بنیادی اکائی
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ
اسی کے ساز سے ہے زندگی کا سوز دروں
عورت خاندان کی بنیادی اکائی ہے اور خاندان معاشرے کی بنیادی اکائی ۔ جب تک خاندان مستحکم نہیں ہو گا، معاشرہ ترقی نہیں کر سکتا اور خاندانی استحکام عورتوں کے مرہون منت ہے۔ مستحکم خاندان کے لیے عورت کا مضبوط اورمستحکم ہونا اشد ضروری ہے۔ تو یہ طے ہے کہ معاشرے کی ترقی کے لیے عورت کو میدان عمل میں اترنا ہو گا، اپنی تہذیب و تمدن کے زیر سایہ سماجی تقاضوں کے مطابق خاندان کی تشکیل نو کرنا ملکی ترقی کے لیے ناگزیر ہے۔ اس لیے ضروری ہے کہ ایسا لائحہ عمل ترتیب دیا جائے، جس پر عمل پیرا ہو کر عورت قدرت کی طرف سے تفویض کردہ ذمہ داریوں کو بآسانی نبھا سکے۔ اس لائحہ عمل میں دو باتوں کا دھیان رکھنا انتہائی ضروری ہیں۔ ایک یہ کہ کلچر اور اقدار کے مطابق ڈیزائن کیا جائے۔ دوسرا یہ انسانی فطرت کے مطابق ہو۔اس ضمن میں چند اقدامات کئے جائیں تو یقیناً معاشرہ اور ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکتے ہیں۔ اگر ہم اب بھی بیدار نہ ہوئے تو وہ وقت دور نہیں جب ہم اپنا تشخص، کھو کر مغربیت میں ضم ہو جائیں گے اور ہماری ترقی کا خواب خواب ہی رہے گا۔اس سلسلے میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اس معاملے کو سنجیدگی سے لیا جائے۔ اس کے لیے کچھ تجاویز ہیں۔ اگر ان کو قابل عمل بنایا جائے، تو انشاء اللہ نہ صرف عورت اور خاندان خوشحال ہوں گے بلکہ ملک بھی ترقی کی راہ پر گامزن ہوگا۔
یقیناً وہ عورت ہی معاشرے میں اپنا کردار ادا کر سکتی ہے، جو خود مضبوط ہو ،اور عورت کے مضبوط ہونے کا دارومدار اس کے مضبوط کردار پر ہے۔ ایک با حیا با شعور ، عصمت مآب اچھی سیرت و کردار کی عورت ہی نہ صرف اچھا خاندان تشکیل دے سکتی ہے۔ بلکہ آنے والی نسلوں کو بھی سنوار سکتی ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ عورت کو شعور دیا جائے،اس کی تعلیم کے ساتھ تربیت پر بھرپور توجہ دی جائے۔ پردہ اور حیا کی اہمیت افادیت اور عورت کا شعور، اور خودی ،بیدار کرنے کیلئے ملک گیر مہم چلائی جائے۔ دور رواںمیں عورت جو بنیادی غلطیاں کر رہی ہے ،ان کا احساس دلانے کے ساتھ طلاق کی ناپسندیدگی واضح کی جائے۔ خاندان مختصر کرنے پر آگاہی سٹال لگانے کی بجائے خاندان کی خوشحالی اور خوشگوار زندگی میں عورت کے کردار اور ذمہ داری کی اہمیت کی آگاہی پر سٹال لگائیں جائیں۔ اسی طرح دور حاضر کے فتنوں سے روشناس کروایا جائے۔ آج کی عورت گھر بنانے سے پہلے الگ گھر کی فرمائش کر رہی ، رشتوں کے تقدس کو پامال کر رہی ہے ،بچوں سے ان کے خوبصورت رشتے چھین کر انہیں ٹیکنالوجی کے رحم کرم پر چھوڑ رہی ہے۔ ساس سسر،کو ایدھی سنٹر کے حوالے کرتے ہوئے بھول رہی ہے کہ کل اپنی بوئی ہوئی فصل کو کاٹنا بھی ہے۔ آج کی عورت کو اپنی اقدار باہمی احترام کا شعور دینا ہو گا اپنی اور دوسری تہذیبوں کا امتیاز سمجھانا ہو گا۔
قدرت نے عورت کو جس مقصد کیلئے تخلیق کیا ہے اس کی جسمانی ساخت کو اسی کے مطابق بنایا ہے اور اسی کے مطابق طاقت دی ہے۔ اس لیے ضرورت اس امر کی بھی ہے کہ تکریم نسواں کا شعور بیدار کیا جائے اور مردوں کو ان کی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے تاکہ عورت معاشی ذمہ داریوں کے اضافی بوجھ سے بے فکر ہو کر نسلوں کی تربیت کر سکیں۔
نکاح اور خاندان سازی کی اہمیت کو اجاگر کیا جائے نکاح جیسا پاکیزہ تعلق ہی معاشرے میں بڑھتی ہوئی بے راہ روی کا سدباب کر سکتا ہے۔ہمارے معاشرے کا المیہ یہ ہے کہ بچپن میں بچی کی تربیت پر''ابھی تو بچی ہے‘‘،کہہ کر توجہ نہیں دی جاتی، قطع نظر اس بات کے کہ درخت اگر ایک بار ٹیڑھے پن سے بڑا ہو جائے تو پھر کبھی سیدھا نہیں ہوتا۔یہی بہترین وقت ہوتاہے سادہ لوح،پر جو بھی لکھا جاتاہے وہی نقش ہو جاتا ہے۔ پھر ہوش تب آتا ہے جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے کبھی یہ نکاح والدین اپنی ناک اونچی رکھنے کی خاطر ،اپنے معیار کے چکر میں نہیں کرتے تو کبھی نہایت قبیح رسم جہیز کی عدم دستیابی، کی وجہ سے نہیں ہو پاتا، یہاں تک کہ بعض اوقات تو بیٹیوں کی شادی اس وجہ سے نہیں کی جاتی کہ یہ کما رہی ہیں۔ اس سارے عمل میں عورت کہیں خود قصور وار ہے تو کہیں بے قصور ہی معاشرے کی ناانصافیوں کی سزاوار ٹھہری ہے۔
اس لیے نوجوان نسل کی فکری اور عملی تربیت کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک عورت اپنے اصل مقام پر نہیں آئے گی، معاشرے میں بڑھتے مسائل میں کمی نہیں آئے گی۔ آج اگر ہمیں طارق بن زیاد، محمد بن قاسم ،صلاح الدین ایوبی، ارطغرل غازی نظر نہیں آتے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہماری نسلوں کی تربیت جن کے ہاتھوں میں ہے وہ فکری اور عملی محاذ پر دشواریوں کا شکارہیں۔
امام حسین ؓکی سیرت و کردار کو داد دیتے ہوئے دنیا کبھی نہیں بھولے گی، یہ عظیم سپوت سیدہ کائنات حضرت فاطمہ زہراؓ جیسی عظیم ماں کی تربیت کانتیجہ ہے سیرت صحابیاتؓ آج کی عورت کیلئے بہترین مشعل راہ ہے۔ مغربی ثقافتی یلغار سے بچنے اور اسلام کی پاکیزہ تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کیلئے ہمیں ہر محاذ پر لڑنا ہو گا،ترقی اور خوشحالی میں عورت کے کرداراور ذمہ داری کو اجاگر کرنے کیلئے علماء اور مشائخ کو تعلیمی اداروں کے سربراہان با شعور خواتین و حضرات کو اپنے اپنے منصب کے مطابق آگاہی کو پھیلانا ہو گا۔