79 سالہ جوڑے کی 100 لے پالک بچیاں
امریکی شہر سنساٹی میں مقیم 79سالہ ایل ہل (AI Hill) اور اس سے چند مہینے چھوٹی این کی شادی کو 53برس بیت گئے ہیں۔ گزشتہ دنوں یہ جوڑا اپنی شادی کی 53ویں سالگرہ مناتے وقت کس قدر مطمئن تھا،دونوں میاں بیوی اپنی ایک سو لے پالک بچیوں کو یاد کر کے خوش ہو رہے تھے۔ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے بیتے دنوں کو یاد کر رہے تھے ۔جب 30برس میں انہوں نے ایک سو بچیوں کو گلیوں اور سڑکوں سے اٹھایا ،اپنے گھر میں رہائش دی، ماں باپ کا پیار دیا،اپنی بیٹیوں کی طرح پال پوس کر ، پڑھا لکھا کر پیا کے گھر بھیج دیا۔ سبھی اپنے اپنے گھروں میں آباد ہیں، کبھی کبھار کوئی ملنے آجاتی ہے۔ اجنبی لڑکیوں کو اس قدر پیار دینے کی مثالیں آج کے کارپوریٹ دور میں ملنا مشکل ہے ۔
ایک بار گلی میں واقع ایک گھر میں آگ بھڑک اٹھی تھی،ایک بہن کو بھائی نے کھڑکی سے باہر پھینکا، بھائی نے بہن کو تو بچا لیا لیکن خود اسی آگ میں جل مرا ۔ این اسے گھر لے آئی ، اس کی تصویر بھی ایک فریم میں بستر کے قریب پڑی تھی۔
اس برس ان کے چہرے کی مسکراہٹ پہلے جیسی نہ تھی، این چپ چپ سی تھی، ان کی پیاری لے پالک بیٹی روہنڈا کی اسی برس وفات ہوئی تھی۔ اسے کینسر تھا ،کئی برس روہنڈا کینسر کے موذی مرض سے لڑتی رہی لیکن ہار گئی، اس دنیا سے جاتے جاتے وہ این کی مسکراہٹ بھی ساتھ لے گئی۔آخر اسے بھی تو اپنی ماں کی ضرورت تھی!۔
اس جوڑے کی کہانی کچھ یوں ہے کہ ان دونوں نے جارجیا میں جنم لیا، روزگار کی تلاش دونوں کو سنسناٹی کھینچ لائی ۔ہل کی سولہ بہنیں تھیں لیکن وہ ان کے ساتھ نہ رہ سکی ۔این کا بھی اپنا گھر نہیں تھا اس کی پرورش نانی کے ہاں ہوئی۔این ، ہل کے بارے میں کہا کرتی تھی کہ '' سکول میں ہل کافی شیطان ہوا کرتا تھا جبکہ ہل کہتا ہے کہ ''این سکول میں بے حد شاطر لڑکی تھی‘‘۔
ہل بڑاہواتو فوج میں چلا گیاا سے ویت نام بھیج دیا گیا۔ دونوں میں اس قدر پیار تھا کہ دوران جنگ بھی اسے این کے ہاتھوں کے بنے ہوئے کیک ملا کرتے تھے ۔ وہ کہتا ہے کہ'' ان لذیذ کیکس کے ذکر سے ہی منہ میں پانی بھر جاتا ہے۔ پوری دنیا میں ایک ہی عورت اچھا کیک بناتی تھی اور وہ تھی میری نانی۔ لیکن این ان کا مقابلہ کر سکتی تھی‘‘۔
فوج چھوڑ کر ہل نے بس ڈرائیوری کی نوکری کر لی، پھر ایک کمپنی میں37برس منیجر رہا۔ اس دوران اس کی بیوی اپنی بچیوں کو بھی اپنے بنائے ہوئے کیکوں سے تواضعوں کیا کرتی تھی۔
وہ کہتے ہیں کہ شادی کے بعد کا کچھ عرصہ کافی تلخ رہا ،جب ان کے ہاں اپنی کوئی اولاد نہ ہوئی تواللہ تعالیٰ نے ان کے دل میں بن ماں باپ کی بچیوں کے لئے ایسا رحم ڈالا کہ وہ آج ہمارے ان داتائوں کے لئے لازوال مثال بن گئے۔ انہوں نے سڑکوں ،گلیوں میں بھٹکنے والی بچیوں کو بے رحم زمانے سے بچایا ،جن کا کوئی والی وارث نہ تھا انہیں اپنے گھر لے آئے ۔ اس خاندان نے ان کے سروں پر ہاتھ رکھا، ہر خواہش پوری کی،مسٹر ہل ہر چیز یںلینے خود بازار جاتے تھے۔ گراسری شاپ قریب ہی تھی۔ ان کے لئے دکان سے چیزیں لانا کتنا اچھا لگتاتھا، اپنی بیٹیاں تھیں، تھکن کیسے ہوتی۔ ''کتنا اچھا وقت تھا وہ‘‘....میاں نے بیوی سے کہا۔''چھوٹے سے گھر میں کتنی رونقیں ہوا کرتی تھیں ،ہر کونے سے ہنسی پھوٹ رہی ہوتی تھی۔ مسرتیں تھیں اور ہم تھے۔اب کتناسناٹا ہے، ہمارے سواکوئی نہیں رہتا‘‘ ۔ میاں نے سرگوشی کے انداز میں سر ہلایا۔
بیوی بھی خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ اثبات میں سر ہلایا۔ شوہر نے کہا ''ہائے رے بڑھاپا!اکثر بیٹیوں کے نام بھی ذہن سے مٹ چکے ہیں‘‘۔
ہل کافی ہوشیار ہے ،وہ جانتا ہے کہ اس کی شریک حیات این کی دماغی حالت دن بدن کمزور ہوتی جا رہی ہے لیکن وہ بھی اس کا امتحان لیتا رہتا ہے تاکہ 53سالہ جیون ساتھی کو فٹ رکھ سکے۔ کبھی پوچھتا ہے کہ ''تمہیں وہ وقت یاد ہے جب ہم فلاں بیٹی کو گھر لائے تھے‘‘۔ این زیادہ اونچی آواز میں نہیں بولتی نہ ہی بات کرتی ہے اس کے منہ سے صرف .....''مم ہم....مم‘‘ جیسے بے معنی الفاظ نکلتے ہیں۔ا سکے جوش سے ہل کو پتہ چل جاتا ہے کہ اس کی بیوی ٹھیک ٹھاک ہے۔ پھر ہل پوچھتا ہے ''تمہیں یاد ہے کہ جب فلاں بچی کو دانتوں میں برش بھی کرنا نہیں آتا تھا ، تم نے ہاتھ پکڑ کر دانت صاف کرنا سکھایا تھا۔ این پھر پرجوش لہجے میں کہتی...''ہم مم‘‘ !
اب این چل پھر نہیں سکتی،79 سالہ ہل خود بھی چلنے پھرنے میں دقت محسوس کرتے ہیں لیکن اپنی بیوی کو وہیل چیئر پر سیر ضرور کراتے ہیں، یہ ان کی واحد تفریح ہے۔ اب تواپنے گھر کی چھت پر دھوپ سینکتے ہوئے شام ہو جاتی ہے۔گلیوں میں رہنے والے سبھی لوگ ان کے نام سے واقف ہیں، وہ جب کبھی باہر نکلتے ہیں تو پورا محلہ خیر مقدم کرتا ہے ۔وہ بھی ہاتھ ہلا کر جواب دیتے ہیں۔ان کی بوڑھی ہڈیوں میں جان کم ہے ،وہ کسی کو سہارا دینے کی بجائے خود ہی اپنا سہارا بن جائیں تو بڑی بات ہے۔ اب ان کے کمانے اور لے پالک بیٹیاں پالنے کے دن گزر چکے ہیں ، کبھی کبھار کوئی بیٹی ملنے آ جاتی ہے ان کے لئے اتنا ہی کافی ہے۔
اتنا کچھ کرنے کے بعد بھی وہ یہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے کوئی تیر نہیں مارا۔ میاں نے کہا: ''میرے دوستو ! کسی کمزور اجنبی کا ہاتھ تھامنے سے کبھی نہ ہچکچانا۔جو کچھ ہم نے کیا ہے وہ فرض تھا ،باقیوں کو بھی یہی کرنا چاہئے۔اگر سبھی ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیں گے تو زندگی کتنی آسان ہو جائے گی‘‘۔