جو خوف، نیند، جارحیت اور فیصلہ سازی کو کنٹرول کرتے ہیں۔ ان سرکٹس کو سمجھنا اعصابی بیماریوں کے علاج کیلئے ضروری ہے، مگر اسی علم سے دماغ کے ان حصوں کو ہتھیار بنانے کی راہ بھی کھلتی ہے۔محققین خبردار کرتے ہیں کہ مرکزی اعصابی نظام کو نشانہ بنانے والے ہتھیار اس وقت کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال سے متعلق قوانین میں موجود ایک ''خلا‘‘ (loophole) میں آتے ہیں۔کیمیکل ویپنز کنونشن جنگ میں نقصان دہ کیمیکلز کے استعمال پر پابندی عائد کرتا ہے، لیکن اس میں ایک مبہم گرے ایریا موجود ہے جو بعض حالات میںجیسے قانون نافذ کرنے والے اداروں کی کارروائی میں مخصوص کیمیکلز کے استعمال کی اجازت دیتا ہے۔یہ صورتحال موجودہ قوانین کے اندر رہتے ہوئے طاقتور ذہنی کنٹرول کرنے والے ہتھیاروں کی تیاری اور استعمال کیلئے ایک ممکنہ قانونی جواز فراہم کرتی ہے۔پروفیسر ڈینڈو کہتے ہیں: ''ان معاہدوں کے اندر اور ان کے درمیان بعض خطرناک ریگولیٹری خلا موجود ہیں۔ اگر انہیں پر نہ کیا گیا تو ہمیں خدشہ ہے کہ کچھ ممالک ان خلا سے فائدہ اٹھاتے ہوئے CNS اور دیگر ذہنی طور پر غیر فعال کرنے والے ہتھیاروں کے خصوصی پروگرام شروع کر سکتے ہیں۔وہ مزید کہتے ہیں: ''ہمیں ابھی اقدام کرنا ہوگا تاکہ سائنس کی حرمت اور انسانی ذہن کی تقدیس کا تحفظ کیا جا سکے‘‘۔ یہ کیا ہیں اور کیسے کام کرتے ہیں؟ان ہتھیاروں کو ''سائیکو ٹرونک‘‘ (psychotronic) یا ''مائنڈ کنٹرول ویپنز‘‘ (Mind Control Weapons) کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ یہ ''الیکٹرومیگنیٹک‘‘ (electromagnetic) طاقتوں کا استعمال کر کے مختلف نتائج حاصل کرتے ہیں۔ ان میں ذہن پڑھنا، ذہنی کنٹرول، اذیت دینا اور ہراساں کرنا شامل ہیں۔ان دعوؤں کی بنیاد کچھ حد تک حقیقت پر بھی ہے۔1953ء میں، اس وقت کے سینٹرل انٹیلیجنس کے ڈائریکٹر نے باضابطہ طور پر پروجیکٹ ''ایم کے الٹرا‘‘ (MKUltra) کی منظوری دی تھی۔ اس کا مقصد امریکی حکومت کو یہ تجربات کرنے میں مدد دینا تھا۔ سی آئی اے کے ڈائریکٹر نے 1977ء میں گواہی دی تھی کہ وہ اس مقصد کو ''انسانی رویّے کو بدلنے میں حیاتیاتی اور کیمیائی مواد کے استعمال‘‘ کے ذریعے حاصل کرنے کی امید رکھتے تھے۔ بعد میں ایسے فوٹیج سامنے آئے جس میں دکھایا گیا کہ اسے ہتھیار کے طور پر استعمال کرنے کی صلاحیت پر تجربات کیے گئے تاکہ دشمن افواج کو کنٹرول یا قابو میں رکھا جا سکے۔ اس کے بعد سے، سازشی نظریات رکھنے والوں نے دعوے بڑھاتے ہوئے کہا کہ CIA یا دیگر ادارے مختلف تکنیکوں پر تجربات کر سکتے ہیں۔کچھ افراد کا دعویٰ ہے کہ انہیں psychotronic ہتھیاروں کا نشانہ بنایا گیا، جس سے مختلف ناخوشگوار اثرات سامنے آئے۔ ان میں یہ بھی شامل ہے کہ لوگوں کے ذہن میں خیالات اور آوازیں پہنچائی جائیں، حالانکہ زیادہ تر طبی ماہرین اس بات پر متفق ہیں کہ یہ عصبی یا نفسیاتی مسائل کی وجہ سے ہوتا ہے۔  

 قطب شمالی برف، سمندر اور اسرار کا متزاج

قطب شمالی برف، سمندر اور اسرار کا متزاج

قطب شمالی، جسے شمالی قطب (North Pole) بھی کہا جاتا ہے، کرہ ارض کا شمالی ترین نقطہ ہے، جو 90° شمالی عرض بلد پر واقع ہے۔ یہ ایسا علاقہ ہے جو زمین کے گردشی محور کا شمالی سرا ہے اور درحقیقت یہ کسی ٹھوس زمین کے بجائے بحر منجمد شمالی (Arctic Ocean) کے منجمد پانی اور برف کی تہہ پر واقع ہے۔ اس کی یہ منفرد جغرافیائی حیثیت اسے دنیا کے سب سے پر اسرار اور مشکل ترین علاقوں میں سے ایک بنا دیتی ہے۔ قطب شمالی صرف جغرافیائی اہمیت کے ساتھ حیاتیاتی تنوع، موسمیاتی نظام اور بین الاقوامی سیاست کیلئے بھی غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔قطب شمالی کی سب سے اہم خصوصیت اس کا محل وقوع ہے۔ یہ اس مقام کی نشاندہی کرتا ہے جہاں سے آپ کسی بھی سمت چلیں، وہ جنوب ہی کہلائے گی۔ یہ جغرافیائی قطب شمالی کہلاتا ہے جس سے قطب نما (Compass) کا مقناطیسی شمالی قطب مختلف ہوتا ہے اور وہ وقت کے ساتھ ساتھ اپنی جگہ تبدیل کرتا رہتا ہے۔ قطب شمالی کی آب و ہوا انتہائی سرد ہوتی ہے۔ یہاں کی اوسط سالانہ درجہ حرارت منفی 40 ڈگری سیلسیس کے قریب رہتا ہے جبکہ گرمیوں میں یہ نقطہ انجماد تک پہنچ سکتا ہے۔ اس علاقے میں سال کے چھ ماہ دن اور چھ ماہ رات رہتی ہے۔ سورج مارچ کے اعتدال (Equinox) کے قریب طلوع ہوتا ہے اور ستمبر کے اعتدال کے قریب غروب ہو جاتا ہے۔ مسلسل روشنی یا مسلسل تاریکی کا دورانیہ اسے دنیا کے دیگر علاقوں سے ممتاز کرتا ہے۔ شمالی قطب اور اس کے گرد و نواح میں زندگی موجود ہے۔ قطبی ریچھ (Polar Bears) یہاں کی سب سے مشہور مخلوق ہیں جو برف پر اپنی زندگی گزارتے ہیں۔ وہیل مچھلیاں، نروہل اور کئی قسم کی سمندری پرندے بھی اس خطے کا حصہ ہیں۔قطب شمالی کو صدیوں تک ناقابل تسخیر علاقہ سمجھا جاتا رہا ہے۔ ابتدائی یورپی مہم جو بحر اوقیانوس سے بحر الکاہل تک مختصر بحری راستہ، جسے شمال مغربی راستہ کہا جاتا ہے، تلاش کرنے کی کوشش کرتے رہے۔قطب شمالی تک پہنچنے کا سب سے پہلا مصدقہ دعویٰ امریکی مہم جو رابرٹ پیری (Robert Peary)نے 1909ء میں کیا تھا۔ قطب شمالی تک پہنچنے والے جدید طریقوں میں ہوائی جہاز، آئس بریکر بحری جہاز اور زیر آب آبدوزیں شامل ہیں۔ 1958ء میں، امریکی جوہری آبدوز یو ایس ایس ناٹیلس (USS Nautilus)نے قطب شمالی کے نیچے سے گزر کر تاریخ رقم کی۔ سائنسدانوں نے یہاں عارضی تحقیقی اسٹیشن قائم کیے ہیں، روس کے ڈرفٹنگ اسٹیشنز اس کے سب سے بڑی مثال ہیں اور وہ سمندری دھاروں، موسم اور برف کی ساخت کا مطالعہ کرتے ہیں۔قطب شمالی دنیا کے سب سے زیادہ زیر بحث علاقوں میں سے ایک ہے اور اس کی بنیادی وجہ عالمی ماحولیاتی تبدیلی (Global Climate Change) ہے۔ شمالی قطب کا علاقہ زمین کے ان حصوں میں شامل ہے جہاں درجہ حرارت میں اضافہ سب سے زیادہ ہو رہا ہے۔ آرکٹک کی برف، جو کرہ ارض کیلئے ریگولیٹر کا کام کرتی ہے، تیزی سے پگھل رہی ہے۔ یہ برف سورج کی روشنی کو واپس خلا میں منعکس کرتی ہے۔ جب برف پگھل کر گہرے نیلے سمندر میں تبدیل ہو جاتی ہے تو سمندر زیادہ گرمی جذب کرنے لگتا ہے جس سے برف پگھلنے کا عمل مزید تیز ہو جاتا ہے۔برف کے پگھلنے سے قطبی ریچھوں، والرس اور سیل مچھلیوں کے قدرتی مساکن خطرے میں پڑ گئے ہیں۔ قطبی ریچھوں کو شکار کیلئے بڑی برف کی شیٹس کی ضرورت ہوتی ہے اور ان کی غیر موجودگی ان کی نسل کو معدومیت کے قریب لا رہی ہے۔آرکٹک کی برف اگرچہ بذات خود سمندر کی سطح میں زیادہ اضافہ نہیں کرتی کیونکہ یہ پہلے ہی پانی میں تیر رہی ہے لیکن گرین لینڈ جیسے قریبی علاقوں کی برف کی چادروں کا پگھلنا سمندر کی سطح میں اضافے کا باعث بن رہا ہے جس سے دنیا بھر کے ساحلی علاقے خطرے سے دوچار ہیں۔ برف کے پگھلنے نے قطب شمالی کی اقتصادی اور سیاسی اہمیت میں بھی اضافہ کر دیا ہے۔ برف کے کم ہونے سے شمال مغربی راستہ اور شمالی بحری راستہ قابل رسائی ہوتے جا رہے ہیں۔ یہ نئے راستے ایشیا اور یورپ کے درمیان سمندری سفر کا وقت اور فاصلہ بہت کم کر سکتے ہیں جس سے عالمی تجارت پر مثبت اثر پڑے گا۔بحر منجمد شمالی کے نیچے تیل، گیس، اور دیگر معدنیات کے وسیع ذخائر کا اندازہ لگایا گیا ہے۔ ان وسائل کو نکالنے کی دوڑ میں امریکہ، روس، کینیڈا، ڈنمارک اور ناروے جیسے ممالک شامل ہیں جو آرکٹک کے علاقوں پر اپنے علاقائی دعوے پیش کر رہے ہیں۔ یہ دعوے بین الاقوامی قانون اور سلامتی کے نئے مسائل پیدا کر رہے ہیں۔