توانائی کے لیے قابل تجدید ذرائع

توانائی کے لیے قابل تجدید ذرائع

اسپیشل فیچر

تحریر : ڈاکٹر اسلم فاروقی


Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

دنیا کی ترقی کے ساتھ توانائی کے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔ ساری دنیا اس کوشش میں لگی ہوئی ہے کہ کسی طرح اس کی توانائی کا مسئلہ حل ہو۔ غذا، پٹرول، برق، ایندھن اور دیگر ذرائع انسان اور اس کی مشینوں کو چلانے کے لیے توانائی فراہم کرتے ہیں۔ توانائی کے بغیر کوئی کام نہیں ہوتا اور کام نہ ہو تو ملک کی ترقی نہیں ہوتی۔ اس لیے جاپان اور امریکا سمیت ساری دنیا کے ممالک اس کوشش میں لگے ہیں کہ ان کی توانائی کا مسئلہ حل ہو یا کم از کم پیدا نہ ہو تاکہ ان ممالک کی ترقی میں خلل نہ آئے۔ آئیے دیکھیں کہ ہمیں قدرت سے حاصل ہونے والی توانائی کے ذرائع کیا ہیں اور انہیں ہم کیسے بہتر طور پر استعمال کر سکتے ہیں۔توانائی:کام کرنے کی طاقت فراہم کرنے والے ذریعہ کو توانائی یا انرجی کہتے ہیں۔ سورج توانائی کا سب سے بڑا ذریعہ ہے۔ ایسے وسائل جن کو قدرت میں ہم لامحدود طور پر پاتے ہیں اور جن کا بار بار استعمال ممکن ہے انہیں قابل تجدید توانائی کے وسائل کہتے ہیں۔ یہ وسائل حسب ذیل ہیں۔ شمسی توانائی، ہوائی توانائی، آبی توانائی، جزری توانائی، جیوتھر مل توانائی، بائیو ماس توانائی، بائیو گیس توانائی۔شمسی توانائی:سورج ہمارے اردگرد موجود توانائی کا سب سے بڑا ذخیرہ ہے۔ سورج روشنی کی شکل میں مستقل حرارت زمین کو روانہ کرتا ہے۔ شمسی توانائی قدرت میں مفت اور آسانی سے دستیاب ہے۔ انسان شمسی توانائی کو چیزوں کو خشک کرنے اور کپڑے سکھانے وغیرہ کے لیے استعمال کرتا آ رہا ہے۔ شمسی توانائی آلودگی سے پاک ہوتی ہے توانائی کے بنیادی ذخائر جیسے پٹرول لکڑی اور کوئلہ کی قلت کے پیش نظر سورج کی توانائی کو انسانی زندگی کے فائدے کے لیے استعمال کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ شمسی چولہے، شمسی ہیٹر اور شمسی بیٹری سے چلنے والے بلب وغیرہ ایجاد ہوئے ہیں۔ لیکن ان اشیا کی قیمت زیادہ ہے اور ان کا استعمال موسم کے انحصار پر بھی ہوتا ہے۔ خلا میں گھوم رہے مصنوعی سیارے بھی شمسی توانائی سے کام کرتے ہیں۔ مستقبل میں شمسی توانائی کے استعمال کے بڑھنے کے امکانات زیادہ ہیں۔ہوائی توانائی: ہوا جب تیز چلے تو یہ طاقت ور ہو جاتی ہے اور راستے میں آنے والے پیڑ پودوں کو اکھاڑ دینے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ اس لیے پہاڑ کی چوٹی سمندر ساحل یا ایسے علاقے جہاں ہوا تیز چلتی ہے وہاں پنکھے لگا دیئے جاتے ہیں۔ ان پنکھوں کے چلنے سے مقناطیس میں برقی رو پیدا ہوتی ہے۔ یہ توانائی کم لاگت اور آلودگی سے پاک ہوتی ہے۔ جزری توانائی ( Tidal Energy): سورج اور چاند کی قوت کشش سے سمندر میں اٹھنے والی موجوں میں بے انتہا توانائی چھپی ہوتی ہے۔ جزری توانائی کو حاصل کرنے کے لیے جزری ڈیمز بنائے جاتے ہیں۔ اونچی موجوں کے پانی کو ان ڈیموں میں جمع کر لیا جاتا ہے اور جب پانی قوت سے ان میں داخل ہوتا ہے تو وہاں پر نصب کردہ ٹربائینز گھومنے لگتے ہیں۔ جس سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہی عمل پانی کے ڈھلنے کے وقت دہرایا جاتا ہے۔ جزری توانائی کے لیے بلند موجوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ حیاتیاتی گیس توانائی: اسے انگریزی میں بائیو گیس انرجی کہتے ہیں ۔یہ جانوروں کے گوبر، جنگلاتی اور زرعی کچرے سے تیار ہوتے ہیں۔ یہ گیس میتھین، کاربن ڈائی آکسائیڈ، ہائیڈروجن اور ہائیڈروجن سلفائیڈ پر مشتمل ہوتی ہے۔ فضلہ اور کچرے کو ایک بند پلانٹ میں جمع کیا جاتا ہے تو آکسیجن کی عدم موجودگی کی وجہ سے پیدا ہونے والے بیکٹیریا یا فضلہ کو کھانے لگتے ہیں اور خالی جگہ میں توانائی کی حامل گیسیں پیدا ہوتی ہیں۔ یہ گیسیں سستی اور بآسانی پیدا کی جا سکتی ہیں۔ اسے پکوان اور دیگر کاموں میں استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اس سے آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔ پن بجلی: دریائی پانی کو بڑے بڑے ڈیمز بنا کر روکا جاتا ہے۔ جب پانی کو اونچائی سے نیچے چھوڑا جاتا ہے تو بہاؤ کے دوران اس کی طاقت سے ٹربائنز کے پنکھے گھومنے لگتے ہیں۔ جن سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ بجلی کی پیداوار کا آسان اور سستا طریقہ ہے۔ جس سے فضائی آلودگی پیدا نہیں ہوتی۔اس طرح توانائی کے یہ وسائل انسان کو قدرت نے مفت فراہم کیے ہیں۔ اب یہ انسان پر منحصر ہے کہ وہ انہیں بہتر طریقہ پر استعمال کرتے ہوئے کس طرح اپنی زندگی کو بہتر بناتا ہے۔ ٭…٭…٭

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں
اکاشی کیکیو برج:دنیا کا طویل ترین پل

اکاشی کیکیو برج:دنیا کا طویل ترین پل

جاپان میں اکاشی کیکیو برج اس وقت دنیا کا طویل ترین سسپنشن پل ہے جو کوبے شہر کو ''اواجی شیما‘‘ جزیرے سے ملاتا ہے۔ 1998ء میں جاپانی انجینئروں نے یہ پل تعمیر کرکے برج انجینئرنگ میں ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اس پل کی تعمیر مکمل ہونے سے قبل سب سے طویل سپنشن برج کا اعزاز ڈنمارک کے گریٹ بیلٹ ایسٹ برج کو حاصل تھا جس سے یہ پل366میٹر لمبا ہے، جبکہ دنیا کے دوسرے طویل ترین پل ہمبر برج (انگلینڈ) سے اس کی لمبائی580میٹر زیادہ ہے۔ اس کے علاوہ یہ پل امریکہ کے گولڈن گیٹ برج سے بھی 710 میٹر زیادہ ہے۔ اس پل کی لمبائی 3991 میٹرز ہے۔اکاشی کیکیو پل صرف طویل ہی نہیں بلکہ سب سے اونچا پل بھی ہے۔ اس کی دو ٹاوروں کی اونچائی928فٹ ہے۔ ان کی اونچائی، ایفل ٹاور کے برابر ہے۔ اکاشی اسٹریٹ جاپان میں ایک مصروف بندرگاہ ہے چنانچہ جاپانی انجینئروں کیلئے ضروری تھا کہ وہ اس پل کو اس طرح ڈیزائن کریں جس سے یہاں جہازوں کی آمدورفت متاثر نہ ہو۔ انہیں موسم کی شدت کا بھی احساس تھا۔ یاد رہے کہ جاپان کا موسم زمین پر سخت ترین موسموں میں شمار ہوتا ہے۔ یہاں کی آبی گزر گاہ پر نہایت تیز ہوائیں چلتی ہیں۔ یہاں سالانہ 57انچ بارش پڑتی ہے۔تقریباً ہر سال یہاں سمندری اور زمینی طوفان اور زلزلے آتے رہتے ہیں۔جاپانی انجینئروں نے اس پل کو ایک خاص تکنیک کے ذریعے مضبوط بنایا جسے '' ٹرس‘‘ کہتے ہیں۔ اس تکنیک کے مطابق پل میں مختلف آہنی تکونوں کا ایک نیٹ ورک بنایا گیا ہے جس سے اگرچہ پل کی لچک کم ہونے سے یہ ٹھوس اور سخت ہو جاتا ہے لیکن تکونوں کے اس نیٹ ورک سے ہوا آر پار گزر سکتی ہے۔ اس سے ہوا کے دبائو کا بخوبی مقابلہ کیا جا سکتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ماہرین نے ہر ٹاور میں 20 ٹیونڈ ماس ڈیمپرز لگائے ہیں جو ہوا کو جذب کرکے اس کی شدت کو کم کر دیتے ہیں۔ یہ TMDمخالف سمت میں جھولنے لگتے ہیں۔ اس ڈیزائن کی وجہ سے یہ پل180میل فی گھنٹہ کی رفتار سے چلنے والی ہوائوں کا مقابلہ کر سکتا ہے۔اس پل کی ایک بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ بڑے سے بڑے زلزلے کو برداشت کر سکتا ہے۔ پل سے 150کلو میٹر دور اگر ریکٹر سکیل پر 8.5درجے کا زلزلہ آ جائے تو اسے بھی یہ پل برداشت کر سکتا ہے۔ پل کی اس صلاحیت کا مظاہرہ 17 جنوری 1995ء کو اس وقت ہوا جب اس علاقے میں ایک شدید ترین زلزلہ آیا تھا۔ اس وقت یہ پل ابھی زیر تعمیر تھا۔ اس زلزلے سے پل کے کچھ حصے متاثر ہوئے تاہم اس کا بنیادی ڈھانچہ اینکر، ستون اور ٹاور وغیرہ بالکل محفوظ رہے۔اس زلزلے کے باعث پل کی تعمیر ایک ماہ کیلئے روک دی گئی۔ اس ایک مہینے کے نقصان کو اگلے تین سالوں میں زیادہ محنت کرکے پورا کر لیا گیا اور اس طرح پروگرام کے مطابق پل کا افتتاح کردیا گیا۔ زلزلے سے ایک فائدہ یہ ہوا کہ اس کی لمبائی میں تقریباً تین فٹ کا اضافہ ہو گیا۔ پل کی تعمیر دس سال تک جاری رہی۔ تعمیر کے دوران اگرچہ ایک دو حادثات پیش آئے جن میں چھ افراد زخمی ہوئے لیکن سیفٹی کے اعلیٰ معیار کے باعث کوئی جانی نقصان نہ ہوا۔5اپریل1998ء کو جاپان کے ولی عہد اور شہزادی سیاکو نے سرکاری طور پر ایک تقریب میں اس پل کا افتتاح کیا اور اس موقع پر 15000مہمانوں نے اس پل کے اوپر چل کر اس پر سفر کا باقاعدہ آغاز کیا۔ اس پل کے بارے میں چند دلچسپ حقائق بھی ہیں مثلاً اس میں 3لاکھ کلومیٹر لمبی کیبل استعمال کی گئی ہے جسے اس دنیا کے گرد سات دفعہ لپیٹا جا سکتا ہے۔اس پل کے ڈیزائن میں اس کی لمبائی 12825 فٹ رکھی گئی تھی لیکن 17جنوری 1995ء کو آنے والے زلزلے کے باعث اس کی لمبائی میں تین فٹ کا اضافہ ہو گیا۔ اپریل 2006ء میں اس طویل ترین سسپنشن برج کو دنیا کے سات نئے عجائبات میں شامل کیا گیا۔عالمی ریکارڈزاس پل کے تین عالمی ریکارڈ ہیں۔ یعنی سب سے لمبا پل، سب سے اونچا پل اور سب سے مہنگا پل۔ اس کی تعمیر پر 4.3بلین ڈالر کی لاگت آئی جو اب تک دنیا میں کسی بھی پل کی سب سے بڑی لاگت ہے۔

آج کا دن

آج کا دن

اپالو10کی لانچنگ16 اپریل 1972ء کو امریکی خلائی مشن ''اپالو10‘‘ اپنے مشن پر روانہ ہوا۔ یہ چاند پر اترنے والا پانچواں مشن تھا۔ ''اپالو‘‘ ناسا کا ایک خلائی پروگرام تھا جس میں متعدد خلائی جہاز چاند پر بھیجے گئے۔ اس مشن کا مقصد چاند کی سطح پر لمبے عرصے کیلئے قیام کرنا،سائنسی معلومات اکٹھی کرنا،لونر کا استعمال کرنا اور تصاویر لینا شامل تھا۔اپالو کے ذریعے ماہرین نے چاند پر ایک ایسی جگہ کوتلاش کیاجس کے متعلق کہا گیا کہ یہاں آتش فشاں پھٹا ہے ،لیکن تحقیق کے بعد یہ بات ثابت نہیں ہو سکی۔لبنان پراسرائیلی حملہ1996ء میں آج کے روز اسرائیل نے ہیلی کاپٹروں سے لبنان پر میزائل فائر کئے، جس کے نتیجے میں متعدد لبنانی شہری جاں بحق اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ اسرائیلی اپاچی ہیلی کاپٹر نے اسرائیل کی حدود سے 8کلومیٹر دور اس وقت ایک ایمبولینس پر میزائل داغا جب وہ اقوام متحدہ کی ایک چوکی سے گزر رہی تھی۔ اس گاڑی میں 13 افراد سوار تھے۔ یہ حملہ اسرائیل کی طرف سے ''آپریشن گریپس آف ریتھ‘‘ کے نفاذ کے اعلان کے فوراً بعد کیا گیا ۔باگا کا قتل عامباگا کا قتل عام 16 اپریل 2013ء کو بورنو ریاست کے گاؤں باگا، نائیجیریا سے شروع ہوا۔ اس قتل عام میں 200 سے زیادہ شہری ہلاک اور سیکڑوں زخمی ہوئے۔ کروڑوں مالیت کی املاک نذر آتش کر دی گئیں۔ تقریباً2ہزار سے زائد گھر اور کاروباری مراکز تباہ کر دیئے گئے۔ مہاجرین، شہری حکام، اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے نائیجیریا کی فوج پر قتل عام کا الزام لگایا۔ فوجی حکام نے باغی گروپ بوکو حرام کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا۔ نائیجیریا میں ہونے والی اس خانہ جنگی میں ہزاروں افراد لقمہ اجل بنے۔ایکواڈور میں زلزلہ2016ء میں آج کے دن ایکواڈور میں شدید زلزلہ آیا۔ اس زلزلے کی شدت 7.8 ریکارڈ کی گئی، یہ ایکواڈور میں آنے والے بدترین زلزلوں میں سے ایک تھا۔جن علاقوں میں زلزلے کا مرکز تھا وہاں ہلاکتوں کی تعداد 75فیصد سے زیادہ تھی۔مانتا کا مرکزی تجارتی شاپنگ ڈسٹرکٹ'' تارکی‘‘ سمیت متعدد عمارتیں گر تباہ ہو گئیں۔

امجد بوبی:پر اثر دھنوں کے بے تاج بادشاہ

امجد بوبی:پر اثر دھنوں کے بے تاج بادشاہ

امجد بوبی کا شمار پاکستان فلم انڈسٹری کے ان موسیقاروں میں ہوتا ہے جنہوں نے دنیائے موسیقی میں نئے رجحانات کو متعارف کروایا۔ 1942ء میں امرتسر میں پیدا ہونے والے امجد بوبی 15اپریل 2005ء کو اس دنیا سے رخصت ہوئے، آج ان کی 20ویں برسی ہے۔امجد بوبی کا تعلق ایک موسیقار گھرانے سے تھا جوموسیقی کے حوالے سے اپنی ایک منفرد شناخت رکھتا تھا۔وہ رشیدعطرے جیسے عظیم موسیقار کے بھانجے تھے۔ موسیقار وجاہت عطرے ان کے ماموں زاد بھائی جبکہ موسیقار صفدرحسین، موسیقار ذوالفقارعلی اور گلوکار منیر حسین ان کے قریبی عزیز تھے۔ ان کے والد غلام حسین خان بھی ایک کلاسیکل گائیک تھے۔ یوں موسیقی سے لگائو انہیں وراثت میں ملا تھااور یہی لگائو انہیں فلم انڈسٹری میں کھینچ لایا۔ انھوں نے موسیقی کی تربیت اپنے والد سے حاصل کی تھی۔ ایک طویل عرصہ تک رشیدعطرے ، اے حمید اور ناشاد کی معاونت کی لیکن خو دکو ایک بڑا موسیقار منوانے کیلئے خاصی جدوجہد کرنا پڑی۔امجد بوبی کی بطور موسیقار پہلی فلم ''اک نگینہ‘‘ تھی جو 1969ء میں سینما گھروں کی زینت بنی۔ اس فلم میں شامل احمدرشدی کے گائے ہوئے دو گیت ''مل گئی، مل گئی ہم کو پیار کی یہ منزل‘‘ اور ''دل نہیں تو کوئی شیشہ، کوئی پتھر ہی ملے‘‘ بہت مقبول ہوئے۔ اس کے علاوہ گلوکارہ آئرن پروین کا گایا ہوا گیت ''ساری سکھیوں کے بلم گورے، میرا بلم کالا‘‘ بھی ایک خوبصورت گیت تھا۔ اسی سال ان کی فلم ''میری بھابھی‘‘ کے گیت بھی بہت پسند کئے گئے، خاص طور پر مسعودرانا کا تھیم سانگ ''نہ کوئی پٹوار نہ مانجی اور کوئی نہ ناو‘‘۔ انہیں بریک تھرو کیلئے دس سال تک انتظار کرنا پڑا۔ 1979ء میں فلم ''نقش قدم‘‘ ریلیز ہوئی تو اس میں شامل گلوکار اے نیئر کا گایا ہوا گیت ''کرتا رہوں گا یاد تجھے میں، یونہی صبح و شام، مٹ نہ سکے گا میرے دل سے بینا تیرا نام‘‘ ان کا پہلا سپرہٹ گیت تھا۔ امجد بوبی کو 80ء کی دھائی میں بڑا عروج ملا۔ اس دور کے وہ اردو فلموں کے مصروف ترین موسیقار تھے۔ 1984ء میں فلم ''بوبی‘‘ کیلئے بنایا ہوا ان کا گیت ''اک بار ملو ہم سے تو سو بار ملیں گے‘‘ بہت مقبول ہوا۔ یہ گیت غلام عباس کے علاوہ اداکارہ سلمیٰ آغا کی آواز میں بھی ریکارڈ کیا گیا تھا۔فلم مشکل (1995ء) میں مہناز اور تسکین جاوید کا الگ الگ گایا ہوا گیت ''دل ہوگیا ہے تیرا دیوانہ ، اب کوئی جچتا نہیں‘‘ایک سپرہٹ گیت تھا۔ فلم ''چیف صاحب‘‘ (1996ء) میں سجادعلی کا گیت ''بس بھئی بس زیادہ بات نہیں چیف صاحب‘‘ایک سٹریٹ سانگ تھا۔ اس فلم میں امجد بوبی نے گلوکار وارث بیگ سے نو گیت گوائے تھے۔ہدایتکار سید نور کی سپر ہٹ فلم ''گھونگھٹ‘‘ (1997ء) میں ارشد محمود کیلئے انھوں نے یہ سپرہٹ دھن بنائی تھی ''دیکھا جو چہرہ تیرا ، موسم بھی پیارا لگا‘‘ فلم سنگم (1998ء) میں سائرہ نسیم اور وارث بیگ سے الگ الگ گوائے گئے گیت ''آ پیار دل میں جگا‘‘بھی سدا بہارتھے۔ ان کے علاوہ انھوں نے بہت سے بھارتی گلوکاروں سے بھی گیت گوائے تھے۔ امجد بوبی کو اپنے مداحوں سے بچھڑے 20برس بیت گئے ہیں مگر وہ اپنے چاہنے والوں کے دلوں میں اپنی دھنوں کی بدولت آج بھی زندہ ہیں۔

محلات فیروز شاہی

محلات فیروز شاہی

فیروز شاہ تغلق سلطنت دہلی کے تغلق خاندان کے تیسرے حکمران تھے جنہوں نے 1351ء سے 1388ء تک حکومت کی۔فیروز شاہ نے اپنے عہد میں ایک نیا شہر فیروزآباد کے نام سے آباد کیا جس کیلئے اٹھارہ گائوں مثلاً اندر پٹ، سرائے شیخ ملک بار، سرائے شیخ ابوبکر طوسی، کاربن، کیشواڑہ، اندولی، سرائے بلکہ رضیہ، مہرولہ اور سلطان پور وغیرہ کی زمینیں حاصل کی گئیں۔ یہ شہر پانچ کوس تک پھیلا ہوا تھا۔ اس میں امرا نے بھی اپنے اپنے محل بنوائے، عام لوگوں نے بھی پختہ مکانات تعمیر کرائے، مسجدیں بکثرت بنوائی گئیں، ہر مسجد میں دس دس ہزار نمازی جمع ہو سکتے تھے۔ دہلی اور فیروز آباد کے درمیان پانچ کوس کا فاصلہ تھا لیکن آے جانے کیلئے سواریاں ہر وقت موجود رہتی تھیں، جن کا کرایہ بہت کم تھا، مثلاً گھوڑے کا کرایہ بارہ جیتل اور ڈولہ کا نیم تنکہ تھا۔اس شہر میں فیروز شاہ نے بہت سے محل بنوائے۔ ان میں سے محل صحن گلبن، محل چھجہ چوبیںاور محل بار نمایاں ہیں۔ یہ محل درباروں کے انعقاد کے کام کیلئے تھے، زنانہ محل نہ تھے۔ فیروز شاہ کے مختلف کوشکوں کا جو جا بجا ذکر آتا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کوشک فیروز آباد کو شک نردی، کوشک مہندواری، کوشک شہر حصار اور کوشک شکار نئے شہر میں بنوائے۔ ان کے علاوہ انہوں نے فتح آباد جونپور اور سالورہ میں بھی کوشکوں کی تعمیر کرائی۔ تعمیرات کا جتنا ذوق انہیں تھا، اس سے پہلے کے سلاطین کو نہ رہا۔ اسی لئے اس نے امیر عمارت کا ایک عہدہ مقرر کر رکھا تھا، جس کو امتیازی حیثیت دینے کیلئے چوب زر عطا کیا تھا۔ اسی طرح سنگ تراشوں، چوب تراشوں، بنکروں، آرہ کشوں، چونہ پزوں اور معماروں کے علیحدہ علیحدہ شعبے مقرر تھے۔اوپر جتنے محلات کا ذکر کیا ہے وہ یا تو ختم ہو چکے ہیں یا کھنڈرات کے ڈھیر ہیں، اس لئے ان کے اندرونی حصوں کی تفصیل بیان کرنا سعی لاحاصل ہے، پھر بھی یہ اندازہ ہوا ہوگا کہ یہ محل کسی اونچے مقام یا دریا کے کنارے بنائے جاتے تاکہ یہ بہت ہی ہوادار ہوں اور ان کا حسن بڑھانے کی خاطر، ان کا عکس دن کی روشنی میں اور رات کو چاندنی میں دریا کے بہتے ہوئے پانی میں پڑتا رہے۔ محل کے اندر چمن اور باغ کے علاوہ مطبخ، شراب خانہ، شمع خانہ، سگ خانہ، آب دارخانہ فراش خانہ، جام دار خانہ، پوشاک خانہ، غسل خانہ، خواب گاہ اور زنان خانہ وغیرہ ہوتے۔ ان میں بعض چیزوں کی تفصیل آگے آئے گی، عام طور سے محل کو آراستہ پیراستہ کرکے بہشت کا نمونہ بنا دیا جاتا، دیواروں پر مخمل اور ریشمی کپڑے کے پردے ہوتے،جن میں جواہرات ٹکے رہتے، اندر نقرئی اور طلائی پچی کاری سے زینت و آرائش کی جاتی اور وہاں اسلحہ، زریں ہتھیار، قندیل، شمع دان، قالین، آفتابے، قلم دان، بساط اور کتابوں کی الماریاں ہوتیں، قندیلیں رات کو روشن ہوتیں تو تمام ایوان روشن ہو جاتا محل کی زینت و آرائش کا ذکر جا بجا آئے گا۔محل میں گھڑیال ضرور ہوتا، جس سے لوگوں کو ٹھیک وقت معلوم ہوتا رہتا، رات کے وقت محل کے ارد گرد سخت پہرہ ہوتا، پہلی گھڑی کے بعد کسی کو محل کے احاطہ میں داخل ہونے کی اجازت نہ تھی، جب تک سلطان کی اجازت نہ ہوتی، ایک خاص عہدہ دار رات کے سانحے قلم بند کرتا رہتا جو وہ صبح کو سلطان کی خدمت میں پیش کرتا۔وقار حرمحرم کی بیگمات کیلئے محل کے علاحدہ علاحدہ سکونتی حصے ہوتے اور ان کی خدمت کیلئے کثیر تعداد میں کنیزیں اور خواجہ سرا ہر وقت حاضر رہتے۔ ان کے رہنے کی جگہ سے الگ تھلگ ہوتی اور صرف وہی رشتہ دار مرد محل کے اندر آ جا سکتے تھے جن کو سلطان کی طرف سے اجازت ملتی تھی۔اسلامی پردہ تو یہ تھا کہ عورتیں چہرہ اور ہاتھ کھول کر جلباب یا برقعہ کے ساتھ باہر نکل سکتی تھیں لیکن شاہی عزت و وقار اسی میں سمجھا جاتا کہ بیگمات پر خاص خاص رشتہ داروں کے علاوہ کسی اور مرد کی نظر نہ پڑے۔ ان ہی کی تقلید میں عام عورتیں بھی گھر کی چار دیواری میں رہنے لگیں۔شوکت کا مظاہرہبیگمات کی تہذیبی شان و شوکت کا اظہار محل کے اندر تقریبات کے موقع پر ہوا کرتا تھا۔ وہ صحنوں میں بڑے بڑے سائبان اور خیمے کھڑے کراتی تھیں، اس کے نیچے طرح طرح کے عمدہ فرش بچھواتیں، جن پر دیبامنڈھا ہوتا اور جواہرات بھی ٹنکے رہتے۔ ابن بطوطہ کا بیان ہے کہ محمد تغلق کی تاج پوشی کے موقع پر محل کے اندر جو جشن منایا گیا تو اس کی ماں مخدومہ جہاں ایک سونے کے تخت پر بیٹھی ہوئی تھی اور محل اور امراء کی بیگمات زرق برق پوشاک میں ملبوس اور زیورات سے لدی ہوتی تھیں۔ اس موقع پر اتنی چمک دمک تھی کہ اس کی چکا چوند سے مخدومہ جہاں کی بینائی جاتی رہی اور ہر طرح کے علاج کے باوجود کوئی فائدہ نہ ہوا۔تقریبات کے موقع پر بیگمات جو مراسم ادا کرتی تھیں، اس کا ذکر تقریبات میں آئے گا۔نذرانےمحل کے اندر جو عورت بیگمات سے ملنے کو جاتی تو اس کے ساتھ مختلف قسم کی نوازشیں کی جاتیں، مثلاً ابن بطوطہ کی بیوی محمد تغلق کی ماں سے ملنے کو گئی تو اس کو ایک ہزار روپے سونے کے جڑائو کڑے اور ہار، زردوزی کتان کے کرتے، زردوزی ریشم کا خلعت اور کپڑے کے کئی تھان دیئے گئے۔ جو عورتیں مہمان بن کر جاتیں وہ بھی اپنے ساتھ طرح طرح کے نذرانے لے جاتیں، ابن بطوطہ کی بیوی نذرانے میں ایک ترکی لونڈی لے گئی تھی۔محل کے عہدہ دارمحل کے اندرآنے جانے میں بڑی سختی تھی، محل کا کلید بردار وکیل درکہلاتا، جس پر کوئی معزز درباری ہی مامور کیا جاتا اور اسی کی اجازت سے محل کا دروازہ کھلتا، وہ بیگمات شہزادوں، باورچی خانہ، شراب خانہ وغیرہ کا نگران اعلان ہوتا، بیگمات اور شہزادے اسی کے ذریعہ سے سلطان کی خدمت میں پیش کرتے، اسی لئے وہ بڑا بااثر اور بااقتدار عہدہ دار سمجھا جاتا، اس کے ماتحت نائب وکیل در اور بہت سے ملازم ہوتے۔محل کے مختلف دروازوں پر پہرہ دار ہوتے، پہرہ داروں کے افسر کو پردہ دار کہا جاتا، اس عہدہ پر بھی امرا ہی مامور کئے جاتے، شاہی محل کے دروازہ پر کوئی واقعہ ہو جاتا تومتصدی اس کی بھی تفصیل لکھ لیتے، سلطان رات کے وقت ان تمام اندراجات کو روزانہ پڑھتا۔

حکایت سعدیؒ:موت

حکایت سعدیؒ:موت

ایک شخص مر گیا تو دوسرے آدمی نے اس کے غم میں گریبان پھاڑ لیا۔ سمجھ دار آدمی نے اس کا رونا دھونا اور کپڑے پھاڑنا دیکھا تو کہا کہ اگر مردے کے ہاتھ حرکت کر سکتے تو وہ یہ دیکھ کر اپنا کفن پھاڑ لیتا اور کہتا تم میری موت کی وجہ سے اتنے پیچ تاب کیوں کھارہے ہو۔ میں ایک دن پہلے آ گیا ہوں تم ایک دن پیچھے آؤ گے۔ میری موت کو تو روتے ہو مگر اپنی موت بھلا رکھی ہے کہ کل تمہیں بھی یہ سفر درپیش ہوگا۔ صاحب بصیرت آدمی جب مردے پر مٹی ڈالتا ہے تو وہ یہ سوچ کر آبدیدہ ہو جاتا ہے کہ کل میرے اوپر بھی مٹی ڈالی جائے گی۔ اگر چھوٹا بچہ مر گیا تو اس کے غم میں کیا روتے ہو کہ وہ جیسا معصوم دنیا میں آیا تھا ویسا ہی معصوم یہاں سے چلا گیا۔ فکر کی بات تو یہ ہے کہ تم پاک آ کر ناپاک جاؤ۔ روح کے پرندے کو صالح اعمال کا پابند کر لو ورنہ جب یہ اڑ جائے گا تو کچھ بھی نہ ہو سکے گا۔ جب تم کسی کی نماز جنازہ پڑھو تو سوچ لو کہ ایک دن تمہاری بھی نماز جنازہ پڑھی جائے گی۔ موت سے کوئی شخص نہیں بچ سکتا۔ اس لیے جب دوسروں کو دفناؤ تو سوچ لو کہ ایک دن ہمیں بھی یوں ہی دفنایا جائے گا۔ مُردوں پر رونے کی بجائے اپنی موت کی تیاری کرو۔ ٭٭٭٭٭

آج کا دن

آج کا دن

انسولین سے علاج کی شروعات15اپریل1923ء کو انسولین کو ذیابیطس کے مریضوں کیلئے بطور دوا استعمال کرنے کی منظوری دی گئی۔ 1923ء سے کئی سال قبل اس کی تیاری پر کام شروع ہوچکا تھا۔ متعدد تجرباتی مراحل عبور کرنے کے بعد ماہرین نے اسے انسانوں پر استعمال کے لئے محفوظ قرار دیا جس کے بعد انسولین کو عام عوام کیلئے مارکیٹ میں فراہم کر دیا گیا۔انسولین دراصل ایک پیپٹائڈ ہارمون ہے جو لبلے کے ''بیٹا‘‘ (Beta)خلیوں کے ذریعے تیار کیا جاتا ہے جو انسان میںINSجین کے ذریعے انکوڈ ہوتا ہے۔برطانیہ نے ایٹمی دھماکہ کیادوسری عالمی جنگ میں امریکہ کی جانب سے جاپان کے خلاف ایٹم بم کے استعمال نے دنیا میں ایٹمی طاقت بننے کی ایک تباہ کن ریس کا آغاز کردیا۔دنیا کے بیشتر ممالک ایٹمی ہتھیاروں کو اپنی بقاء کا ضامن قرار دینے لگے۔اسی سلسلے میں برطانیہ نے بھی ایٹمی ہتھیاروں کے پروگرام کا آغاز کیا اور 15اپریل 1957ء میں ایٹم بم کا کامیاب تجربہ کرنے کے بعد برطانیہ ایٹمی طاقت رکھنے والا دنیا کا تیسرا ملک بن گیا۔برطانیہ کے ایٹمی دھماکے نے مشرقی ممالک میں بھی یہ فکر پیدا کر دی کہ ایٹمی ہتھیار دفاع کا اہم حصہ ہے۔ٹائی ٹینک ڈوباٹائی ٹینک 15 اپریل 1912ء کی صبح شمالی بحر اوقیانوس میں ڈوبا، یہ جہاز ساؤتھمپٹن سے نیو یارک سٹی کیلئے سفر کر رہا تھا۔ٹائی ٹینک کو اس وقت سب سے بڑاسمندری جہاز ہونے کا اعزاز حاصل تھا۔ ایک اندازے کے مطابق حادثے کے قبل ٹائی ٹینک میں تقریباًدو ہزار224افراد سوار تھے۔اپنے سفر کے دوران جہاز ایک برف کے پہار سے ٹکرایا اور دو گھنٹے چالیس منٹ بعد وہ ڈوب گیا۔اس حادثے کے نتیجے میں 1500سے زائد افراد ہلاک ہوئے ،اسے سمندری تاریخ کا سب سے بڑا حادثہ سمجھا جاتا ہے۔75ہزار افراد پر مشتمل ملیشیا15 اپریل، 1861 ء کو امریکی خانہ جنگی کے آغاز پر امریکی صدر ابراہم لنکن نے فورٹ سمٹر پر بمباری اور ہتھیار ڈالنے کے بعد تین ماہ کیلئے 75ہزارافراد پر مشتمل ملیشیا کو طلب کیا۔ کچھ جنوبی ریاستوں نے پڑوسی ڈیپ ساؤتھ غلام ریاستوں جن میں جنوبی کیرولائنا، مسیسیپی، فلوریڈا، الاباما، جارجیا، لوزیانا اور ٹیکساس شامل تھیں کے خلاف فوج بھیجنے سے انکار کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ ورجینیا، آرکنساس، نارتھ کیرولائنا اور ٹینیسی کے بالائی جنوبی علاقوں میں زیادہ تر ریاستوں نے بھی امریکہ سے علیحدگی کا اعلان کر دیا اور کنفیڈریٹ ریاستوں میں شامل ہو گئے۔